چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹریٹ پر چھاپے اور گرفتاریوں کے معاملے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ پولیس اسٹیٹ بن گئی ہے، جو دل چاہتا ہے کرلیتے ہیں۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حبس بےجا کی درخواست غیر مؤثر ہوگئی ہے اس لیے نمٹا دی جائے جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نہیں یہ درخواست ابھی غیرمؤثر نہیں ہوئی۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ 32 لوگوں کو اٹھایا گیا، 11 کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جن 21 لوگوں کو چھوڑ دیا گیا اُن کی گرفتاری ہی نہیں ڈالی گئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ جن لوگوں کو گرفتار نہیں کیا گیا ان کے موبائل فون کس قانون کے تحت رکھے گئے؟ کوئی قانون قاعدہ دیکھا کریں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ اسی مواد کے اوپر ٹرائلز چلتے ہیں، آپ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو پکڑتے ہیں لیکن عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں۔ کیا آپ کو پتا ہے کسی کی پراپرٹی اپنے پاس رکھ لینا چوری ہے؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وہ پولیس اور ایف آئی اے کی تعریف تو کرنے سے رہے کہ انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ پولیس اسٹیٹ بن گئی ہے، جو دل چاہتا ہے کرلیتے ہیں۔
پولیس اسٹیٹ یہی ہوتی ہے ناں کہ کوئی کام قاعدے قانون کے تحت نہ کریں۔