• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسّی کی دہائی غروب ہونے والی تھی، لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک کلاسیکل موسیقی کی محفل کے بڑے چرچے تھے، استاد ذاکر حسین طبلہ نواز غالباً پہلی بار لاہور میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے تھے، استاد اللہ رکھا کے بیٹے ذاکر حسین اس وقت تک عالمی سطح پر خوب نام کما چکے تھے، ذاکر کے ساتھ عدنان سمیع خان نے پرفارم کرنا تھا جو اس وقت تک ملک سے ہجرت کر چکے تھے، عدنان نے کی بورڈ پر خالص کلاسیکل بجانا تھا۔ اُس شام لاہور کے سب جید ’خان صاحبان‘ اُس تقریب میں اکٹھے ہوئے، اور اکٹھے تو ہونا ہی تھا کہ طبلے کے پنجاب گھرانے کے خلیفہ استاد اللہ رکھا کا نام ور بیٹا لاہور میں پرفارم کرنے آیا تھا۔ سو بے مثل طبلہ نواز استادمیاں شوکت حسین خان بھی موجود تھے، طافو صاحب بھی اگلی صف میں نظر آ رہے تھے، اور پٹیالہ، شام چوراسی اور گوالیار گھرانوں کے گویے اور سازندے بھی حاضرین میں شامل تھے۔ محفلِ موسیقی آغاز ہوتی ہے، ذاکر سولو تین تال بجانا شروع کرتے ہیں، ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے کہ طافو صاحب اپنی جگہ سے اُٹھتے ہیں اور ہال سے باہر کی طرف چل پڑتے ہیں، جب وہ ہمارے پاس سے گزرے تو ایک دوست نے اُن سے پوچھا کہ خیریت ہے، کدھر چل دیے، تو طافو صاحب نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے فرمایا کہ ’’مجھے ذاکر کے طبلے سے بدبُو آ رہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تقریب سے رخصت ہو گئے۔

یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ موسیقار و طبلہ نواز طافو صاحب آج کل اپنے ایک جملے کے باعث خبروں میں ہیں۔ معروف صحافی اور ٹی وی پروڈیوسر طاہر سرور میر صاحب کو ایک یو ٹیوب انٹرویو دیتے ہوئے طافو صاحب سے جب ہمارے عہد کے سب سے بڑے غزل گائیک مہدی حسن کے بارے سوال کیا گیا کہ لتا منگیشکر کہتی تھیں شری مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے، تو طافو صاحب نے فرمایا کہ مہدی حسن تو اوپر کے سُروں میں گا ہی نہیں سکتے تھے، اور ان کے گلے میں بھگوان نہیں بھگوان کا کوئی چپراسی بولتا ہو گا۔ اوپر تمہید میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اُس کا واحد مقصد طافو صاحب کے مبتذل مزاج کی نشان دہی تھی، یعنی جو لوگ ان کے زبان و بیان سے واقف ہیں انہیں شاید اتنی حیرت اور صدمہ نہ پہنچا ہو مگر موسیقی کے عام مداحین یقیناً تڑپ کر رہ گئے۔

یہاں مقصد مہدی حسن کا دفاع یا ان کی عظمت بیان کرنا نہیں ہے مگر دو چار بڑے لوگوں کی مہدی حسن کے بارے رائے سُن لیجیے۔ ملکہء ترنم نور جہاں اپنے ایک انٹرویو میں مہدی حسن بارے کہتی ہیں’’ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کوئی شخص اتنے سُر میں کیسے گا سکتا ہے‘‘۔ یہ کون کہہ رہا ہے؟ نور جہاں، ایک بے بدل مغنیہ جنہوں نے عمر بھر صرف اپنی تعریف سنی۔ لتا جی کہتی ہیں جب میں نے پہلی مرتبہ مہدی حسن کو سُنا تو مجھے لگا کہ گانا تو اس کو کہتے ہیں اور میں نے تو ساری زندگی جھک ماری ہے۔ یہ کون کہہ رہا ہے؟ لتا، جس کے نام کا لاحقہ ہے ’’دیوی‘‘۔ استاد سلامت علی خان سے نصرت فتح علی خان تک، مہدی حسن کے مداحین کی ایک طویل فہرست ہے جس میں چُن چُن کر دنیائے موسیقی کا ہر بڑا نام شامل ہے۔ طافو صاحب کے چھوٹے بھائی امجد حسین اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ جب مہدی حسن اسٹوڈیو مائیک پر ’’سا‘‘ لگاتے تھے تو ہم سازندے ان کے کھرج کے ساتھ ساز سُر کیا کرتے تھے۔ دس برس پہلے روبن گھوش پاکستان آئے تو انہوں نے ایک نجی محفل میں ہمیں بتایا کہ انہوں نے مہدی حسن کے لیے کچھ طرزیں بنا رکھی تھیں، مگر مہدی حسن کے بعد کسی سے گوانے کو جی ہی نہیں چاہا۔ گھوش صاحب وہ طرزیں ان گائی چھوڑ گئے۔

یہ تو طے ہے کہ بڑے لوگوں کی بُرائی کرنے سے کوئی خود بڑا نہیں ہو جاتا، بلکہ چھوٹا نظرا ٓنے لگتا ہے۔ ہمارا تو عقیدہ ہے کہ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘۔اس کا مطلب اندھی تقلید نہیں ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فن کار کمزوریوں سے مبرا تھا۔ ہمارے نزدیک اس کا معنیٰ فقط یہ ہے کہ گفتگو کا محور متن ہونا چاہیے، فُٹ نوٹ نہیں۔ جب کہ ایک مخلوق وہ بھی ہے جو فرماتے ہیں کہ نصرت فتح علی خان کی کھردری آواز گانے کے لائق ہی نہیں تھی، نور جہاں کی تو آواز ہی بازاری تھی، لتا تو صرف ایک رگ سے گاتی تھی وہ سینے سے گا ہی نہیں سکتی تھی، غزل گائیک غلام علی کی آواز گڈوی بجا کر گانے والیوں جیسی ہے، استاد سلامت علی خان منگتوں کی طرح گاتے تھے، استاد بڑے غلام علی خان بس تین منٹ کا خیال اچھا گا لیتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ (یہ فحش باتیں دہراتے ہوئے بھی شرمندگی ہو رہی ہے)۔ ایسا نہیں کہ بڑے فن کار میں کمزوریاں نہیں ہوتیں، بڑے فن کار کی خوبیاں اتنی بڑی ہو جاتی ہیں کہ اُس کی کوتاہیوں کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ عناصر جو عام طور پر کمزوری سمجھے جاتے ہیں، بڑا فن کار انہیں بھی خوبی بنا دیتا ہے یعنی وہ تیرگی جب ان کی زلف میں پہنچتی ہے تو حُسن کہلاتی ہے۔ مہدی حسن نے ’’رگی‘‘ کے گانے کو حُسن بنا دیا، نصرت فتح علی خان نے کھردری آواز سے ایسا ہانٹنگ ایکسپریشن بنایا کہ حُسن کہلایا، استاد سلامت علی خان نے اپنے فقیرانہ لہجے سے گائیکی میں ایسا دردناک تاثر پیدا کیا جس کی مثال پیش کرنے سے صدیاں قاصر ہیں۔

آج کا کالم تو فنا فی الموسیقی ہوا، اور ہم سیاست کے بھگوانوں کے درشن سے محروم رہ گئے۔ چلیے،پھر سہی۔

تازہ ترین