• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارےہاں جنازوں، قلوں اور چہلموں میں تعزیتی گفتگو کچھ اس طرح کی ہوتی ہےکہ اگرمرحوم سن لے تو تعزیت کنندہ کو اپنے ہاتھوں سے مار ڈالے۔ ذیل میں ایک مکالمہ ۔

’’مرحوم میرے بچپن کے دوست تھے۔ دسویں تک تعلیم ہم نےایک ہی اسکول میں حاصل کی!‘‘

’’پھر تو آپ ان کے بے حد قریب رہے ہونگے؟‘‘

’’ہاں اور میں اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں۔ ہمارے ہمسائے میںایک حکیم صاحب رہتے تھے۔ جن کی مقوی ادویات کی بہت شہرت تھی وہ میرے والدکے دوست تھے۔ میں نےایک دن دیکھا کہ وہ مرحوم دوست کے کان میں کچھ کھسر پھسر کر رہے تھے۔خدا جانے اس کھسرپھر کی نوعیت کیا تھی لیکن اس کے نتیجےمیں میرے والد نےسختی سے مرحوم کے ساتھ ملنے جلنے سے منع کر دیا۔ ہم شام کو اکٹھے ٹیوشن پڑھنے جایا کرتے تھے۔ والد نے ٹیوشن سے بھی منع کردیا۔ اس کے باوجود میںمرحوم سے چوری چھپے ملتارہا۔ اتنے اچھے دوست سے قطع تعلق مجھے گوارا نہ تھا۔‘‘

’’کیابات ہے، دوستی ہو تو ایسی ہو!‘‘

’’دراصل مرحوم بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعدانہیں کسٹم میں نوکری ملی چندماہ بعد ہی کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوگئے۔ میں نے ایک بڑی سفارش کرواکے ان کی جان چھڑوائی کوئی اور ہوتاتومیرے اس حسن سلوک کوبھول جاتا لیکن وہ ہر ایک کے سامنےمیرے اس احسان کا ذکر کرتے تھےاور یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی ورنہ میں ان کیلئے کون سا کوئی پہاڑ توڑ کر لایا تھا!‘‘

’’آپ صحیح کہتے ہیں میں نےکئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ اگر آپ کسی موقع پر ان کے کام آئیں تو وہ الٹا آپ کے خلاف ہو جاتے ہیں۔‘‘

’’نہیںجناب، مرحوم تو ایسے لوگوں سے بہت مختلف تھے۔ان کی ایک اوربات جو بے حداچھی تھی وہ یہ کہ انہیں جب کبھی قرض لینے کی ضرورت پڑتی وہ مجھ سے لیتےاور میں نے ا ن سے اچھا مقروض کوئی نہیں دیکھا۔ وہ وقت مقررہ پر میراقرض واپس کردیتے تھے حالانکہ لوگوں کی اکثریت قرض واپس مانگنےپرمرنےمارنےپر تیار ہوجاتی ہے۔ وفات سے ایک روز قبل مرحوم نےمجھ سےتین لاکھ روپے قرض لئے۔اگلے روز وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔میںمرحوم کی طبیعت سے واقف ہوں۔ ان کی روح قرض اتارنےکیلئے قبر میں بھی بے چین ہوگی۔ میںاپنے د وست کو اس عذاب میں نہیں دیکھناچاہتا۔آپ اپنے طور پر ان کے صاحبزادے سے بات کریں تاکہ مرحوم کو لحد میں سکون آ جائے!‘‘

’’میں ضرور بات کروںگا لیکن یہ بتائیں مرحوم کو بار بار قرض لینےکی ضرورت کیوں محسوس ہوتی تھی؟‘‘

’’اس کی وجہ بھی ان کی رحمدلی تھی۔ وہ مظلوم خواتین کی مدد کیلئے ہر وقت تیاررہتے تھے۔ وہ عین شباب کے عالم میں بیوہ ہونےوالی خواتین، یتیم بچیوں، فقیرنیوں اور گھروں میں کام کرنے والی بے سہارا لڑکیوں کو ڈھونڈکر تلاش کرتے تھےاور ان کی مدد کرتے تھے!‘‘

’’کیاوہ مظلوم مردوں کی مدد نہیں کرتے تھے؟‘‘

’’کیوں نہیںوہ پندرہ سے بیس برس کی عمر کے بچوں کی مدد کیا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ مرد کو بیس سال کی عمرکےبعد کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہتی، اس کے بعداسے دوسروں کاسہارا بننا چاہئے! چنانچہ جب ان نوجوانوں کی داڑھی مونچھ نکل آتی تو مرحوم انکی مددسے ہاتھ کھینچ لیتے تھے!‘‘

’’سبحان اللہ، کیا زریں اصول تھے مرحوم کے، مجھے اس عظیم شخصیت کے بارے میں کچھ اوربھی بتائیں!‘‘

’’صاحب! میں ان کی خوبیاں گنوانےبیٹھوں تو کئی مہینے بیت جائیں اور یہ تذکرہ ختم نہ ہو۔ مرحوم کی ایک اور خوبی جو مجھے بے حد پسند تھی وہ ان کی دوست نوازی تھی۔ وہ دوستوں پر اپنی جان قربان کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ مرکز اور صوبوں میں مرحوم کے کئی دوست اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ وہ لاہور آتےتو مرحوم ان کی ہر طرح سے خدمت کرتے بلکہ اپنی’’جان‘‘بھی انہیں پیش کردیتے تھے۔ یہ دوستوں کیلئے ان کے اس خلوص اور قربانی ہی کا نتیجہ تھا کہ مرکز اور صوبوں میں ان کاکوئی کام رکتا نہیں تھا۔‘‘

’’واقعی کمال کے شخص تھے۔‘‘

’’ارے صاحب! یہ تو کچھ بھی نہیں۔مرحوم اپنے تعلقات صرف اپنے لئے استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ اجنبیوں تک کے کام کروانےکیلئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ایک دفعہ ایک بالکل اجنبی شخص میرے سامنے ان کے پاس آیا اور ایک خاصامشکل کام لے کر آیا۔ مگرمرحوم نےاپناپورازور صرف کرکے اس کا یہ کام کروا دیا۔ اس نے جب کام کیلئے کہا تھا تو ا س کا خیال تھا کہ شایدمرحوم اس کا معاوضہ بھی مانگیںگے مگرمیرا یار توکرپشن کے مقدمے سے رہائی کے بعد سےرشوت کے ایک پیسے کو بھی حرام سمجھتا تھا چنانچہ انہوں نےاس اجنبی سے صرف نچلے عملے میں تقسیم کرنےکیلئے دو لاکھ روپے لئے۔ آپ کو پتہ ہے اوپر سے سفارش بھی ہو جائے، فائل کاپہیہ تو نیچے ہی سے چلنا ہوتا ہے نا!‘‘

’’مرحوم سےمیری شناسائی کچھ زیادہ نہ تھی آپ کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کیاچیز تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کی مغفرت فرمائے۔‘‘

’’آمین! بس ذرا مرحوم کے صاحبزادے کو اپنے طور پر مرحوم کے قرضے کےبارے میں بتا دیجئے گا تاکہ ان کی روح کو لحدمیں چین آ جائے۔ اس نیکی کابدلہ اللہ تعالیٰ آپ کو دے گا کہ آپ نےایک عظیم شخص کو قبر کے عذاب سے نجات دلا دی۔ میراکیاہے میں تو پیسے کو ہاتھ کی میل سمجھتا ہوں۔ میںنے یہ میل آگے کسی اور کےسپرد کردینی ہے مگر میرا دوست تو پرسکون ہو جائےگا۔‘‘

تازہ ترین