بڑی پارٹیوں اور رہنماؤں سے اختلاف کرنا اور نیا راستہ چننا سیاست میں کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی ان راستوں پر لوگ چل چکے ہیں۔ بڑے اور نامور اساتذہ سے شاگرد اختلاف رائے کرتے ہیں، ان کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے نئے نظریات پیش کیے جاتے ہیں، اساتذہ کے نظریات کے خلاف کتب تحریر کی جاتی ہیں۔یہ رجحان قدیم دور میں بھی موجود رہا اور آج کے دور میں بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے۔پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں اختلاف رائے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے جو شخص اپنی لیڈر شپ سے اختلاف رائے کرتا ہے اس کیلئے پارٹی میں رہنا مشکل بنا دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان بڑی ’’لمیٹڈ کمپنیوں‘‘میں یا تو سر جھکا کر وقت گزارا جا سکتا ہےیاپھر گمنامی اورجماعت بدری مقدر ٹھہرتی ہے۔ تاہم کچھ باہمت لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی پارٹیوں سے اختلاف کیا یا اپنے راستے جدا کیے تو عوام نے انہیں پذیرائی بخشی، انکے نام آج بھی تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں۔شہید ذوالفقار علی بھٹو،ایوب خان کے دور حکومت میں وزیر خارجہ تھے،انہوں نے ان سے اختلاف کیا، اپنی نئی پارٹی بنائی اور قائد عوام ٹھہرے۔جناب میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کے ایک بڑے دریا سے ن لیگ کے نام سے ایک نئی نہر نکالی اور پھر وہ بھی پاکستان کے مقبول ترین رہنماؤں میں شمار ہوئے۔ جناب عمران خان نے بھی دو پارٹی نظام سے بغاوت کرتے ہوئے عوام کو امید کی ایک نئی راہ دکھائی اور آج پاکستان کے کروڑوں افراد بلا مبالغہ ان کی محبت اپنے سینوں میں بسائے ہوئے ہیں اور انہیں اپنا نجات دہندہ بھی سمجھتے ہیں۔ان رہنماؤں کے علاوہ جناب غلام مصطفی جتوئی ایئر مارشل اصغر خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور اس طرح کے کئی بڑے ناموں نے اپنے اپنے طور پر کوشش کی لیکن وہ عوام کے دلوں میں جگہ نہ بنا سکے۔انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح اپنا راستہ تبدیل کر لیا یا پھر غلام مصطفی جتوئی کی طرح گوشہ گمنامی میں چلے گئے اور وہیں سے سفر آخرت کی راہ لی۔عوام پاکستان پارٹی نے بھی انہی رہنماؤں کی راہ پر چلنے کی کوشش کی ہے۔اس پارٹی کے اکثر رہنما مسلم لیگ نون میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے۔لیکن اب ان کے دل میں خیال آیا کہ ان عہدوں پر براجمان رہتے ہوئے قوم کی ’’ صحیح خدمت‘‘ کی جا سکی لہٰذا نئے سرے سے خدمت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام رہنما اپنی کاروباری کامیابیوں کے عروج پر ہیں۔انہوں نے اپنی محنت اور کاروباری مہارت سے پیسہ بھی کمایااور اپنے اثاثے بھی بنائے۔ ان کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے اور یہ کوئی بری بات نہیں۔یہ کاروباری لوگ پاکستان کا مثبت چہرہ ہیں پاکستانی معیشت میں خون کی طرح روا دواں ہیں۔لہٰذا ان کی کاروباری کامیابیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔یہ بھی درست ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ان ارب پتی افراد کے دل میں قوم کا درد،سیاست کے ذریعے ہی کیوں جاگتا ہے۔ سیاسی پارٹی کی افتتاحی تقریب میں جو تقاریر کی گئیں ان میں تو کوئی ایسی نئی بات نہیں کہ جس کے ذریعے ملک میں تبدیلی لائی جا سکے۔ کیا ان تمام معزز رہنماؤں کے پاس کوئی ایسا غیر معمولی ایجنڈا ہے کہ جس کی طرف لوگ متوجہ ہوں گے۔عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والے ان معزز رہنماؤں نے کس حد تک اپنی ذات کی قربانی دی ہے کہ ان کی باتوں کو لوگ سنجیدہ لیں ؟کیا یہ راہنما اپنے بنگلوں سے نکل کر عوامی سطح کے پانچ مرلوںکے مکان میں منتقل ہو گئے ہیں؟۔کیا انہوں نے بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا شروع کر دیا ہے؟کیا ان کا طرز زندگی عام لوگوں کے طرز زندگی کے مطابق ہے،؟یہ تمام معزز رہنما اپنی جوانی کا حصہ گزار چکے ہیں۔ کچھ بڑھاپے کی دہلیز پر ہیں اور کچھ پر بڑھاپا طاری ہو چکا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ تمام رہنما اپنے تجربات سے ملک و قوم کی درست سمت میںرہنمائی کرتے۔اگر یہ ملکی سیاست میںسنجیدہ تبدیلی لانے کے خواہشمند ہوتے تو ایک ایسا ادارہ بناتے جہاں پر نوجوانوں کی صحیح معنوں میں سیاسی تربیت کی جاتی۔یہ ملک بھر سے لڑکے اور لڑکیاں منتخب کرتے اور انکی سیاسی تربیت کرکے ملکی سیاست میں نیا خون داخل کرتے۔گرتی ہوئی سیاسی اقدار کو حیات نو بخشنے کا اہتمام کرتے،قوم کے بچوں کو ہنر مند بنانے کی کوشش کرتے۔یہ راہنما یاد رکھیں کہ عوام اور اشرافیہ کے مابین بڑھتے ہوے فاصلوں کو مصنوعی قیادت یا نمائشی اقدامات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔یہ فرمائشی پارٹیاں حقیقی قیادت کی جگہ نہیں لے سکتیں۔پارٹیاں بنانے والے انجینئرز کو بھی یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ 10 کروڑ سے زائد نوجوانوں کو زائد العمر راہنماؤں کے ذریعے ہینڈل نہیں کیا جاسکتا۔جہاں میاں نواز شریف جیسا راہنما عوامی توجہ سے محروم ہے وہاں یہ ارب پتی کتنی توجہ حاصل کر پائیں گے۔