روز نامہ جنگ کے ایک فاضل کالم نگار نے لکھا کہ دارالعلوم حقانیہ ،مولانا سمیع الحق کا جہاد افغانستان اور تحریک طالبان افغانستان کے ساتھ کوئی موثر کردار نہیں؟ تو موصوف کو اگر یاد ہو کہ جب وہ جونیئر رپورٹر صحافی تھے ایک انگریز صحافی کے ہمراہ افغانستان گئے تھے ،شمالی افغانستان میں احمد شا ہ مسعود اوردیگر طالبان مخالف رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے واپس آرہے تھے کہ کنڑ میں طالبان نے گرفتار کیا تو آپ کی رہائی اور جاں بخشی کے لئے آپ کے بہنوئی زاہد صاحب (سابق کنٹریکٹرپی ٹی سی اکوڑہ خٹک حالاً مقیم مردان) مولانا سمیع الحق کی خد مت میں حاضر ہوئے اور ان کی رہائی کیلئے درخواست کی۔ بعد میں اسی رہائی کے سلسلے میں این این آئی کے سینئر رہنما،سینئر صحافی جناب طاہر خان صاحب اور جناب عبدالرحمن صاحب بیورو چیف پشاور بھی مولانا سمیع الحق صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی آپ کی جاں بخشی کے لئے مولانا سے تحریک طالبان افغانستان پر آپ کی رہائی کے لئے اپنے اثرورسوخ کو بروئے کار لانے کی سفارش کی۔ لہٰذا ان سفارشوں کی بناء پر مولانا سمیع الحق صاحب نے اپنے سیکرٹری مولانا سید یوسف شاہ کے ذریعے جلال آباد کے اس وقت کے گورنر مولانا صدر اعظم حقانی کو فون ملایا اور انہیں اس تمام صورتحال پر آگاہ کیا او رفوری رہائی کا کہا گیا جس کے جواب میں ایک دن بعد گورنر نے فون پر بتایا کہ سلیم صافی ایک انگریز صحافی کے ساتھ گرفتار ر ہے،اور ان حالات میںان کے لئے سنگین سزا تجویز کی گئی ہے ۔ جس پر مولانا نے واضح کیا کہ مجھے پشاور کے معزز صحافیوں نے اپروچ کی ہے اس کی رہائی کے سلسلے میں لہٰذا آپ میری یہ سفارش دیگر اعلیٰ حکام تک پہنچا دیں ۔ لہٰذا بڑی کوششوں کے بعد کنڑ کے علاقہ سے آپ کو پاکستان بھیج دیا گیا۔ تو جناب صافی صاحب اگر کچھ یاد آیا ہو تو ٹھنڈے دماغ سے سوچئے۔ اگر بقول آپ کے مولانا سمیع الحق کا طالبان پر اثر ورسوخ نہ ہوتا تو آج آپ اپنے محسن مولانا سمیع الحق صاحب پر الزام تراشی اور بدترین سیاسی تعصب کا اظہار نہ کرتے نظر آتے۔اس وقت آپ کو معلوم تھا کہ طالبان سے مولانا سمیع الحق کا ہی تعلق ہے ۔لیکن اب آپ کی آپ کا تجاہل عارفانہ کیوں؟
افسوس یہ ہے کہ پختون تو اپنے محسن کی سات نسلوں کا بھی احترام کرتے ہیں، آپ کیسے قبائلی پختون روایات کے امین ہیں؟ جو نیکی کے باوجود گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل مولانا سمیع الحق کی ذات کو وفتا ً فوقتاً ہدف تنقید بلکہ مشق ستم بنائے پھرتے ہیں اور کوئی نہ کوئی بہانہ آپ کو طنز و تشنیع اور الزامات کے لئے چاہیے ہوتا ہے۔ اگر آپ کی گرفتاری والا یہ واقعہ جھوٹ پر مبنی ہے کہ مولانا سمیع الحق کا کردار آپ کی رہائی کے سلسلے میں نہیں ہے تو آپ قرآن پر ہاتھ رکھ کر اس سے براء ت کا اظہار کریں یا طاہر خان وغیرہ صحافیوں سے اس واقعہ کی تردید کرائیں۔
باقی آپ کا یہ کہنا کہ عرفان صدیقی نے افغان طالبان کو پاکستان میں متعارف کرایا تو آئیے اس کا بھی ایک مختصر سا جائزہ لیں:جس وقت عرفان صدیقی ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ میں تحریک طالبان کو گالیاں اور الزامات لگا رہے تھے ،اور آپ کی طرح گلبدین حکمت یار کے گن گاتے تھے ، اس وقت ماہنامہ ’’الحق‘‘ اکوڑہ خٹک کافی عرصے سے تحریک طالبان افغانستان کے دفاع اور تعارف میں لگا ہوا تھا، ریکارڈ کے لئے مجلہ الحق مئی 1996ء ملاحظہ کریں اس کے بعد عرفان صدیقی صاحب مولانا سمیع الحق کی تحریک اور کاوشوں سے تحریک طالبان کے تعارف میں لگ گئے۔اور وزیراعظم کے مشیر بننے تک ملا عمر اور طالبان کے ترجمان بنے رہے۔
باقی آپ کی ناقص معلومات یہ ہیں کہ آپ نے دارالعلوم کے ایک شہید استاد کے متعلق یہ لکھا کہ مولانا سمیع الحق نے انہیں کہاکہ آپ دارالعلو م میں خطبہ نہ دیا کریں تو جناب دارالعلوم حقانیہ میں تو گزشتہ بیس برس سے جامع مسجد میں ایک ہی خطیب شیخ الحدیث حضرت مولانا مغفور اللہ صاحب ہیں جو خطبہ دیا کرتے ہیں اور مولانا مرحوم نے کبھی دارالعلوم کی مسجد میں خطبہ نہیں دیا تو کجا حکیم اللہ محسود کے کہنے پر وہ دوبارہ خطبہ جاری کرتے اور یہ کہنا کہ مولانا سمیع الحق مولانا فضل الرحمن کے پاس جان بخشی کے لئے آئے کہ مجھے حکیم اللہ سے بچاؤ تو جس لیڈر پر اس کی مشرف نواز پالیسوں او رمغرب پرستانہ پالیسیوں کی وجہ سے تین بار تحریک طالبان نے خود کش حملے کئے ہوں اور وہ خود بیچارا بم پروف گاڑیوں میں چھپتا پھررہا ہو تو وہ مولانا سمیع الحق کو کہاں بچاتا؟
۱)باقی عمران خان کو یہودی ایجنٹ کے لقب سے دارالعلوم حقانیہ کے مرکزی اور قدیم ترجمان رسالہ ’’الحق‘‘ یا مولانا سمیع الحق نے کبھی یہودی ایجنٹ نہیں کہا۔ (البتہ مولانا لطف الرحمٰن اپوزیشن لیڈر کے پی کے اسمبلی اوراس کی جماعت دن رات عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتے ہیں اور اسمبلی کے فلور پر لطف الرحمن نے کہاکہ حقانیہ سے یہ فنڈ لے کر تمام مدارس پر مساوی تقسیم کیا جائے تو پھریہودی حکومت کا فنڈ اپنے مدارس کے لئے مانگنا کہاں کی دانشمند ی ہے ) اگر حوالہ دیا جائے تواس کا تفصیلی جواب بھی دیا جائیگا۔
۲)آپ نے کالم میں زیادہ زور اس بات پر دیا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اور مولانا سمیع الحق کا افغانستان کے جہاد سے سرسری تعلق ہے اور زیادہ تعلق گلبدین حکمت یار اور جماعت اسلامی کا ہے، بیشک آپ ہزار کالم بھی لکھ لیں لیکن پوری یورپی دنیا ہی مولانا سمیع الحق کو اس حوالے سے اہم ترین کردار سمجھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں چند ٹھوس ناقابل تردید حقائق پیش خدمت ہیں، امید ہے اس سے آپ کو کافی تسلی ہوگی کہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکمتیار صاحب کو جہادی سرگرمیوں میں عظیم مجاہد مولانا یونس خالص بانی حزب اسلامی نے لگایا جو شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کے اولین شاگرد تھے ،جسے مولانا مرحوم نے جہاد کیلئے اپنا جانشین قراردیا اور جو حقانیہ کے اولین اولڈ بوائے تھے۔ اسی مرد مجاہد نے امریکہ جا کر صدر ریگن کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی مگر آپ کے ممدوح حکمت یار نے حزب اسلامی کو توڑ کر اپنے لیڈر کے اسی نام سے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا دی۔دارالعلوم حقانیہ مولانا عبدالحق اور مولانا سمیع الحق کے بارہ میں ان لیڈروں کے دو چار اعترافات بطور نمونہ پیش ہیں:
۳)انجینئر گلبدین حکمت یار ، سربراہ حزب اسلامی افغانستان کا نذرانہ عقیدت
’’جہاد افغانستان کے نازک اور حساس اور سنگین حالات میں بھی محدث کبیر شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒ کی جرات،نصرت،دعاؤں او رتعاون کی تمام افغان ملت معترف ہے ان کے تلامذہ اور فضلاء حقانیہ کا کردار حزب اسلامی سمیت افغانستان کے تمام مسلمانوں کے لئے باعث افتخار ہے ۔ (مکتوبات مشاہیر )
وہ بے شمار خطوط میں مولانا سمیع الحق کے جہادی کردار کی تحسین کرتے ہیں اور ان سے مشورے اور رہنمائی مانگتے ہیں اور پاکستان کو امریکی پشت پناہی سے روکنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو مکتوبات مشاہیر ص۱۵۲ تا ۱۶۵ ( تصدیق کے لئے اصل خطوط بھی مہیا کئے جاسکتے ہیں )۔
(جاری ہے)