• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں نارنگ منڈی کے قریب ایک گاوں میں حاجی طفیل مرحوم کے ڈیرے پر سیاسی گفتگو جاری تھی، حاجی طفیل روحانیت پہ یقین رکھنے والے ایک دانا زمیندار تھے، ان کا چوہدری بیٹا نہ صرف سیاست میں دلچسپی لیتا ہے بلکہ سیاسی معاملات پر تبصرے بھی کرتا ہے۔ اس نے ظلم کی کئی داستانیں سنائیں، میں ان میں سے کوئی کہانی نہیں لکھ رہا، وہ ساری کہانیاں حقے کے کشوں نے دل و دماغ میں اتار دی ہیں۔ لاہور آیا تو اسلم گورداسپوری کی باتیں سننے کو ملیں، ہماری نئی نسل اس پرانے اور پیارے سیاستدان سے شناسا نہیں، اسلم گورداسپوری 1988ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لاہور سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، وہ بنیادی طور پر شاعر، دانشور اور سیاسی کارکن ہیں، کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، سماجی ناہمواریوں پر کڑھتے رہتے ہیں۔ پرانے لوگوں کو یاد ہے کہ 1988ء کی پنجاب اسمبلی میں کارروائی کے دوران شعروں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا تھا۔ حکومتی بینچوں سے مرحومہ بشریٰ رحمٰن اور اپوزیشن بینچوں سے اسلم گورداسپوری خوب اشعار سناتے ، اسمبلی کی کارروائی میں تو شعروں کا حسن تھا مگر یہی وہ زمانہ تھا جب حکومت، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سلمان تاثیر کو تشدد کا نشانہ بنایا کرتی، سلمان تاثیر لہو لہان ہو جاتے تھے مگر تشدد نہیں رکتا تھا۔ تین دہائیاں گزر گئیں، چوتھی دہائی میں بھی پنجاب اسمبلی کی وہی رسومات ہیں بلکہ اب ان میں اضافہ یہ ہوا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے چیمبر کو تالا لگا دیا گیا ہے، سٹاف اور گاڑی بھی واپس لی جا چکی ہے، پنجاب اسمبلی کے موجودہ اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر سڑکوں پہ اجلاس بلا بلا کے تنگ آ گئے ہیں، اب انہوں نے پنجاب اسمبلی کے سپیکر کو خط لکھا ہے کہ انہیں پنجاب اسمبلی کے احاطے میں ٹینٹ لگانے کیلئے جگہ دی جائے تاکہ اسمبلی احاطے میں اپوزیشن چیمبر قائم ہو سکے، ہماری سیاست میں عجیب و غریب تماشے ہو رہے ہیں۔ اس بار اسلم گورداسپوری کی گفتگو دل سوز تھی، بہت جذباتی تھے، کہنے لگے’’ اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے، ہم 1947ء سے آگے کیوں نہیں بڑھ رہے۔ اگر ہماری عدالتوں سے اچھا فیصلہ آ جائے تو اس پر بھی تنقید کرنے والے پیدا کر دیئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ سے بڑا شاندار فیصلہ آیا جو آئین اور قانون کے عین مطابق ہے، اعلیٰ ترین عدلیہ نے کوشش کی ہے ، بگڑے ہوئے سیاسی معاملات میں سدھار پیدا کیا جائے۔ اب اس فیصلے کو بدلنے کیلئےکبھی کہا جا رہا ہے کہ ایڈہاک ججز رکھیں گے، کبھی نظر ثانی کی اپیل کریں گے، کبھی الیکشن کمیشن کو ہلہ شیری دی جارہی ہے کہ وہ فیصلہ نہ مانیں۔ جس طرح پہلے نوے دن میں الیکشن نہ کروا کے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانا تھا اسی طرح مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی نہ مانا جائے۔ کبھی فضاؤں میں ایمرجنسی کی باتیں پھیلا دی جاتی ہیں۔ اگر عدالت کے فیصلے پر عمل نہ ہوا تو عدلیہ کا قائم بھرم بھی ٹوٹ جائے گا، سیاسی جماعتوں کا بھرم تو پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارے سماج میں ہر ایک کا بھرم ٹوٹ چکا ہے، زیادہ دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے ہمارے اداروں کا بھرم بھی قائم نہیں رہا۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے، غور کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں بحیثیت قوم آگے جانا ہے تو ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ہم آئین اور قانون کی حکمرانی تسلیم کریں، آئین اور قانون نے ہر ایک کے حقوق و فرائض واضح کر دیئے ہیں، ہر ایک کیلئے دائرہ کار بنا دیا ہے، ہمیں آئین کے دائرہ کار سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ اگر ہم پھر سے بھرم قائم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں آئین کے مطابق چلنا پڑے گا، آئین کی بالادستی قبول کرنا پڑے گی‘‘۔ اسلم گورداسپوری نے سیاسی عدم استحکام کا رونا رویا ہے۔ ہمارے دوست ممالک بھی یہی کہتے ہیں کہ اپنے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرو مگر ہمارے ملک کی بعض سیاسی پارٹیاں طاقت کے زور پر سیاسی عدم استحکام قائم رکھنا چاہتی ہیں، افراتفری برقرار رکھنا چاہتی ہیں، افراتفری سے استحکام جنم نہیں لیتا اور نہ ہی عدلیہ کے فیصلوں سے انحراف کر کے استحکام آتا ہے۔ عجیب صورتحال ہے کہ معیشت کی بحالی کرنے والے نئی نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں۔شنید ہے کہ اس مرتبہ پھر پی آئی اے کو بیچنے کی تیاری ہے، چھ کمپنیاں میدان میں ہیں، دو کمپنیاں سب سے آگے ہیں اور دونوں کو بااثر حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ مبینہ طور پر ایک سویلین شخصیت کا دعویٰ ہے کہ پی آئی اے میری پسندیدہ کمپنی کو ملے گی۔ سنا ہے ہاؤس بلڈنگ کارپوریشن، سٹیٹ لائف انشورنس اور فرسٹ ویمن بینک بھی بیچنے کی تیاریاں ہیں، ایک امریکی مالیاتی ادارہ پی آئی ایف لینا چاہتا ہے مگر مقامی طور پر مشہور ہے کہ کوئی گاہک ہی نہیں۔ ان عجیب و غریب مراحل میں اسلم گورداسپوری کا شعر یاد آتا ہے کہ

زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے

عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں

تازہ ترین