• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو قومی نظریہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسانی وجودلیکن انسانی معاشرے کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ دو قومی نظریہ بھی ارتقاء پذیر رہا۔ ابتداء میں دو قبیلے بھی خود کو دو قومیں قرار دیتے تھے اور اپنے اپنے مفادات کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما رہتے تھے۔ اسی طرح جب ملک وجود میں آئے تو قومیت کا تصّور وطنیت کے ساتھ منسلک ہوگیا ۔ انسانی معاشرے میں مذہب کی آمد کے بعد قوم اور قومیّت کا تصّور مذہب کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ دو قومی نظرئیے کا سفر یہاں بھی ختم نہ ہوا بلکہ، لسانی گروہ ، ذات پات، خاندان اور پیشے بھی قومیّت کے زمرے میں آگئے اور ان کی بنیاد پر انسان ایک دوسرے سے خود کو علیحدہ کرتے چلے گئے ان تمام نظریات پر تقسیم درتقسیم کا یہ عمل انسانی معاشرے میں مثبت سے زیادہ منفی کردار ادا کرتا رہا۔ کیونکہ اس کا محور دوسروں سے محبت کی بجائے عداوت اور دینے کی بجائے لینے کے تصّور پر قائم تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں دوسری اقوام کے ساتھ ساتھ ہر قوم کے اندر بھی اختلافات اور جنگ و جدل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چنانچہ دنیا کی بڑی بڑی اور خوفناک جنگیں ایک ہی ملک ، ایک ہی مذہب اور ایک ہی خاندان کے اندر ہوئیں ۔ ہندو تاریخ کی سب سے بڑی جنگ ’’مہا بھارت‘‘ کو رئوں اور پانڈوئوں کے درمیان ہوئی جس میں پورے بھارت کی مختلف ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئیں۔ کو رواور پانڈو نہ صرف ایک ہی مذہب کے ماننے والے تھے بلکہ ایک ہی خاندان کے افراد تھے جو ایک دوسرے کے چیچازاد بھائی یعنی فرسٹ کزن تھے، اسی طرح عیسائی دنیا میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان ہونے والی خونریزی اُن جنگوں سے کہیں زیادہ خوفناک تھی جو غیر عیسائی قوموں کے ساتھ ہوئیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں بھی متحارب ملکوں کی اکثریت عیسائی تھی۔ مسلم ممالک اور خاندانوں کے درمیان بھی جنگیں ہوئیں۔ حالیہ تاریخ میں ایران ، عراق اور عراق کویت کی جنگیں اس کی مثالیں ہیں۔ملک ، خطے، زبان، مذہب ، ذات پات اور خاندان کی بنیاد پر قائم ہونے والی قومیّت کی بنیادی وجہ ’’تشخص کا بحران‘‘ تھا۔ جس کی بنیاد انسانی فطرت کی ایک بڑی جبلّت یعنی ’’نظریہ تضاد‘‘ تھی۔ جس کے تحت افراد اورگروہ اپنی اپنی شناخت کے لئے دوسروں سے ایک علیحدہ ’’حیثیت ‘‘ کا اظہار کرتے تھے۔ جن میں ان کے تضادات زیادہ کھُل کر سامنے آتے تھے اور یہ عموماً مقامی یا محدود سطح کی قومیت ہوتی تھی جس میں عالمگیریت کا کوئی تصّور نہیں تھا ۔ کیونکہ اس میں انسانی اوصاف کی سب سے بڑی صفت یعنی ’’کردار‘‘ کو نظر انداز کر دیا جاتاتھا۔ جیسے جیسے انسانی شعور نے ترقی کی اور تاریخ سے سبق سیکھا تو قومیّت کا تصّور بھی بدلنے لگا۔ اور یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ حقیقی قومیّت کا دارو مدار ’’انسانی کردار‘‘ پر مبنی ہے ۔ پوری دنیا کے انسان ’’کردار‘‘ کے حوالے سے دو قوموں میں منقسم ہیں ایک قوم ظالموں کی ہے اور دوسری مظلوموں کی جبکہ ظالم اور مظلوم کی یہ تقسیم دنیا کے تمام اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی اصولوں کی بنیاد پر ہے جس پر تمام مکاتیب فکر متفق ہیں۔ جنہیں عالمگیرسچائیاں قرار دے کر اقوامِ متحدہ کا منشور بنا دیا گیا ہے اور یہی دو قومی نظریہ ایک حقیقت ہے کیونکہ یہ اصول کسی معاشرے، ملک اور مذہب کے بنیادی اقدار سے متصادم نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ظالم اور مظلوم تمام ملکوں ، زبانوں ، خطوں ، مذہبوں اور خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ان کے درمیان کبھی جنگیں نہ ہوتیں۔ مہذب دنیا نے اگرچہ ذات پات ، خاندان، مذہب اور خطوں کی بنیاد پر قومیت کے تصور کو اپنے دساتیر میں ختم کردیا ہے جس کے نتیجے میں ان کے اندر محبت، بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی نے جنم لیا ہے اور انہوں نے بے پناہ ترقی کی ہے لیکن ملک کی بنیاد پر قومیت کا تصور آج بھی اُن میں کار فرما ہے اور اس بنیاد پر ہونے والی ’’ قومی بالا دستی ‘‘ کی جنگ آج بھی انسانی بقاء کے لئے ایک خطرہ ہے لیکن ہمارے جیسے ممالک جہاں قومیت کا تصور آج بھی ذات پات ، خاندان برادری ، مذہب اور فرقہ واریت پر استوار ہے ۔ وہاں صورتِ حال خاصی تشویش ناک ہے اور وہ ایک طرح کی خانہ جنگی میں مبتلا ہو کر مزید زوال پذیر ہو رہے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ہونے والی تمام جنگیں ’’معاشی مفادات‘‘ کے لئے لڑی گئیں جن میں ذات پات ، برادری ، خاندان ، مذہب، زبان ، خطوں اور روایات کو بطورِ ہتھیار استعمال کیا گیا۔ تاکہ عوام کو اس میں شریک ہونے کے لئے اکسایا جاسکے ۔
اسلام کے ابتدائی زمانے میں مدینے میں حضور اکرمﷺ کا ایک مقدمے میں مسلمان کی نسبت یہودی کو حق بجانب قرار دینا اس حقیقت کی غمازی ہے کہ حق و باطل کا معیار عقیدے کی بجائے’’کردار‘‘ پر منحصر ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ’’ یہ مت دیکھو کہ بات کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے’’گویا فرد کے عقیدے ، زبان یا ذات پات سے زیادہ اہمیت اس کے خیالات کی ہے جو اس کے کردار کو واضح کرتے ہیں۔ملک ، خاندان ، ذات پات یا عقیدے اور مسالک کی بنیاد پر تشکیل پانے والا ’’دوقومی نظریہ‘‘ انسان کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کردیتا ہے جبکہ ظالم اور مظلوم ، حاکم اور محکوم یا اچھے اور بُرے لوگوں کے اصول پر بننے والا حقیقی’’دو قومی نظریہ ‘‘ انسانوں کی تقیسم کرنے کی بجائے جوڑنے کا کام کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم طبقہ اس نظرئیے کا مخالف ہے جو تمام مظلوموں کو ان کے خلاف متحد کر سکتا ہے ۔

ہندو میرا دشمن ہے نہ کوئی سکھ عیسائی
میرا دشمن ظالم ہے وہ چاہے میرا بھائی
انسانوں کی سب تقسیمیں جُز ظالم، مظلوم
بے معنی سی لگتی ہیں جب بات سمجھ میں آئی
تازہ ترین