بنگلہ دیش میں جاری طلبہ کے احتجاج میں 105 افراد کی ہلاکت کے بعد کرفیو نافذ کردیا گیا اور فوج طلب کرلی گئی ہے۔
پولیس اور طلبہ کے درمیان کئی روز سے جاری جھڑپوں میں ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوچکے ہیں، جن میں 104 پولیس اہلکار اور 30 صحافی بھی شامل ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے پریس سیکریٹری نعیم الاسلام خان نے بتایا کہ حکومت نے سول اداروں کی مدد کیلئے فوج تعینات اور کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق طلبہ نے ایک جیل پر دھاوا بول کر سیکڑوں قیدیوں کو رہا کروالیااور جیل کو نذرِ آتش کر دیا۔
بنگلا دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹا سسٹم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کے باعث صورتِ حال بدستور کشیدہ ہے، تمام اسکول اور یونیورسٹیاں بند ہیں۔
ملک میں ٹرین سروس، نیوز چینلز، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔ امن و امان کے قیام کے لیے حکومت نے فوج بھی طلب کرلی ہے۔
خیال رہےکہ بنگلا دیش میں سرکاری ملازمتوں کا 56 فیصد حصہ کوٹے میں چلا جاتا ہے جس میں سے 30 فیصد سرکاری نوکریاں 1971کی جنگ میں لڑنے والوں کے بچوں، 10 فیصد خواتین اور 10فیصد مخصوص اضلاع کے رہائشیوں کے لیے مختص ہے۔
طلبہ کا مطالبہ ہے کہ سرکاری نوکریاں میرٹ پر دی جائیں اور صرف 6 فیصد کوٹہ جو اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے مختص ہے اسے برقرار رکھا جائے۔