خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات خصوصاً بنوں واقعے کے دوران گنڈا پور حکومت کے کردار پر سنجیدگی سے غور کیا جانے لگا ہے۔ سنجیدہ حلقے گنڈاپور کی سیاسی حکمت عملی اور انتظامی کارکردگی کی بنیاد پر مستقبل کی منصوبہ بندی پر غور کرنے لگے ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سیاست سیاست کا یہ کھیل، وفاقی حکومت کو دھمکیاں دینا، ڈرائنگ روموں میں طاقت وروں کیساتھ ملکر چلنے کے وعدے، باہر نکل کر انکار کرنا بھی پسندیدہ عمل نہیں سمجھا جا رہا۔ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت میں صوبائی اسمبلی کی قرارداد کا منظور ہونا خصوصی طور پر زیر بحث آرہا ہے کہ یہ قرار داد ملکی سلامتی کے اداروں پر عدم اطمینان کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔ علی امین گنڈا پور کی یہ دو عملی کہ خان کو بھی خوش رکھے اور اداروں کیساتھ بھی چلے نہ صرف انکی حکومت کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے بلکہ اسے ملکی سیاسی ومعاشی استحکام کو متاثر کرنے کی نظر سے بھی دیکھا جانے لگا ہے۔ طاقتور حلقے گنڈا پور کی انتظامی صلاحیتوں بارے بھی فکر مند نظر آتے ہیں کہ ایسا وزیراعلیٰ جو اپنے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا انتظامی کنٹرول تک بخوبی نہ سنبھال سکے، دہشت گرد اس ضلع میں سرعام دندناتے پھریں اوراراکین اسمبلی ان دہشت گردوں کو بھتہ دینے پر مجبور ہوں ۔ ایک ایسا ضلع جہاں صوبے کی تین مضبوط ترین سیاسی شخصیات فیصل کریم کنڈی گورنر کے پی کے، سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن کے سیاسی حلقے ہوں اور وہ اپنے حلقوںمیں دہشت گردوں کے خوف سے آزادانہ عوام سے رابطہ تک نہ رکھ سکیں تو ایسے میں گنڈا پور حکومت پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگتا جارہا ہے۔ بنوں واقعے کی تفصیلات ، ویڈیوز، حقائق انتہائی تشویشناک ہیں۔ اداروں نے اگرچہ فالواپ کے طور پرصوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران بنوں امن جرگہ کے تمام مطالبات تسلیم تو کرلئے ہیں لیکن مرکزعلی امین گنڈا پور کی کارکردگی پر بالکل بھی مطمئن نظر نہیں آرہا۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات خصوصاً بنوں واقعہ کا ترتیب وار جائزہ لیا گیاکہ دہشت گرد بنوں چھاؤنی پر ایک بڑا حملہ کرتے ہیں، پاک فوج کے جوان جوانمردی سے مقابلہ کرکے انہیں انجام تک پہنچاتے ہیں۔ اس معرکے میں جوانوں کی شہادتیں بھی ہوتی ہیں، ا گلے روز بنوں کے شہری پاک فوج سے اظہار یک جہتی کیلئے امن ریلی نکالتے ہیں اور اچانک کچھ شرپسند عناصر اس ریلی کا جوش و جذبہ ”ہائی جیک“ کرکے فوج مخالف نعرے لگاتے ہوئے انہیں فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دیتے اور فائرنگ کرکے پُورے شہر کا امن و امان تباہ کرکے فرار ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کا سوشل میڈیا بریگیڈ متحرک ہوتا ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈا کرکے عوام میں مزید نفرت و انتشار پیدا کرکے حالات کو خراب سے خراب تر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس واقعے کے پس منظر میں اندرونی و بیرونی طور پر تیار ہونیوالی سازش سے اب بھی کوئی آنکھیں بندرکھے ہوئے ہے تو اسے نرم الفاظ میں احمق کے سوا کچھ قرار نہیں دیا جا سکتااور ریاست ایسے کسی فرد کی ذمے داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ وہ اندر رہے یا باہر، قانون اسے ریلیف دے یا نہ دے ، قانون جانے یا وہ، جنہوں نے بنوں میں ایک بڑی سازش رچانے کی کوشش کی اور ریاست نے دانش مندی اور حکمت عملی سے دشمن کے اس وار کو بھی کامیابی سے ناکام بنا دیا۔ یاد ر کھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ جب ملک و قوم سے جڑے مضبوط معاشرے ٹوٹنے لگتے ہیں تو سب سے پہلے سازشی عناصر عوام میں ایک مخصوص بیانئے کے ذریعے نفرتیں اور غلط فہمیاں پیداکرکے الزام تراشیوں پر اتر آتے ہیں۔ پھر وہ مرحلہ آتا ہے کہ جب معاشرے کے مختلف طبقات ایک دوسرے پر اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں، ٹکراؤ سے مضبوط سے مضبوط ترچیز بھی پاش پاش کی جاسکتی ہے۔ کچھ ایسے ہی مناظر ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ طاقتور سے طاقتور ترین ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ اختیارات پر کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش، مخالفین کو نیچا دکھانے کی سوچ، حکومتیں اُلٹنے پلٹنے، سیاسی پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلوں میں اختلاف رائے سے خدا نخواستہ ہماری تباہی کی راہیں ہموار ہوتی چلی جا رہی ہیں اور ہم ہیں کہ ایک صفحے کی کہانی کے اوراق اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں کہ کوئی توراہ نکلے مگر ہمیںفریقین ٹس سے مس ہوتے نظر نہیں آرہے۔ بنوں واقعہ ایک اور نو مئی بن سکتا تھا بلکہ خاکم بدہن اس سے بھی بڑا فساد برپا ہوسکتا تھا لیکن صبر و تحمل سے کام لے کر دشمن کی اس سازش کو بھی ناکام بنا کر صوبائی سیاسی قیادت کو ایک بار پھر موقع دیا گیا ہے کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک حکمت عملی پر متفق نہ ہوئے تو توقع سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورت حال تشویش ناک ہے۔ پاک فوج کے افسر اور جوان افغان طالبان انتظامیہ کی سپانسرڈ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر جانیں قربان کررہے ہیں تو پولیس کانسٹیبل سے انسپکٹر اور ڈی ایس پی تک گلی محلوں میں گولیوں کا نشانہ بنائے جارہے ہیں ،دشمن کی حکمت عملی دو طرفہ ہے عوام میں سکیورٹی فورسز کیخلاف نفرت پیدا کرکے سکیورٹی تنصیبات اور اہلکاروں کو ٹارگٹ کیا جائے اور خیبرپختونخوا پولیس فورس کو اتنا کمزور اور خوف زدہ کردیا جائے کہ وہ عام شہریوں کی حفاظت کرنے سے یا تو انکاری ہو جائے یا اس کے حوصلے اتنے پست ہو جائیں کہ وہ صرف تھانوں میں محصور رہے اور دہشت گرد انہیں بآسانی نشانہ بنا سکیں۔