• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات بے قراری کے عالم میں کٹ گئی،صبح ہوگئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور۔ یوں لگتا ہے آنکھوں کی پتلیاں جہاں تھیں وہیں ساکت وجامد ہو گئی ہیں۔ اس حالت کا سبب کسی قاتل حسینہ کا دیدار نہیں، پریشان کن خبریں دینے والا اخبار ہے۔ لاہور میں افسر شاہی کے مسکن جی اوآر ون کی تزئین و آرائش کے منصوبے پر ایک ارب گیارہ کروڑ روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔ صوبائی ترقیاتی ورکنگ کمیٹی نے پنجاب ہائوس اسلام آباد کی تزئین و آرائش کیلئے 89کروڑ 33لاکھ روپے کی گرانٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فنانس کمیٹی نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی سکیورٹی کیلئے 10کروڑ روپے مالیت کی جدید امپورٹڈ گاڑیاں خریدنے کی منظوری دی ہے جبکہ دو ماہ پہلے پنجاب کے ایک صوبائی وزیر کیلئے پانچ کروڑ روپے مالیت کی تین گاڑیاں خریدیں گئیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ خبریں تو اب معمول بن چکی ہیں، ان پر پریشانی کیسی؟ بالکل درست فرمایا آپ نے، ان باتوں پر کڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں اور میں بھی آپ کی طرح یہ خبریں سننے اور پڑھنے کے بعد نظر انداز کرنے کی روش اپنا چکا ہوں مگر قلب و روح کو چھلنی کردینے والی دل فگار خبر جس نے مجھے مضطرب کر رکھا ہے، آپ سنیں گے تو محولا بالا خبریں غیر متعلقہ محسوس نہیں ہوں گی۔ گوجرانوالہ میں پرنس روڈ پر ایک محلہ ہے گرجاکھی دروازے کے پاس۔ یہاں دو بھائی مرتضیٰ فاروق اور عمر فاروق ایک گھر میں رہتے تھے۔ گزشتہ ماہ 11606روپے بجلی کا بل آگیا تو انہوں نے دو قسطیں کروا لیں۔ اس بار 16903روپے کے موجودہ بل کے ساتھ گزشتہ ماہ کی بقایا رقم ملا کر واجب الادا بل 30354روپے بن گیا۔ دونوں بھائی محنت مزدوری کرتے ہیں ،بمشکل گھر کا چولہا جلتا ہے۔ اتنی بڑی رقم کیسے ادا کرتے؟اور پھر یہ تلخ حقیقت بھی منہ چڑا رہی تھی کہ اگر اس بار بجلی کا بل ادا نہ کیا تو کنکشن منقطع ہو سکتا ہے۔ دونوں بھائیوں میں بجلی کے بل سے متعلق کئی دن سے تکرار کا سلسلہ چل رہا تھا۔ چونکہ 24جولائی بل جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی، اس لئے 23جولائی کو جب عمر فاروق کارخانہ سے واپس آیا تو بڑے بھائی مرتضیٰ فاروق سے جھڑپ ہو گئی اور طیش میں آکر بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کی گردن تیز دھار آلہ سے کاٹ دی اور اس نے موقع پر ہی تڑپ کر جان دیدی۔اس واقعہ کی نہایت دلخراش ویڈیو سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔

میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ کو ان کا یہ وعدہ یاد نہیں دلانا چاہتا کہ جب آپ بجلی کے بل جمع کروانے جائیں گے تو پتہ چلے گا کہ پنجاب حکومت نے پہلے ہی آپ کا بل جمع کروا دیا ہے۔ میں یہ پینڈورا باکس بھی نہیں کھولنا چاہتا کہ نجی بجلی گھروں سے معاہدے کب کس حکومت نے کئے اور کتنا مال بنایا گیا۔ میں اس تفصیل میں بھی نہیں جانا چاہتا کہ یہ نجی بجلی گھر کن کی ملکیت ہیں۔ میں تو صرف یہ سوال کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ کیاحکومت عام آدمی کے جسم سے خون کا ہر قطرہ اس لئے نچوڑ رہی ہے کہ نجی بجلی گھروں کو ادائیگیاں کی جا سکیں؟ کیا یہ سچ ہے کہ نجی بجلی گھروں کو 1950ارب روپے یعنی دفاع کیلئے مختص بجٹ کے قریب رقوم کی ادائیگیاں کی گئی ہیں؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ حکومت بعض پاور پلانٹس سے بجلی 750روپے فی یونٹ خرید رہی ہے؟ سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے نجی پاور پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹس کے نام پر کی گئی ادائیگیوں سے متعلق جو اعداد وشمار پیش کئے ہیں، اگر وہ درست ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کئی پاور پلانٹ جو طویل عرصہ سے بند پڑے ہیں یا پھر جزوی طور پر چل رہے ہیں، انہیں اس بجلی کی پوری قیمت دی جارہی ہے جو نہ وہ بنا رہے ہیں اور نہ حکومت خرید رہی ہے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ جو بجلی عوام کو 60روپے فی یونٹ دی جارہی ہے اس میں سے 18روپے کیپسٹی چارجز کی مد میں لئے جارہے ہیں۔ یعنی آپ حاتم طائی بن کر عوام کو سبسڈی دینے کا اعلان نہ کریں، محض آئی پی پیز سے جان چھڑوادیں تو بجلی کے بل کم ہو سکتے ہیں اور پھر مسئلہ محض بجلی کی لاگت کا نہیں ہے، اس سے کہیں زیادہ ادائیگی تو ٹیکسوں کی مد میں کرنا پڑتی ہے۔ یعنی اگر آپ کا بل 30ہزارروپے آیا ہے تو اس میں لگ بھگ 14000روپے تو انواع و اقسام کے ٹیکسوں کی مد میں اینٹھ لیے جاتے ہیں۔ مزدور طبقہ تو پریشان ہے ہی ،تنخواہ دار، سفید پوش لوگوں کی زندگی بھی عذاب ہوگئی ہے۔بظاہر معقول آمدن کا حامل نوکری پیشہ برسرروزگار شخص جس کی تنخواہ دو لاکھ روپے ہے، اس کا گزارہ نہیں ہو رہا۔ 35ہزار روپے انکم ٹیکس کٹ گیا، مہنگائی کے اس دور میں کم ازکم پچاس ہزار روپے گھر کا کرایہ ہو ،ایئر کنڈیشنر استعمال کئے بغیر پچاس ہزار روپے گیس، بجلی اور پانی کا بل ہو تو بچوں کی تعلیم اور کچن کیلئے کیا بچتا ہے؟ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ انکم ٹیکس کی ادائیگی کے باوجود پیٹرول سمیت ہر چیز کی خریداری پر پھر ٹیکسوں کی بھرمار۔ اگر آپ فائلر ہیں اور کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں، مالک مکان فائلر نہیں ہے تو بجلی کے بل پر انکم ٹیکس الگ سے دینا پڑتا ہے۔ اب آپ تصور کریں ،جو لوگ دن بھر محنت مزدوری کے بعد بمشکل 30ہزار روپے ماہانہ کماپاتے ہیں ،ان کی گزر بسر کیسے ہورہی ہو گی؟ یہ جو 200یونٹ کی پروٹیکٹڈ کیٹیگری بنائی گئی ہے یہ کتنا سنگین مذاق ہے۔ اگر 200یونٹ میں گھر چل سکتا ہے تو اپنے لئے 2000مفت یونٹ کیوں مختص کئے جاتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ جن کے ہاں فریج، استری اور واشنگ مشین جیسی بنیادی ضروریات ہیں ،وہ اُلٹے بھی لٹک جائیں تو 200یونٹ تک محدود نہیں رہ سکتے۔

خواجہ آصف صاحب تو ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک میں آئینی بریک ڈائون کا خطرہ ہے مگر خاکم بدہن میرا خیال ہے کہ ہمارا ’’نروس بریک ڈائون‘‘ ہونے والا ہے۔ ڈریں اس وقت سے جب بجلی کے بلوں سے تنگ آئے لوگ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کے بجائے حکمرانوں کی گردنیں ماپنے کی ٹھان لیں اور اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکل آئیں۔

تازہ ترین