چارلس اوّل انگلینڈ کا بادشاہ تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بادشاہ صرف خدا کو جواب دہ ہے۔ اسی وجہ سے چارلس پارلیمنٹ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر خود ہی فیصلے کر دیا کرتا تھا۔ چارلس عام لوگوں سے بھی کبھی کبھار ملتا تھا۔ ان دنوں انگلینڈ میں مہنگائی بڑھ رہی تھی اور غربت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مشیر بادشاہ کے سامنے ملکی حالات کی درست ترجمانی نہیں کرتے تھے اور چارلس تو ویسے بھی غریب رعایا سے دور ہی رہتا تھا۔ سو، بادشاہ کو ملک اور عوام کی معاشی صورتحال کا ٹھیک اندازہ نہ تھا۔ اس کا یہی خیال تھا کہ امورِ سلطنت ٹھیک سر انجام دیے جارہے ہیں اور لوگ بھی خوش ہیں۔ اُدھر حالات روز بروز خراب ہوتے رہے۔ بادشاہ بے خبر رہا اور آخر کار انگلینڈ میں سِول وار شروع ہو گئی۔ کئی لڑائیاں ہوئیں اور ایک روز چارلس کو گرفتار کر لیا گیا۔ شاید بادشاہ کو تب اندازہ ہوا ہو کہ لوگوں کو اسکے اندازِ حکمرانی پر بہت غصہ تھا، لیکن تب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ چارلس کو 30 جنوری 1649ء کو سزائے موت دے دی گئی۔ماں اپنے بچے کو اور حکمران اپنی کارکردگی کو کبھی برا نہیں کہتے۔ انہیں دوسرے لوگ بتاتے ہیں کہ بچہ شریر اور کارکردگی ناقِص ہے۔ دونوں مانتے پھر بھی نہیں۔ دنیا بھر میں یہی رواج ہے۔ یوں تو حکومتی کارکردگی جانچنے کے کئی فیکٹرز ہوتے ہیں۔ مثلاً جی ڈی پی گروتھ، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس، افراطِ زر وغیرہ۔ لیکن عام آدمی کو ان کا قطعی طور پر علم نہیں ہوتا۔ اِسی بے علمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر حکومت کہتی ہے کہ ہم نے کشکول توڑ کر ملک رن وے پر چڑھا دیا ہے، اب ہمیںمعاشی قوت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پھر جب آج کی اپوزیشن کَل اقتدار میں آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ خزانہ خالی ہے، اور اب نیا کشکول بھی قرضے کے پیسے سے خریدنا پڑے گا۔ یہ بجلی بھی گرائی جاتی ہے کہ سابق حکومت نے ملک جس چیز پر چڑھایا تھا اسے رن وے نہیں دلدل کہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔حکومت اور اپوزیشن کے متضاد بیانات ایک رسم ہے، ہر ملک میں رائج ہے۔ ہمارے یہاں یہ مذہب ہے، پیروی نہ کرنے والا دائرہ سیاست سے خارج ہو جاتا ہے۔ ان تضادات سے پریشان عام آدمی جب اخبار سے رہنمائی لینا چاہتا ہے تو اشتہارات اسے بتاتے ہیں کہ او نالائق انسان، ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہے، اور تجھے خبر تک نہیں۔ غربت اپنے آخری دن گن رہی ہے، بھوک کُوچ کا سامان باندھ چکی اور بیروزگاری جِلا وطن ہونے کو ہے۔ ممولا شہباز سے بھی طاقتور ہو گیا ہے۔ اپنا ٹائم کب کا آ چکا اور تو ابھی تک خوابِ غفلت سے نہیں اٹھا۔ وہ جھرجھری لے کر اٹھتا ہے اور اشتہار میں دکھائے گئے خواب کی تصدیق کیلئے اپوزیشن کے پاس چلا جاتا ہے۔ وہاں اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ ہم تو پتھر کے زمانے میں جا چکے ہیں۔ دیوالیہ بھی ہو گئے، بس اعلان ہونا باقی ہے۔ وہ غریب پوچھتا ہے کہ پتھر کے زمانے سے باہر کیسے نکلیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ احتجاج ہی شارٹ کٹ ہے، آؤ مل کر کرتے ہیں۔اشتہارات کی لفاظی اور مخالف کے پراپیگنڈا سے کنفیوژ اس آدمی کو حالات کی درست ترجمانی شاید کوئی نہ کر سکے۔ وجہ؟ معاشرہ پولرائزڈ ہے۔ اس کو معاشی اصطلاحات بھی سمجھ نہیں آئیں گی۔ اس کیلئے حکومتی کارکردگی مہنگائی میں کمی سے مشروط اور بنیادی ضروریات کی فراہمی پر منحصر ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جب علاج کرانے جائے تو اس سے جانوروں جیسا سلوک نہ ہو، دادرسی کیلئےتھانے پہنچ کر خود مجرم نہ بن جائے اور ریونیو افسر اس کی زمین پر سانپ بن کر نہ بیٹھے۔ بظاہر یہ کام سادہ سے لگتے ہیں مگر اس توقع کو پورا کرنا نہایت مشکل امر رہا ہے۔ سبھی حکمران چاہتے ہیں کہ انکی کارکردگی ریلیف بن کر عوام تک پہنچے۔ پھر بھی بعض اوقات وہ عوام کی منشاکے مطابق ڈیلیور نہیں کرپاتے۔ ایسی صورتحال کے دو ذمہ داران ہیں۔ ایک وہ افسر جو اپنے فرائض ٹھیک طرح ادا نہیں کرتا اور دوسرا وہ حکمران جو اس افسر کی سب اچھا کی رپورٹ پر بغیر تحقیق یقین کر لیتا ہے۔ یوں، نقصان رُولنگ پارٹی کا ہوتا ہے جس کی اچھی خاصی مقبولیت ایسے ہی چند غیر ذمہ دار افسران کی ایوریج کارکردگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ الفاظ کی جادو گری سے سیاسی باس کو رِجھانے والوں کو خوشامد کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ سب اچھا کی رپورٹ دے کر وہ اپنے لیے فوائد نکلوا لیتے ہیں اور عام آدمی تک سوائے اشتہارات کے کچھ نہیں پہنچتا۔ اب یہ لیڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ فیلڈ میں جا کر دیکھے کہ آیا جو اسے بتایا جا رہا ہے، درست ہے یا نہیں۔ رہنما کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں ہو گا تو وہ حالات کی درست تشخیص نہیں کر سکے گا۔ ایسے میں معاشرے سے امید بھی جاتی رہتی ہے۔بقول غالب:’’تمھِیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا...بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خُو، تو کیوں کر ہو‘‘۔ چارلس کو موت کی سزا اس بات پر دی گئی کہ وہ لوگوں کا دشمن ہے۔ گو وہ مرتے دم تک کہتا رہا کہ میں اپنے لوگوں کیلئے شہید ہو رہا ہوں مگر اس بات پر کسی نے کان نہ دھرے۔ وہ مشیر جو چارلس کے قریب تھے، اس سے جھوٹ بولتے رہے کہ سر آپ کے ویژن کے مطابق سب اچھا چل رہا ہے۔ چارلس کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ لوگوں کے دِلوں میں اُس کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے، شاید اسلئے کہ وہ ایک بادشاہ تھا، لیڈر نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن میں ایسے لیڈرز موجود ہیں جنہیں عام آدمی کے جذبات اور پریشانیوں کا اندازہ ہے۔ سو، اگر اُسے ریلیف دینا ہے تو مل کر کام کرنا ہو گا۔ مقابلہ کارکردگی سے کرنا ہو گا۔