مولانا محمد الیاس عطار قادری
وِلادت باکرامت:۔ راکب دوشِ مصطفیٰ ﷺ، جگرگوشۂ مرتضیٰؓ، دلِ بند ِ فاطمہؓ، سلطانِ کربلا، سید الشہداء، امامِ عالی مقام، حضرت سیدنا امام حسینؓ سراپا کرامت تھے، حتیٰ کہ آپؓ کی ولادتِ باسعادت بھی کرامت ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کی ولادت باسعات مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؓ کا نام مبارک حسین، کنیت: عبداللہ اور القاب سبط رسول اللہ اور ریحانۃ الرسول (یعنی رسولﷺ کے پھول) ہے۔
فرامین مصطفیٰ ﷺ:۔ حسین ؓمجھ سے ہے اور میں حسین ؓ سے ہوں، اللہ پاک اُس سے محبت فرماتا ہے جو حسین ؓ سے محبت کرے۔ حسن ؓاور حسینؓ سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی ،اس نے مجھ سے دشمنی کی۔ حسن ؓو حسینؓ دُنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ حسن ؓو حسینؓ جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ امام الانبیاءﷺ کے ان فرامین مبارکہ سے شہید کربلا حضرت امام حسین ؓ کی عظمت و بلند شان کا اظہار ہوتا ہے۔
رخسار سے انوار کا اظہار:۔ حضرت علامہ جامی ؒ فرماتے ہیں: حضرت امامِ عالی مقام سیدنا امام حسینؓ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار (یعنی گال) سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (اطراف روشن) ہو جاتے۔ (شواہد النبوۃ ص228)
کنویں کا پانی اُبل پڑا:۔ حضرت سیدنا امام حسین ؓ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیدنا ابن مطیع ؒسے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے عرض کیا، میرے کنویں میں پانی بہت کم ہے، دُعائے برکت سے نواز دیجئے۔ آپ ؓ نے اس کنویں کا پانی طلب فرمایا، جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ ؓ نے منہ لگا کر اس میں سے پانی نوش فرمایا اور کلی کی، پھر ڈول کو واپس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہوگیا۔ (طبقاتِ ابن سعد ج5 ص110 ملخصاً)
نور کا ستون اور سفید پرندے:۔ امامِ عالی مقام ؓ کی شہادت کے بعد آپ کے سرمنور سے متعدد کرامات کا ظہور ہوا۔ آپ کا سرانور رسوائے زمانہ یزیدی بدبخت ’’خولی بن یزید‘‘ کے پاس تھا، وہ رات کے وقت کوفہ پہنچا، قصر امارت کا دروازہ بند ہو چکا تھا، یہ سرانور کو لےکر اپنے گھر آ گیا، ظالم نے سرانور کو بے ادبی کے ساتھ زمین پر رکھ کر ایک بڑا برتن اس پر اُلٹ کر اسے ڈھانپ دیا اور اپنی بیوی ’’نوار‘‘ کے پاس جا کر کہا: میں تمہارے لئے زمانے بھر کی دولت لایا ہوں، وہ دیکھ! حسین ابن علیؓ کا سر تیرے گھر پر پڑا ہے۔ وہ بگڑ کر بولی: ’’تجھ پر خدا کی مار، لوگ تو سیم و زر (چاندی اور سونا) لائیں اور تو فرزند ِ رسول کا مبارک سر لایا ہے۔
خدا کی قسم! اب میں تیرے ساتھ کبھی نہ رہوں گی‘‘۔ ’’نوار‘‘ یہ کہہ کر اپنے بچھونے سے اُٹھی اور جدھر سرانور تشریف فرما تھا، اُدھر آ کر بیٹھ گئی۔ اس کا بیان ہے: ’’خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ ایک نور برابر آسمان سے اُس برتن تک مثل ستون چمک رہا ہے اور سفید پرندے اس کے اِردگرد منڈلا رہے تھے۔ جب صبح ہوئی تو خولی بن یزید سرانور کو ابن زیاد بدنہاد کے پاس لے گیا۔ (الکامل فی التاریخ ج3 صج 434)
خولی بن یزید کا دردناک انجام:۔ دُنیا کی محبت اور مال و زر کی ہوس انسان کو اندھا اور انجام سے بے خبر کر دیتی ہے۔ بدبخت خولی بن یزید نے دُنیا ہی کی محبت کی وجہ سے مظلومِ کربلا کا سرانور تن سے جدا کیا تھا ،مگر چند ہی برس کے بعد اس دُنیا ہی میں اُس کا ایسا خوفناک انجام ہوا کہ کلیجہ کانپ جاتا ہے ،چنانچہ چند ہی برس کے بعد مختار ثقفی نے قاتلین امام حسینؓ کےخلاف جو انتقامی کارروائی کی، اس ضمن میں صدرالافاضل علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ فرماتے ہیں: ’’مختار نے ایک حکم دیا کہ کربلا میں جو شخص (لشکر یزید کے سپہ سالار) عمرو بن سعد کا شریک تھا، وہ جہاں پایا جائے ،مار ڈالا جائے۔
یہ حکم سن کر کوفہ کے جفاشعار سورما (یعنی ظالم و ناانصاف بہادر) بصرہ بھاگنا شروع ہوئے۔ مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا، جسے جہاں پایا ،ختم کر دیا، لاشیں جلا ڈالیں، گھر لوٹ لئے۔ خولی بن یزید وہ خبیث تھا جس نے حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین ؓ کا سرمبارک تن اقدس سے جدا کیا تھا، یہ رُوسیاہ بھی گرفتار کر کے مختار کے پاس لایا گیا، مختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے، پھر سولی چڑھایا، آخر آگ میں جھونک دیا۔
اس طرح لشکر ابن سعد کے تمام اشرار (شریروں) کو طرح طرح کے عذابوں کےساتھ ہلاک کیا۔ چھ ہزار کوفی جو حضرت امام عالی مقام ؓ کے قتل میں شریک تھے، انہیں مختار نے طرح طرح کے عذابوں کےساتھ ہلاک کر دیا۔
صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ اپنی کتاب’’سوانح کربلا‘‘ میں فرماتے ہیں: اصحابِ کہف پر کافروں نے ظلم کیا تھا اور حضرت امام عالی مقام ؓ کو ان کے نانا جان ﷺ کی اُمت کے لوگوں نے مہمان بنا کر بلایا، پھر بےوفائی سے پانی تک بند کر دیا۔
آل و اصحاب ؓکو حضرت امام پاک ؓ کے سامنے شہید کیا، پھر خود حضرتِ امام عالی مقام ؓ کو شہید کیا، اہل بیت کرامؓ کو اَسیر بنایا، سرمبارک کو شہر شہر پھرایا، اصحابِ کہف سالہاسال کی طویل نیند کے بعد بولے، یہ ضرور عجب ہے مگر سرانور کا تن مبارک سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے۔
شہیدِ کربلاحضرت امام حسینؓ کے سرانور کی کرامت سے راہب کا قبولِ اسلام:۔ ایک نصرانی راہب نے گرجاگھر سے سرانور دیکھا تو لوگوں سے پوچھا، انہوں نے بتایا، راہب نے کہا: ’تم برے لوگ ہو، کیا دس ہزار اشرفیاں لےکر اس پر راضی ہو سکتے ہو کہ ایک رات یہ سرمبارک میرے پاس رہے‘‘۔ انہوں نے قبول کر لیا۔ راہب نے سرمبارک دھویا، خوشبو لگائی، رات بھر دیکھتا رہا، ایک نور بلند ہوتا پایا۔ راہب نے وہ رات رو کر کاٹی، صبح اسلام لایا اور گرجاگھر، اس کا مال و متاع چھوڑ کر اپنی زندگی اہل بیت ؓکی خدمت میں گزاری۔
جب درہم دینار ٹھیکریاں بن گئیں:۔ یزیدیوں نے لشکر امام عالی مقام ؓ اور ان کے خیموں سے جو درہم و دینار لوٹے تھے اور جو راہب سے لئے تھے، انہیں تقسیم کرنے کےلیے جب تھیلیوں کے منہ کھولے تو کیا دیکھا کہ وہ سب درہم و دینار ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے اور اُن کے ایک طرف (سورۂ ابراہیم کی آیت 42) ’’وَلَاتَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘۔ ترجمہ کنزالایمان: ’’اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے‘‘۔ اور دوسری طرف سورۃ الشعراء کی آیت ’’وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ‘‘۔ ترجمہ کنزالایمان: ’’اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے‘‘ تحریر تھی۔
یہ قدرت کی طرف سے ایک درسِ عبرت تھا کہ بدبختو! تم نے اس فانی دُنیا کی خاطر دین سے منہ موڑا اور آلِ رسول ﷺپر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا، یاد رکھو، دین سے تم نے سخت بے پروائی برتی اور جس فانی و بےوفا دُنیا کے حصول کے لیے ایسا کیا ،وہ بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئےگی اور تم ’’خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ‘‘ (یعنی دُنیا میں بھی نقصان اور آخرت میں بھی نقصان) کا مصداق ہو گئے۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی عملاً دین کے مقابلے میں اس فانی دُنیا کو ترجیح دی تو اس بےوفا دُنیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور جنہوں نے اس فانی دُنیا کو لات ماری اور قرآن و سنت کے احکامات پر مضبوطی سے قائم رہے اور دین و ایمان سے منہ نہیں موڑا تو دُنیا ہاتھ باندھ کر ان کے پیچھے پیچھے ہو گئی اور وہ دارَین (دونوں جہانوں) میں سرخرو (کامیاب) ہوئے۔