• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمِ گرما کے جوبن کے ساتھ ہی آم کا سیزن بھی شروع ہو چکا ہے اور لوگ ’’پھلوں کے بادشاہ‘‘ کی مختلف اقسام سے خُوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پاکستان، آم کی پیداوار کے اعتبار سے دُنیا کا چوتھا بڑا مُلک ہے، جہاں اس پھل کی درجنوں اقسام پیدا ہوتی ہیں اور ان کھٹّے، میٹھے، رس دار اور مزے دار آموں کے بے شمار طبّی فوائد بھی ہیں۔ 

پاکستان میں عام طور پر گرم علاقوں میں آم کاشت کیا جاتا ہے اور اس کے پتّوں سے لے کر گٹھلیوں تک کو مختلف مقاصد کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی آموں کی دُنیا بَھر میں بڑی مانگ ہے۔ آم کو بطور پھل تو کھایا ہی جاتا ہے، سلاد اور کھانے کے بعد سوئٹ ڈِش کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، نیز اس کی بے شمار ڈیزرٹس(Desserts)کے ساتھ کئی اقسام کے شیکس بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آم کا اچار،جیلی، چٹنیاں اور مربّے اور بہت مشہور ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں آم کی مشہور اقسام اور کچھ طبّی فوائد پیش کیےجا رہے ہیں۔

آم کی مشہور اقسام

چونسا: یہ آم کی سب سے مشہور اور لذیذ قسم ہے ۔ پنجاب کے ضلع، رحیم یار خان کا چونسا اپنے منفرد ذائقے کی بہ دولت دُنیا بَھر میں مقبول ہے۔ یہ شیر شاہ سوری اور اس کے قبیلے کا پسندیدہ آم تھا اور اُس نے ہی اسے یہ نام دیا۔ چونسا آم کا سیزن عموماً جون کے وسط سے ستمبر کے اخیر تک ہوتا ہے۔

سندھڑی: سندھڑی آم کو سب سے پہلے صوبۂ سندھ کے ضلع میر پور خاص میں کاشت کیا گیا اور آج یہ پوری دُنیا میں پاکستان کی پہچان ہے۔ سندھڑی آم کی بناوٹ بیضوی اور رنگ سُنہری ہوتا ہے۔ یہ ذائقے دار ہونے کے علاوہ خوش بُو دار بھی ہوتا ہے۔ سندھڑی آم کے اصل ذائقے سے لطف اندوز ہونے کے لیے اسے مکمل طور پر پکنے کے بعد کھانا چاہیے۔ 

یہ خام حالت میں کھائے جانے کے علاوہ شیک، آئس کریم اور اسموتھیز کی تیاری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ سندھڑی آم کو کیوبز کی شکل میں کاٹ کر کھانا پسند کرتے ہیں۔ عام طور پر سندھڑی آم کا سیزن مئی سے اگست کے وسط تک ہوتا ہے اور آم کی دوسری اقسام کی نسبت یہ دیر سے خراب ہوتا ہے۔

انور رٹول: آم کی یہ قسم بھارتی ریاست، اُتر پردیش کے ضلع، باغ پت میں اِسے کاشت کرنے والے کاشت کار، انوار الحق سے منسوب ہے۔ انور رٹول کو اپنے منفرد ذائقے اور دُنیا بھر میں مانگ کی وجہ سے ’’آموں کا بادشاہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کی کاشت صوبۂ پنجاب میں ہوتی ہے۔ چُوں کہ انور رٹول کا سیزن بہت مختصر ہوتا ہے، لہٰذا اس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔

لنگڑا: یہ سب سے پہلے بھارت کے شمال میں واقع شہر، وارانسی (بنارس) میں کاشت کیا گیا۔ گرچہ اس آم کی وجۂ تسمیہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی، لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کا اوّلین کاشت کار لنگڑا کر چلتا تھا اور اسی وجہ سے اسے ’’لنگڑا آم‘‘ کا نام دیا گیا۔ 

اس آم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ پکنے کے بعد بھی سبز رہتا ہے، جب کہ اس کا گُودا نارنجی رنگ کا ہوتا ہے اور یہ غیر معمولی ذائقے دار ہوتا ہے۔ جولائی کے وسط سے ستمبر کے وسط تک اس کا سیزن ہوتا ہے اور اچھی طرح پکنے والا لنگڑا آم میٹھا اور ذائقے دار ہوتا ہے۔

دُسہری: پاکستان میں پیدا ہونے والے آموں کی ایک اور مقبول قسم دُسہری ہے۔ اس کی جڑیں لکھنؤ کے نوابین کے باغوں سے ملتی ہیں۔ دُسہری آم چھوٹا لیکن نہایت میٹھا اور لذیذ ہوتا ہے۔ دُسہری آم سے لطف اُٹھانے کا بہترین وقت جولائی کے پہلے تین ہفتوں کے درمیان کا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں نیلم، فجری، سرولی، مالدہ اور طوطا پری سمیت دیگر اقسام کے آم پیدا ہوتے ہیں۔

ہمارے مُلک کی آب و ہوا آم کی پیداوار اور افزائش کے لیے بہترین ہے۔ آم کا درخت ہر جگہ بہ آسانی اُگایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ اور پنجاب کے بہت سے مکانات کے پائیں باغ میں ان کے درخت دیکھے جا سکتے ہیں۔

آم کے طبّی فوائد

٭ روزانہ ایک آم کھانے سے نظامِ ہاضمہ اور دل کے امراض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

٭ آم غذائیت سے بھرپور پھل ہے۔ اس میں چکنائی، کولیسٹرول اور سوڈیم کی بہت کم مقدار پائی جاتی ہے، جب کہ وٹامن بی 6کے علاوہ وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن ای، پوٹاشیم، میگنیشیم اور تانبا بھی بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے نہایت مفید اجزاء ہیں۔ علاوہ ازیں، آم ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔

٭ آم میں پائے جانے والے مختلف کیمیائی اجزا چھاتی کے کینسر سمیت ہر قسم کے سرطان کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

٭ آم میں موجود اینٹی آکسیڈینٹس آنتوں اور خون کے کینسر کے خطرے کو کم کرتے ہیں، جب کہ گلے کے غدود کے کینسر کے خلاف بھی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کے ماہرین کے مطابق آم کولون یا بڑی آنت کے سرطان کے خلاف قوّتِ مدافعت پیدا کرتا ہے۔

٭ کم زور افراد کے لیے آم انتہائی مفید ہے، کیوں کہ یہ وزن بڑھاتا ہے۔ جو افراد وزن کی کمی کے شکار ہیں، انہیں وزن بڑھانے کی دیگر خوراکوں کے علاوہ آم کھانے چاہئیں۔ 150گرام آم میں 86کیلوریز پائی جاتی ہیں، جو آسانی سے جسم میں جذب ہو جاتی ہیں۔

٭ آم نظامِ ہاضمہ کے لیے بھی نہایت مفید ہے، جو خوراک کو ہضم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور بُھوک بھی بڑھاتا ہے۔ آم میں موجود ریشے، جنہیں فائبرز کہا جاتا ہے، آنتوں کی صفائی کرنے کے ساتھ وَرم کا خطرہ کم کرتے ہیں۔

٭ آم، حاملہ خواتین کے لیے بھی بے حد فائدہ مند ہے۔ ڈاکٹرز اکثر حاملہ خواتین کو خون کی کمی دُور کرنے کے لیے وٹامنز اور آئرن کی گولیاں کھانے کا مشورہ دیتے ہیں، جب کہ آم جسم میں ان کی مقدار بڑھانے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔

٭ آم سے چہرے کی خُوب صُورتی میں بھی اضافہ ہوتاہے۔ اس کا گُودا چہرے پر لگانے سے نہ صرف متعدد جِلدی مسائل ختم ہو جاتے ہیں بلکہ جِلد کی نمی بھی برقرار رہتی ہے اور رنگ بھی صاف ہوتا ہے۔

٭ یہ پھل دماغی صلاحیت بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آم میں موجود وٹامنز دماغ کی نشوونما میں بہترین کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ اس میں پایا جانے والا گلوٹا مائن یادداشت کے لیے مفیدثابت ہوتا ہے۔

٭ آم میں بیٹا کیروٹین کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے، جو ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط رکھتی ہے۔

٭ نئی تحقیق کے مطابق پھلوں کا بادشاہ ذیابطیس کے مریضوں کے لیے بھی نقصان دہ نہیں، کیوں کہ اس میں کافی مقدار میں منرلز اور وٹامنز پائے جاتے ہیں، جو آسانی سے جسم میں جذب ہو کر خون میں گلوکوز کی مقدار کو معتدل رکھتے ہیں۔

٭ روزانہ ایک آم کھانے سے جسم میں سُرخ خون کے خلیات میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں انیمیا کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

٭ آم کا باقاعدگی سے استعمال ہڈیوں کی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس میں موجود کیلشیم ہڈیوں کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نیز، آم کھانے سے ہڈیوں کی کم زوری کی امکانات انتہائی کم ہو جاتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید