میرے سامنے ٹیبل پر دو تصویریں رکھی ہیں۔ پہلی تصویر ٹی وی اینکر عائشہ جہانزیب پر اسکے شوہر کےتشدد کی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور خبر ہے کہ ایک درندہ صفت شخص نے دوسری بچی کی پیدائش پر اپنی نوزائیدہ بیٹی اور بیوی کو قتل کر ڈالا۔ خون میں لتھڑی ننھی بچی کی تصویر چھپی ہے۔ اخبار میرے سامنے ہے۔ اٹھاتا ہو ںرکھ دیتا ہوں اور تصوّر ہی تصوّر میں زمانہ جاہلیت میں پہنچ جاتا ہوں۔ یہ زمانہ جاہلیت ہے۔ اس میں کبیرہ بنت ابی سفیان نامی ایک ماں ہے۔ جس نے اپنی چار بیٹیوں کو زندہ درگور کیا ہے۔ اسکے علاوہ بھی زمانہ جاہلیت کی بیشمار مائوں بلکہ درندہ صفت مائوں کے ہاتھوں یہ دل دہلا دینے والے گناہ سرزد ہوئے۔ یہ بھی زمانہ جاہلیت ہے۔ اس میں قیس بن عاصم نامی ایک شخص ہے۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے آٹھ بچیوں کا گلا گھونٹ کر انہیں مارا ہے۔ اس جیسے کئی باپ اپنی بچیوں کا گلا گھونٹنے اور زندہ در گور کرنے جیسی کئی تدبیریں کرتے رہے ہیں۔ لگتا ہے آج پھر دنیا اس اندھیر نگری کی طرف لوٹ رہی ہے اور اس جدید دور کے بھیانک مظالم زمانہ جاہلیت کے مظالم سے بھی بازی لے جا رہے ہیں۔ اسکی بھی چند جھلکیاں دیکھیں۔ یہ لاہور کی تین معصوم بچیاں ہیں جو رات کو’’ ابا ‘‘ کیساتھ بڑے پیار سے باتیں کر رہی ہیں، ابو ابو کہہ کر پکار رہی ہیں، ہزاروں امنگیں اور ننھی خواہشیں تھی جو باپ سے پورا ہونے کی امید تھی، لیکن اس بدبخت کے دل میں کیا ہے۔ اس نے جانوروں کی طرح اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ذبح کرنے کا ناپاک منصوبہ بنا رکھا ہے۔ یہ کراچی ہے۔ اس میں ایک شقی القلب ماں نے 2 معصوم بچیوں کا گلاگھونٹ دیاہے اور قاتل ماں گریجویٹ بھی ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ماں جو اپنے لخت جگر کو آرام پہنچانے کیلئے ہزاروں قسم کی تکالیف برداشت کرتی ہے، وہی ماں کبھی خون آشام درندے کا روپ بھی دھارلے گی۔ یہ پنجاب کا ایک شہر ہے۔ اس میں ایک درندہ صفت شخص نے دوسری بچی کی پیدائش پر اپنی نوزائیدہ بیٹی اور بیوی دونوں کوقتل کرڈالا۔ پہلے اپنی بیوی کو بے دردی سے ذبح کیا پھر اس جنونی شخص نے اپنی معصوم بچی کو خنجر کے پے درپے وار کرکے قتل کرڈالا۔میں حیرت سے ان معصوم بچیوں کی خون میں لتھڑی لاشیں تصویروں میں دیکھ رہا ہوں جن کو انکے ماں باپ نے قتل کیا اور آنسو ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔
ان معصوم بچیوں ہی کے بارے میں قرآن کہتا ہے :’’جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائیگا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟‘‘ کیا اس نے کسی کو قتل کیا تھا؟ کیا اس نے کسی کا دل دکھایا تھا؟ کیا اس نے کسی کا مال چرایا تھا؟ کیا اس نے مال ودولت کا مطالبہ کیا؟ کیا اس نے کسی کی عزت خراب کی تھی...؟ نہیں نہیں! انکا کوئی مطالبہ نہیں۔ یہ تو صرف گلستان کی کلیاں تھیں جنہیں ظالم مالیوں ہی نے مسل دیا۔ صعصعہ بن ناجیہ نامی ایک صحابی تھے۔ انہوںنے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ یارسول اﷲ! مجھے زمانہ جاہلیت میں 360 بچیوں کی جان بچانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔مجھے جب بھی اطلاع ملتی کہ فلاں کے گھر میں بچی پیدا ہوئی ہے اور وہ اسے زندہ درگور کرنا چاہتا ہے تو میں اس بچی کے عوض اس کو بھاری معاوضہ دے کر اس بچی کی جان بچالیتا تھا۔ کیا مجھے اس عمل پر کوئی ثواب اور فائدہ بھی ہوگا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے صعصعہ! کیا یہ فائدہ کم ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمادی؟ نیکی کا صلہ اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی کے تاریک سینے کو ایمان کے نور سے منور فرما دے۔‘‘ میں سوچتا ہوں کاش! آج بھی کوئی شخص حضرت صعصعہ بن ناجیہ رضی ﷲ عنہ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے ہمارے معاشرے سے یہ رسم ختم کرنے کی کوشش کرے۔ کوئی ایسی تدبیر کرے کہ ان معصوم اور نوخیز کلیوں کی جان بچالے اور اس قرآنی حکم ’’جس نے کسی ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی‘‘ کا مصداق ہو جائے۔
کیا ہے کوئی اس پر غورو فکر کرنیوالا؟ میرے بھائیو! دیر نہ کرو! معصوم بچیوں کی دل دہلادینے والی لاشیں اور خواتین پر ظلم و ستم کی داستانیں زبانِ حال سے کہہ رہی ہیں ؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے