افغانستان ایسا ہمسایہ ملک ہے جو پاکستان کے ساتھ گہرے جغرافیائی،مذہبی،نسلی ،ثقافتی اور سماجی رشتوں سے جڑا ہوا ہے۔سرحدوں کے آرپار باہمی رشتہ داریاں بھی ہیںاور دکھ سکھ بھی مشترک ہیں۔پاکستان نے ان رشتوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا۔روس نے اس پر حملہ کیا تو اپنی سرحدیں جو پہلے ہی آزادانہ آمدورفت کیلئے کھلی تھیں،مزید آسان بنادیںاور نہ صرف لاکھوں افغان باشندوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دی بلکہ ان کے دشمنوں کے خلاف جنگ بھی لڑی اور 80ہزار قیمتی جانوں کے علاوہ اربوں ڈالر کے مالی مفادات کی بھی قربانی دی مگر ان احسانات کے بدلے افغانستان کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا ہماری طرف کم ہی آیا ہے۔اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کی جو لہر آئی ہوئی ہے،تمام تر شواہد اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق اسے کابل حکومت کی ہمدردی حاصل ہے۔20جولائی کو جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پاکستان کے قونصل خانے پر افغانوں کا حملہ، توڑپھوڑاور پاکستانی پرچم اتار کر اسے نذرآتش کرنے کی مذموم کوشش اسی سلسلے کی انتہائی افسوسناک کڑی ہے۔جرمن میڈیا کے مطابق کوئی چارسو افراد نے ،جو افغان پرچم اٹھائے ہوئے تھے،اچانک پاکستانی قونصل خانے کی عمارت پر دھاوا بول دیا۔پرچم اتار کر اسے جلانے کی کوشش کی۔توڑ پھوڑ کی ،پاکستان کے خلاف نعرے لگائےاور فرار ہوگئے۔پاکستان نے اسلام آباد میں جرمن سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے اس واقعہ پر شدید احتجاج کیا ہےاور جرمنی کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جنیوا کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے،پاکستانی سفارتی مشن کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے اور حملے میں ملوث افراد کے خلاف موثر کارروائی کرے۔جرمن حکام نے واقعہ کی مکمل تحقیقات کرانے کا یقین دلایا ہے۔اس سلسلے میں کچھ لوگ گرفتار بھی کئے گئے ہیں۔جرمن میڈیا کے مطابق ہلڑبازی کرنے والے لوگ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اورحکومت کے سیاسی مخالفین کے خلاف مبینہ کارروائیوں کے حوالے سے بھی نعرے لگارہے تھے جس سے یہ تاثر لیا جارہا ہے کہ حملہ آوروں میں پاکستانی بھی شامل تھے۔نادرا کو ہدایت کی گئی ہے کہ ویڈیو میں دکھائی دینے والے افراد کی شناخت کی جائے۔ان میں کوئی پاکستانی شامل ہواتو اس کا شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کردیا جائے گا۔چند روز قبل لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر حکومت مخالف درجن بھر افراد نےمظاہرہ کیا،سفارت خانے پر جوتے پھینکےاور پاکستان کے خلاف نعرے لگائے تھے۔خیال کیا جارہا ہے کہ یہ اسی سیاسی مکتب فکر کے لوگ تھےجو پاکستان کے اندر اور بیرونی دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے مہم چلائے ہوئے ہیں۔اس کی کڑی فرینکفرٹ کے واقعہ سے ملائی جارہی ہےاور اس تناظر میں ضروری اقدامات تجویز کئے جارہے ہیں۔وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کابل حکومت کے معاندانہ رویے کی بنا پر کیا پاکستان کو 40لاکھ افغانوںکی میزبانی جاری رکھنی چاہئے؟پاکستان نے غیرقانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا تھا ۔حال ہی میں رجسٹرڈ افغانیوں کو بھی مزید ایک سال تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔افغان پناہ گزینوں نے پاکستان میں جائیدادیں بھی خریدی ہیںاور کاروبار بھی وسیع پیمانے پر کررہے ہیں۔فرینکفرٹ میں ہونے والے واقعہ کے بعدحکومت کو افغان پالیسی کے بارے میں سوچنا پڑے گا اورکابل حکومت کو بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ باہمی اعتماد بحال ہوسکے۔