ایک طرف ایک بڑی تباہی ہم سب کے انتظار میں ہے۔دوسری طرف ایک عظیم تر مستحکم جمہوری پاکستان کاخواب۔
حکمران منتخب ہوں یا غیر منتخب، آئینی میعادوں والے سربراہ ہوں یا گریڈوں کی آرزو میں زندگی بسر کرنے والے ۔ سب ناکام ہو رہے ہیں۔ چیلنجوں کا ادراک نہیں کر رہے ہیں۔ اپنے آپ کو عقل کُل سمجھ رہے ہیں۔ صرف اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ رہے ہیں۔ گزشتہ 38 سال میں ان حکمران قوتوں کو اپنے ہر منصوبے میں ناکامی ہوئی ہے۔ بہت دولتمند ہوئے ہونگے لیکن محترم نہیں ہوئے ہیں۔ اکثریت کی رائے کبھی انکے حق میں نہیں رہی ہے۔ انہیں اکثریت پرمسلط کیا گیا ہے۔ ہمیشہ ایک دوسرے کے فائدوں کو تحفظ دیتے رہے ہیں۔ اس لیے اب میڈیا ہائوسوں، یونیورسٹیوں، دینی مدارس کو آگے آنا چاہئے۔ عظیم تر پاکستان کا روڈ میپ دینا چاہئے۔
رائے عامہ اپنا فیصلہ 8 فروری کو دے چکی ہے۔ اس اکثریت کو سلام کہ اس نے کتنے دُشوار گزار پہاڑی راستوں کے باوجود اپنی منزل چنی۔ سوشل میڈیا نے ان کو راہ دکھائی۔ جن اداروں سے رائے عامہ کے احترام کی ہی نہیں بلکہ ان کے تحفظ کی امید ہوتی ہے۔ انہیں کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں، مراعات اسی لیے دی جاتی ہیں لیکن وہ اپنے آقائوں کی جنبشِ نظر پر آئین، قانون، سسٹم کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ مگر آفریں ہے۔ غربت سے نیچے دس کروڑ سے زیادہ غریبوں، مفلوک الحالوں، ناداروں، بے روزگاروں کو کہ وہ کسی قلعے سے خوفزدہ ہیں نہ پُر شکوہ محلات سے، نہ ڈالوں سے نہ دیگوں سے، جیلیں تو مغلوں انگریزوں، پھر کالے انگریزوں، ڈکٹیٹروں، سیاسی آمروں کے ہر دَور میں بھرتی رہی ہیں۔ معافی نامے ہر دَور میں بھروائے گئے۔ بڑے بڑے لیڈروں کو اپنے خاندانوں خانساموں سمیت جیلوں سے معافی نامے بھر کے جاتے دیکھتے رہے ہیں۔اب ہم جس موڑ پر کھڑے ہیں یہاں نظریات کا کوئی مقام نہ ہنگام۔ نہ ہی اس میں کوئی عقیدت، جذباتیت یا جوش، صرف اور صرف کمرشلزم ۔ لیکن جب سودے بازی جیتے جاگتے انسانوں کی قسمت پر ہورہی ہو جو اللہ تعالیٰ کا زمین پر نائب ہے۔ تو اس ڈیل کے بہت خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔ عزت، حرمت، متانت، اخلاقیات، سب سکوں کی جھنکار میں دب جاتے ہیں۔ وقت آتا ہے کہ سکے تھوڑے پڑ جاتے ہیں۔ جذبے بدرجۂ اتم ہوجاتے ہیں۔ ایسے کردار تاریخ میں شاذو نادر ہی آتے ہیں۔ جو عدالتوں میں پکارتے ہیں۔
سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
حکمران طبقے،آئینی ادارے، فارم 47کی وفاقی صوبائی حکومتیں، قومی اسمبلی میں سب سے اکثریتی پارٹی پر پابندی لگانے کے حکم کی تعمیل میں اپنے ذہن کی توانائیاں صَرف کر رہی ہیں۔ گزشتہ نصف صدی سے یہ حکمران طبقے غیر منتخب قوتوں کے ساتھ مل کر عوام کی تمنّائوں کو کچلنے میں مصروف ہیں۔ غیر ملکی قرضے ہزاروں ارب روپے سے لاکھوں ارب تک پہنچ گئے ہیں، زرعی پیداوار بہت کم ہوگئی ہے، صنعتی پیداوار کا کیا کہیں کارخانے بند ہورہے ہیں، دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے، اپنے مفادات کی حفاظت کیلئے ضلعی، صوبائی، قومی سسٹم تباہ کردیے گئے ہیں۔ 60فی صد نوجوان آبادی اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ ہے۔ اس کی توانائی بروئے کار لانے کیلئے کوئی اسکیم متعارف نہیں ہورہی ہے۔
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے کسی شعبے میں ان حکمرانوں کی قیادت میں کوئی بے مثال ترقی کی ہو، دنیا میں ہمارا نام ہوا ہو، ہماری یونیورسٹیاں بھی خاموش ہیں، ہمارا میڈیا بھی چپ ہے۔
سلام ہے 24کروڑ پاکستانیوں کو کہ ان تمام مسائل، مشکلات، عذابوں آشوبوں کے باوجود وہ ایک خوشحال پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں۔ ایک پاکستان کا خواب، ایک عظیم تر خوشحال پاکستان کا خواب، ایک مستحکم جمہوری پاکستان کا خواب۔ آئیے دیکھیں اس خواب کی تعبیر ملے گی یا نہیں۔ ملے گی تو کیسے۔
قومیں ایسے بحرانوں میں ہی اپنا راستہ متعین کرتی ہیں۔ اپریل 2022 سے ہم تشویش اور نا اہلی کے ریڈ زون میں داخل ہوچکے ہیں۔ بہت دکھ ہوتا ہے سوشل میڈیا پر عوام اور ریاست کو ایک دوسرے سے دور ہوتے دیکھ کر۔ شخصیتیں آنی جانی ہیں۔ وہ میاں نواز شریف ہوں، شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، عمران خان، سب چلے جائیں گے۔ عوام کو یہیں رہنا ہے۔ اس عظیم مملکت کو۔ مگر یہ فانی شخصیتیں جو درست یا غلط کام کرجائیں گی۔ وہ عوام اور ریاست دونوں کو بھگتنا ہوں گے۔ جیسے اب عوام اور ریاست گزشتہ نصف صدی کی حکمرانوں کی پالیسیوں کے نتائج سے ابتلائوں کا شکار ہیں۔ ایک طویل عرصے بعد سپریم کورٹ کے 8ججوں نے بحران کے مجموعی تناظر میں قافلے کو دوبارہ راستے پر لانے کی ہدایات دی ہیں۔ لیکن اس سے خوفزدہ ہوکر صرف اپنی من مانی جاتے دیکھ کر انتہا پسندی کے راستے اختیار کیے جارہے ہیں۔ ایسی کوششیں اور سازشیں پہلے بھی ہوچکی ہیں۔ اس طرح مملکت کو اور زیادہ بوسیدہ کیا جارہا ہے۔ یہ مقتدر بھول رہے ہیں کہ ان کے بعد ان کی اولادوں ،ان کے عزیز و اقارب کو بھی یہاں رہنا ہے۔ کیا ہم سب کو مل کر ایک ’عظیم تر مستحکم جمہوری پاکستان‘ کے قیام کی کوششیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اس حسیں سرزمین۔ اس مقدس ریاست میں خدائے بزرگ و برتر نے بہت کچھ عنایت کیا ہے۔60 فی صد نوجوان آبادی ہمارا سب سے طاقت ور وسیلہ ہے۔ ایک اک شہر کو ان کے ادراک اور عزم سے خوشحال بنا سکتے ہیں۔ ریکوڈک لاکھوں اونس سونا لیے ان کے دست و بازو کا منتظر ہے۔ پہاڑ قیمتی زمرد لیے ان کو اڈیک رہے ہیں۔ ریگ زاروں تلے تیل کے ذخائر بے چینی سے اچھل رہے ہیں۔ بے تاب گیس زیر زمین آپ کے چولہے۔ فیکٹریاں چلانے کیلئے بے دم ہو رہی ہے۔
سلام ہے ان باشعور پاکستانیوں کو جو اَب بھی ایک عظیم تر پاکستان کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ملک کو مستحکم یہ عوام ہی بناسکیں گے۔ اب بھی وقت ہے۔ مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی ہوا کا رُخ دیکھیں۔ 24کروڑ کی آنکھوں میں جھانکیں، خوشحالی کی راہوں پر ویگو کھڑی نہ کریں، جاگیرداری، سرمایہ داری، آئی ایم ایف کے ناکے نہ لگائیں، عوام جاگ رہے ہیں۔ یونیورسٹیاں جاگیں، تحقیقی ادارے بھی آنکھیں کھولیں، سوشل میڈیا موجود ہے، اپنے روڈ میپ آئندہ دس پندرہ سال کے انٹرنیٹ پر دیں، سوشل میڈیا ہی اب عظیم تر پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدلے گا۔