• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیڑھ دو ہفتے قبل میں نے ایک کالم لکھا تھا جس میں ان ادیبوں کا ذکر کیا تھا جو مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر ان میں سے کچھ بہت آزاد خیال ہوگئے اور کچھ ملحد بن گئے۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد بہت سے مزید ادیبوں کی ماہیت قلبی کی بابت معلوم ہوا اور کچھ ایک کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ میں سخت حیران ہوا بلکہ تاحال یقین نہیں آیا۔ مثلاً میرے پسندیدہ شاعر جون ایلیا کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل عالم ہیں۔ میرے لئے یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ انکا سارا خاندان اہل تشیع ہے۔ جون ایلیا مجھے اپنی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے مکمل غیر مذہبی لگے، وہ علم کے جویا تھے، چونکا دینے والی باتیں اور بعض اوقات اس کا علمی اظہار بھی کرتے تھے ،سو ممکن ہے ایسا واقعی ہوا ہو، تاہم اس حوالے سے ان کے بہت قریبی دوست اور مداح حماد غزنوی کی رائے سب سے معتبر ہے، چنانچہ میں نے ان سے اس بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ درست ہےکہ وہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے مگر یہ دارالعلوم کی امروہہ کی شاخ تھی۔ اسی طرح انہوں نے ایک اہل تشیع کے مدرسہ سے بھی تعلیم حاصل کی تھی وہ اس حوالے سے مختلف اوقات میں مختلف باتیں کرتے تھے مثلاً ان کا کہنا تھا کہ سُنی تاریخ ہے اور تشیع دیومالا ہے، بقول حماد غزنوی ان کا یہ بھی فرمان تھا کہ ہم اگر ملحد ہو بھی جائیں تو اپنے اماموں کو تو نہیں چھوڑ سکتے۔ میں بہرحال یہ سمجھتا ہوں کہ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے اور مذاہب کے عالم تھے۔

اب کچھ اور نامور ادیبوں اور شاعروں کا احوال بھی جانتے جائیں۔ن م راشد اوائل زندگی میں علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے وابستہ رہے ہیں اور کاندھوں پر بیلچہ رکھ کر سڑکوں پر ’’چپ راست چپ راست‘‘ بھی کرتے رہے ہیں۔ سیف الدین سیف بھی خاکسار رہے ہیں۔ افتخار عارف ندوۃ العلماء لکھنؤ کے پڑھے ہوئے ہیں تاہم یہ علم نہیں کہ وہاں کے سندیافتہ ہیں کہ نہیں؟ پنجابی زبان کے مہا دانشور اور مکمل سیکولر کا تعلق بھی ایک مذہبی گھرانے سے تھا، دائود رہبر تو آخری انتہا کو چلے گئے، انہوں نے بپتسما لیا اور مسیحی ہوگئے۔ پیر نصیر الدین آف گولڑہ شریف نے پیری مریدی کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کردی چنانچہ اس حوالے سے انہیں اپنے خاندان کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ عملی طور پر بھی انہیں نقصان پہنچایا گیا۔ پیر صاحب عمدہ شاعر بھی تھے اور موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔ موسیقی کے رموز و اسرار پر انکی گہری گرفت تھی۔ جامعہ اشرفیہ کے بانی مفتی محمد حسنؒ (جو میرے دادا مفتی غلام مصطفیٰؒ کے شاگرد تھے) کے ایک صاحبزادے مولانا عبید اللہ مرحوم جہاں قرآن کی قرأت نہایت مترنم لہجے میں کرتے تھے وہاں وہ ستار نواز بھی تھے۔ کیا عمدہ ستار بجاتے تھے ان کی انگلیاں ستار کی تاروں سے مسحور کن نغمے فضائوں میں بکھیرتی تھیں۔اسی طرح پروفیسر فتح محمد ملک ،خالصتاً دینی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں وہ اپنے آباد و اجداد کے لباس، وضع قطع، انکے خیالات کی شدت ور قدامت کی پیروی تو نہیں کرسکے مگر مغربی طرز کی زندگی گزارنے کے باوجود ادب کا مطالعہ مذہبی اینگل سے کرتے رہے۔ ان دنوں ملک صاحب بہت علیل ہیں اللہ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے۔ پنجابی کے صف اول کے شاعر نجم حسن سید گدی نشین ہیں۔ ہمارے مرحوم دوست طاہر تونسوی کے والد تونسہ شریف کی چشتی نظامی خانقاہ کے خادم تھے۔ اسی طرح کچھ علماء جنہوں نے دین کے روایتی اسلوب سے ہٹ کر اپنی بات اپنے اندازمیں کی ان میں مولانا مودودی، جاوید خامدی اور اگر مکمل آزاد روی کی بات کریں تو ان میں غلام محمد پرویز بھی شامل ہیں، کشور ناہید کے بارے میں ایک وضاحت کہ ان کے والد مولانا نہیں تھے مگر مذہب کے معاملے میں بہت سخت گیر تھے۔

اور آخر میں غالبؔ کے ایک فارسی شعر کا مفہوم:

اے میرے باپ مجھ سے نہ جھگڑ، آذر کے بیٹے کو دیکھ

جسے بڑا ہونے پر اپنے بزرگوں کا رستہ پسند نہ آیا

تازہ ترین