جنوب مشرقی ایشیا کی ترقّی کے بعد یقین تھا، جنوبی ایشیا کے ممالک بھی اس تیز رفتار ترقّی کی لہر میں شامل ہوجائیں گے، لیکن ابھی تک یہ یقین، حقیقت میں نہیں بدل سکا۔ویسے تو جنوبی ایشیا چھے ممالک پر مشتمل ہے، جن میں بھارت، پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ شامل ہیں، لیکن اگر وسائل اور آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے، تو اس میں سے تین مُمالک، بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش ہی میں وہ صلاحیت ہے، جو اس خطّے کو عالمی ترقّی کی دوڑ میں شامل کر سکتی ہے۔
ان تینوں ممالک کی آبادی165کروڑ کے قریب ہے۔ یہاں کے لوگ جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت رکھتے ہیں اور اسے استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔پھر یہ کہ ان کے پاس ترقّی کے مواقع بھی ہیں، کیوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقّی کرنے والا مُلک، چین اِن ممالک کا پڑوسی ہے۔
بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش کی زمینی سرحدیں ملتی ہیں، جس کی وجہ سے مال کی ترسیل نہ صرف آسان ہے، بلکہ نسبتاً سستی اور تیز رفتار بھی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ مُلک اُس تیزی سے ترقّی نہیں کر پا رہے، جس طرح ان کے جنوب مشرقی ایشیائی پڑوسیوں نے کی۔ ممکنہ وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ ان ممالک کے درمیان ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ سیاسی اختلافات، اقتصادی معاملات پر غالب ہیں اور ان ممالک کی لیڈر شپ نے ماضی کے تنازعات پر عوام میں ایسی جذباتی کیفیت پیدا کردی ہے کہ اب چاہتے ہوئے بھی اُسے کم نہیں کر پاتے۔
اگر حالات میں بہتری کی کوئی جھلک نظر آنے بھی لگتی ہے، تو کسی چھوٹے موٹے مسئلے پر شور اُٹھ جاتا ہے۔ میڈیا اُسے کیش کرواتا ہے اور پھر نفرت کے جذبات میں سب کچھ بہہ جاتا ہے۔ نتیجتاً عوام ہی، جو اِن جذبات کے اظہار میں سب سے آگے ہوتے ہیں، درحقیقت سب سے زیادہ نقصان اُٹھاتے ہیں۔ یہی نقصان معاشی بدحالی کی شکل میں ان پر مسلّط ہے اور وہ، وہ فائدہ نہیں اُٹھا نہیں پارہے، جس کے حق دار ہیں۔
جنوبی ایشیا میں اِس مرتبہ ایک غیر معمولی سیاسی واقعہ رُونما ہوا ہے۔ سال کے شروع میں بنگلا دیش، پاکستان اور بھارت میں بالترتیب عام انتخابات ہوئے اور قیادتوں کو پانچ سال حکومت کرنے کا مینڈیٹ ملا۔ بنگلا دیش میں جنوری میں الیکشن ہوئے اور حسینہ واجد تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم کے عُہدے پر فائز ہوئیں۔
پاکستان میں فروری میں انتخابات ہوئے، جس میں کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی، لیکن دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پی پی پی نے مل کر ایک مضبوط اتحادی حکومت بنائی، جس میں ایم کیو ایم بھی،جو مُلک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی نمائندگی کرتی ہے، شامل ہوئی اور شہباز شریف دوسری مرتبہ مُلک کے وزیرِ اعظم بنے۔
بھارت میں انتخابی عمل جون میں مکمل ہوا اور نریندر مودی تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بن گئے۔ گو، اُن کی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی اور وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے پر مجبور ہوئے۔ بھارت اور بنگلا دیش ایک دوسرے کے خاصے قریب ہیں اور ان کے درمیان اقتصادی تعاون بھی جاری ہے، جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا مسئلہ جُوں کا تُوں موجود ہے، بلکہ آرٹیکل 376 معطّل ہونے کے بعد تلخی مزید بڑھ چُکی ہے۔ جنوبی ایشیا کے ان ممالک کی قیادت میں بہت سی باتیں مشترک بھی ہیں۔اوّل تو یہی کہ تینوں کے پاس پانچ سال ہیں، جن میں وہ اپنے مُلک اور پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات پر اطمینان سے ازسرِ نو غور کرسکتے ہیں۔
مودی، حسینہ واجد اور شہباز شریف ایک دوسرے کے لیے نئے نہیں۔ پاک، بھارت نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو بی جے پی کی حکومت چاہے اندرونی طور پر کیسی ہی نفرت انگیز پالیسیز پر عمل پیرا ہو، لیکن اس کے دونوں اہم وزرائے اعظم خود چل کر پاکستان آئے۔یعنی اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی۔
جب کہ اس کے برعکس سیکیولر ازم کی دعوے دار، کانگریس کے دَور میں تینوں پاک، بھارت جنگیں ہوئیں۔ کانگریسی وزیرِ اعظم، اندرا گاندھی کے دور میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر فوجی حملہ کیا اور اس کے دو لخت ہونے میں مدد کی۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ نفرت اور ہندوتوا کی اندرونی پالیسی کے باوجود، بی جے پی کے وزیرِ اعظم پاکستان کیوں آتے رہے۔
واجپائی نے تو مینارِ پاکستان پر کھڑے ہوکر پاکستان کو تسلیم کرنے کا وعدہ کیا، جب کہ مودی وزیرِ اعظم، نواز شریف کے گھر گئے اور ایک ذاتی تقریب میں شریک ہوئے۔ افسوس کہ یہ تمام مواقع ضائع کر دئیے گئے۔ افسوس اِس لیے کہ دونوں ممالک کو ترقّی کا فائدہ اُٹھانے کا جو موقع مل سکتا تھا، اُس سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ ہم گھنٹوں نہیں، مہینوں اِس معاملے پر بحث کرسکتے ہیں کہ کس کی غلطی تھی، کیا غلط ہوا، کون قصور وار تھا، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پھر نہ ویسی فضا بن سکی، نہ ہی ویسے حالات۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ صرف نوازشریف اور مودی کی خواہشات کے تحت ہوا، تو وہ عالمی امور سے قطعاً لاعلم ہے۔ اِس پیش رفت میں چین اور روس جیسی علاقائی عالمی طاقتوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔اِسی طرح امریکا اور یورپ بھی ان ملاقاتوں یا دَوروں میں باقاعدہ کردار ادا کرتے رہے۔ مودی کے جاتی امرا آنے سے قبل نواز شریف کی اُن سے تُرکی میں ملاقات ہوئی تھی، جہاں وہ ایک عالمی کانفرنس میں گئے تھے اور بعد میں اس کا فالو اَپ روس میں ہوا تھا۔
یہ کوئی چاہت و الفت یا صرف نیک خواہشات کے لیے کی گئی کوششیں نہیں تھیں، بلکہ اگر واجپائی کے لاہور آنے سے نواز شریف کے نیو دہلی جانے تک کے واقعات پر نظر ڈالی جائے، تو پتا چلے گا کہ جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا اور چین میں ترقّی کا ایک ایسا تیز رفتار دَور آیا ہوا تھا کہ سب اُس میں شامل ہونے کے لیے بے قرار تھے۔ چین اُس وقت دنیا کی فیکٹری میں تبدیل ہو رہا تھا اور اُس کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ اس کے دونوں طرف، جنوبی ایشیا کے بڑے ہم سائے، اُس کا ساتھ دیں۔
سی پیک کے ذریعے وہ پاکستان کو شامل کرچُکا تھا، تاہم پاک، بھارت کشیدگی مسئلہ بنی رہی۔ اس لیے اِس امر کی ضرورت تھی کہ ان ممالک کے تنازعات حل کیے جائیں یا پھر اُس وقت تک سرد خانے میں ڈال دیے جائیں، جب تک ان پس ماندہ ممالک کی معیشت مستحکم نہیں ہوجاتی۔
یہ اتفاق کہہ لیجیے کہ بھارت، بنگلا دیش اور پاکستان میں آج ایسی قیادتیں موجود ہیں، جو ایسے جرأت مندانہ اقدامات کرنے کو تیار ہیں، جن میں جذبات کی بجائے معیشت کو فوقیت حاصل ہو۔جب کہ عالمی طاقتیں بھی ان کی مدد کو تیار ہیں، کیوں کہ اِتنی بڑی آبادی کا خطّہ اگر ترقّی کرتا ہے، تو ان کے مفادات کو منظّم اور مستحکم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔پھر یہ بھی یاد رکھا جائے کہ نئی صدی، معیشت کی صدی ہے اور اس میں حکومتوں نے عوام کا بلند معیارِ زندگی ہی اپنا بنیادی ہدف بنا رکھا ہے۔ برازیل سے لے کر جنوبی افریقا اور چین سے ملائیشا تک یہ دوڑ جاری ہے۔ گزشتہ برسوں میں عالمی معیشت کو دو زبردست جھٹکے لگے۔
پہلا 2007ء کا عالمی مالیاتی بحران تھا، جو تقریباً پانچ سال جاری رہا، لیکن اس پر عالمی مالیاتی اداروں نے توقّع سے پہلے ہی قابو پا لیا۔ دوسرا جھٹکا اس سے بھی بہت زیادہ تشویش ناک تھا۔ اور وہ تھا، عالمی وبا کورونا۔ جس نے مُلک کے مُلک بند کر ڈالے، بلکہ مُلک قبرستانوں میں تبدیل ہوگئے اور معیشت ٹھپ ہو کر رہ گئی۔ایسے میں یہ کون غور کرتا کہ جنوبی ایشیا میں کیا ہو رہا ہے، لیکن خوش قسمتی سے یہ عالمی بحران بھی وقت سے پہلے کنٹرول کرلیا گیا۔ ویکسین نے دنیا بدل ڈالی اور ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجّہ معیشت کی طرف مبذول ہوگئی۔
کیا پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش کے حالیہ انتخابات جنوبی ایشیا میں نئی اُمید لے کر آئے ہیں؟ بلاشبہ ایسا ہی ہے۔ ان ممالک کی قیادتیں منجھی ہوئی اور تجربہ کار ہیں۔ مودی، شہباز شریف اور حسینہ واجد ایک دوسرے کو بخوبی جانتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اِتنی بڑی بڑی آبادیوں کے مُلک صرف اُسی وقت مستحکم رہ سکتے ہیں، جب اُن کی معیشت مضبوط ہو۔ اگر عوام مطمئن نہیں، تو سارے کیے کرائے پر پانی پِھر جاتا ہے۔
اس کے لیے نہ تو کسی جادوئی لیڈر شپ کی ضرورت ہے، نہ ہی سحر انگیز شخصیتوں کی، بلکہ اپنے عوام اور مُلک کی ترقّی کا ویژن چاہیے۔پاکستان میں بڑا شور ہے کہ حکومت اتحادی ہے، اِس لیے کم زور ہے، بڑے فیصلے نہیں کر سکتی، لیکن اس میں ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا کہ پی ٹی آئی نے اپوزیشن کا کردار نہ صرف قبول کر لیا ہے، بلکہ وہ بھرپور کردار بھی ادا کر رہی ہے۔ اُسے میڈیا میں جتنی پذیرائی مل رہی ہے، اس نے جہاں ایک طرف اُس کی مضبوطی کا تاثر دیا، دوسری طرف پارلیمانی جمہوریت کے آگے بڑھنے کی راہیں بھی کُھلیں۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ بات بہت اچھی طرح پتا ہے کہ ان کا اصل مقابلہ کسی پارٹی یا شخصیت سے نہیں، بلکہ بدحال معیشت سے ہے۔شہباز حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ عالمی منہگائی، جو دنیا میں عدم استحکام کی بڑی وجہ بنی ہوئی تھی، اب کم ہوتی جارہی ہے۔ یوکرین جنگ جاری ہے، تاہم اس کی طوالت نے اس کے معاشی اثرات کم کر دیئے ہیں۔
دوسری طرف توانائی، خاص طور پر تیل کی قیمتیں بڑی تیزی سے نیچے آرہی ہیں، جس سے عوام کو ریلیف دینے کا موقع ملا ہے۔آئی ایم ایف کے پروگرام مل رہے ہیں، اِس سے بین الاقوامی سرمایہ کاری اور بڑے منصوبے شروع کرنا ممکن ہوگا۔ گندم کی بمپر فصل سے عوام کو سکون ملا ہے، خاص طور پر پنجاب میں مریم نواز کے اقدامات کا فائدہ عوام تک منتقل ہو رہا ہے۔
عام انتخابات کے نتیجے میں تینوں ممالک میں وہ قیادتیں سامنے آئی ہیں، جن کا نصب العین معیشت ہے۔ بنگلا دیش اور بھارت تو آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن پاک، بھارت تعلقات میں جمود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیک چینل ڈپلومیسی جاری ہے، شاید اِسی لیے پلواما کے بعد سرحد پر کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کے جتنے نمائندہ بزنس فورمز ہیں، سب کی رائے پاک،بھارت تعلقات کی بحالی کے حق میں ہے۔
بلاشبہ، دونوں ممالک کے درمیان کشمیر ایک اہم ایشو ہے، لیکن پہلے بھی دونوں ممالک میں تنازعۂ کشمیر کے باوجو پیش رفت ہوئی تھی۔ دوسری طرف بھی یہی سوچ ہے۔ اصل میں ہماری ساری توجّہ سربراہانِ مملکت کی ملاقات پر رہتی ہے اور گرائونڈ ورک نہیں ہوتا۔ جب دونوں طرف کے سارے بزنس فورم چاہتے ہیں کہ تجارت کا کوئی راستہ نکلے، معاشی تعاون کی راہیں کُھلیں، تو اُنہیں موقع دینا چاہیے۔ خواہ مُلکی پالیسی کی مجبوری کے تحت دونوں طرف سے کچھ بھی کہا جاتا رہا ہو۔
تجارتی شعبوں اور شخصیات کا ایک دوسرے سے رابطہ ہے، تو اُنہیں ادارتی اور ذاتی سطح پر معاملات سُلجھانے کا موقع دینا چاہیے۔ سربراہی مذاکرات کا ارتکاز سیاسی معاملات اور تنازعات ہوتے ہیں۔ دونوں طرف سے تجزیہ کار اور ماہرین یہ بتانے میں لگ جاتے ہیں کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو ماضی میں کیا کیا زخم لگائے۔ اصل میں ایسی ہی خبریں بِکتی ہیں اور کچھ سیاسی جماعتیں ان سے توجّہ بھی حاصل کر لیتی ہیں۔
مذاکرات کرنے والوں پر دونوں طرف سے غدّاری کے الزامات لگائے جاتے ہیں، حالاں کہ ان کی بردباری، دانش اور عوامی بھلائی کی تحسین کرنی چاہیے کہ وہ مشکل حالات میں بھی رابطوں کی ڈور ٹوٹنے نہیں دیتے۔ اس میں کسی کا ذاتی فائدہ تلاش کرنا حماقت، ناسمجھی اور تنگ نظری کے ساتھ آج کے علاقائی اور بدلتے عالمی حالات سے ناواقفیت بھی ہے۔ ضروری نہیں کہ ایسے ماہرین اور تجزیہ کاروں ہی کی رٹ درست ہو۔ آخر مُلک میں دوسری سوچ رکھنے والے بھی محبِ وطن ہیں، ورنہ اُنہیں کیا پڑی کہ خوامخواہ غدّاری کے سرٹیفیکیٹ حاصل کریں۔
جب دو مُلک اور وہ بھی پاکستان اور بھارت جیسے، جن کی دشمنی سات دہائیوں پر پھیلی ہو، تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہے ہوں، جنگی تصادم ہوئے ہوں، مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھتے ہیں، تو بہت کچھ ہوتا ہے۔ہم صرف معاہدۂ تاشقند کا ذکر کریں گے، جو روس کی سرپرستی میں ایّوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان ہوا۔ چھے دن کے بعد خبر آئی کہ’’ مذاکرات ناکام ہوگئے، وفود واپس جارہے ہیں۔‘‘ اور پھر اچانک ایک آخری مذاکراتی کوشش ہوئی،جو کام یاب رہی اور تاشقند معاہدہ ہوگیا، جس سے 1965ء کی جنگ کے اثرات کم کرنے میں مدد ملی۔
مذاکراتی عمل کے نیچے سے اوپر جانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ سربراہان کی ملاقات تک بہت سے بنیادی معاملات طے ہوچُکے ہوں گے۔ اگر خالص حکومتی سطح پر مذاکرات رکھیں، تو پھر بڑا سوال یہ جنم لے گا کہ اگر معیشت اور تجارت کو اوّلیت دینی ہے، تو اس کے بنیادی کرداروں، یعنی بزنس فورمز کو باہر کیوں رکھا جائے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ فارن افیئرز کی بنیادی ذمّے داری ہے کہ مُلکی مفادات کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اُن کا ہوم ورک بھی مضبوط ہوتا ہے اور وہ پَل پَل بدلتی عالمی صُورتِ حال سے بھی واقف ہوتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر سفارتی تعلقات کی ساری جواب دہی بھی اُنہی کی ہوتی ہے۔ سائفر کے معاملے میں ہم نے یہ دیکھ بھی لیا۔ لیکن بیورو کریٹس میں وہ لچک نہیں ہوتی، جو سیاست دانوں میں ہوتی ہے۔نیز، اُن کے پاس عوامی مینڈیٹ بھی نہیں ہوتا کہ وہ بڑے فیصلے کریں۔
اِسی طرح بزنس مین اپنے اپنے مُلک کے معاشی مفادات آگے بڑھانے میں لین دین کے معاملات کو بخوبی جانتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے حالیہ انتخابات یہ اشارے دے رہے ہیں کہ عوام، معاشی تعاون میں پیش رفت چاہتے ہیں۔ یعنی خطّے میں امن بھی آئے اور معاشی خوشی حالی بھی۔ گویا، عوام نے سیاسی قیادت کو ایک اور موقع دیا ہے۔