• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس بار آئی ایم ایف حکومتی وعدے ماننے کیلئے تیار نہیں تھی بلکہ اس کے تمام مطالبات اور اصلاحات کی بجٹ میں قانونی شکل چاہتی تھی ،جو حکومت نے پورے کئے جس کیلئے قومی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا جس میں حکومتی اداروں (SOEs) میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تبدیلی کے حوالے سے قانون سازی کی گئی جس کی رو سے وفاقی کابینہ بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنیوں Discos کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو غیر تسلی بخش کارکردگی پر ہٹاسکتی ہے۔ اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کی فنانس اور ریونیو کی قائمہ کمیٹی جس کی صدارت نوید قمر کررہے تھے، کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر مملکت علی ملک، سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسل اور چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے ملکی معیشت، ایف بی آر کی کارکردگی اور آئی ایم ایف سے معاہدے پر اِن کیمرہ پریزنٹیشن دی اور مجھ سمیت فنانس کمیٹی کے دیگر ممبران عمر ایوب خان، ارشد وہرہ اور ڈاکٹر نفیسہ شاہ کے سوالوں کے جواب دیئے۔ فنانس کی قائمہ کمیٹی کی یہ نہایت معلوماتی میٹنگ تھی جس میں ملک کو درپیش معاشی چیلنجز، آئی ایم ایف پروگرام اور بجٹ میں لگائے جانے والے تابڑ توڑ ٹیکسوں کے اثرات کو بخوبی سمجھنے کا موقع ملا اور بالآخر 12 جولائی کو آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ 37 مہینوں کا 7 ارب ڈالر کے اسٹاف لیول معاہدے (SLA) پر اتفاق کرلیا جس کی توثیق آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو رواں ماہ کے آخر تک کرنی ہے۔

آئی ایم ایف کے نئے طویل المیعاد پروگرام کی رو سے پاکستان میں جی ڈی پی میں ٹیکس کی موجودہ 9 فیصد شرح کو 3 سال میں 1.5 فیصدسالانہ شرح سے بڑھاکر 13.5 فیصد تک لے جانا ہے جس کیلئے زراعت، ایکسپورٹس، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ سیکٹرز کو نارمل ٹیکس نظام میں لایا گیا ہے جس کا بجٹ میں اعلان کیا جاچکا ہے۔ پاکستان میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کو کم کرکے ڈائریکٹ ٹیکسز کی شرح کو بڑھانا ہے۔18 ویں ترمیم کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوںکےمابین اخراجات میں توازن (NFP) قائم کرنا ہے۔ صوبوں کو اپنی سروسز پر سیلز ٹیکس اور زراعت پر انکم ٹیکس وصول کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف براہ راست صوبائی حکومتوں سے رابطے میں ہے اور مجھے خوشی ہے کہ چاروں صوبائی حکومتوں نے یکم جولائی سے زراعت کے شعبے کو انکم ٹیکس نظام میں لانے کی منظوری دے دی ہے جس کیلئے قانون سازی کی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف نے سخت مانیٹری پالیسی کی حمایت کی ہے جس کے تحت افراط زر یعنی مہنگائی کم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے اپنا ڈسکائونٹ ریٹ 22 فیصد کردیا تھا جو بعد میں 1.5 فیصد کم ہوکر 20.5 فیصد پر آگیا ہے لیکن بینکوں کے اونچے لینڈنگ ریٹس کی وجہ سے ملک میں نئی سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

آئی ایم ایف کے نئے معاہدے کی رو سے اسٹیٹ بینک کو ایکسچینج ریٹ اور زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنا ہوگا جس کیلئے وزارتِ خزانہ کو دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹس رول اوور کرانے ہوں گے جس میں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ آئی ایم ایف نے مالی خطرات کو روکنے کیلئے انرجی سیکٹر میں سخت اصلاحات کرنے پر زور دیا ہے اور اضافی بجلی پیدا کرنے کے معاہدوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جس کے تحت بجلی نہ لینے کی صورت میں بھی حکومت کو اربوں روپے کیپسٹی سرچارج ادا کرنا پڑتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے سبسڈی اور کراس سبسڈی دینے کی مخالفت کی ہے اور بجٹ میں زیادہ تر سبسڈیز ختم کردی گئی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے صنعتی سیکٹر کو بجلی کے ٹیرف میں مجموعی 250 ارب روپے کی کمی کا اعلان اس کراس سبسڈی کو ختم کرنا ہے جو گھریلو صارفین کو سستی بجلی دینے کیلئے صنعتی صارفین پر ڈالی گئی تھی۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر حکومتی اداروں (SOEs) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی کارگردگی بہتر بنانے کیلئے قومی اسمبلی میں نیا قانون منظور کیا گیا ہے جس کے تحت وفاقی کابینہ اب ایسے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ہٹاسکتی ہے جن کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہو ۔ آئی ایم ایف نے اسپیشل اکنامک زونز (SEZs) میں ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی چھوٹ کی مراعات ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کی وجہ سے مقامی صنعتیں غیر مقابلاتی ہورہی ہیں جبکہ زرعی سیکٹر میں سبسڈیز، سپورٹ پرائز اور ٹیکس مراعات کی بھی مخالفت کی ہے۔ آئی ایم ایف نے معاہدے میں گڈ گورننس، ٹرانسپرنسی اور کرپشن کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنے اور امپورٹ پر ہر طرح کی پابندیاں ہٹانے سمیت پنشن اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ میں نے قومی اسمبلی کی فنانس اور ریونیو قائمہ کمیٹی میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ ایف بی آر ٹیکس اہداف حاصل کرنے کیلئے ایڈوانس ٹیکسز اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں بزنس مینوں پر دبائو ڈالتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایکسپورٹرز کو فائنل ایک فیصد ودہولڈنگ ٹیکس سے نارمل ٹیکس نظام میں لانے پر شدید تحفظات ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے مجھے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اور ریونیو کے ممبر کی حیثیت سے بزنس کمیونٹی اور ایکسپورٹرز کیلئے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اس موقع پر میں نے چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ اور اُن کی ٹیم کو موجودہ حالات میں بھی ٹیکس اہداف حاصل کرنے پر مبارکباد دی اور موجودہ مالی سال میں 40 فیصد اضافے سے 12900 ارب روپے کے نئے ٹیکس ہدف کو غیر حقیقی قرار دیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین