• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن نے جب رومانیہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مستقبل کے عالمی منظر نامے کی ممکنہ تشکیل پر اپنا تجزیہ پیش کیا اور مستقبل کی چار عالمی طاقتوں میں سے ایک پاکستان کو بھی شمار کیا تو اس وقت مجھ خاکسار کی مانند افراد جو یہ مدعا بیان کرتے ہیں کہ پاکستان کو اگر درست سمت سے بار بار بھٹکا نہ دیا جائے تو اس کا معاشی مستقبل اور عالمی حیثیت بہتر ہو سکتی ہے مؤقف درست ثابت ہو گیا ۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ یہ کوئی انوکھی بات یا فلسفہ ہنگری کے وزیر اعظم نے ہی پیش نہیں کیا بلکہ عالمی معیشت اور رحجانات کا مستقل طور پر تجزیہ کرنے والے ماہرین بھی ایک عرصہ سے اسکی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ پاکستان کے وسائل یہ گنجائش رکھتے ہیں کہ پاکستان اپنی عالمی حیثیت کو موجودہ سطح سے بہت بہتر کر سکتا ہے اور یہ رائے دو ہزار اٹھارہ تک تو بہت تیزی سے تقویت پا رہی تھی ۔ ویسے تو دنیا بھر کے ماہرین کی دو ہزار اٹھارہ تک کی آرا کو اس حوالے سے یہاں پر نقل کیا جا سکتا لیکن اگر بھارت سے متعلقہ افراد کی رائے کو بیان کیا جائے تو پھر سونے پر سہاگےوالی بات ہی ہوگا ۔

ٹائمز آف انڈیا میں سنیل شرن کا ایک آرٹیکل بعنوان ’’ پاکستان اے رائزنگ پاور‘‘23دسمبر 2017کو شائع ہوا ۔ سنیل شرن نے اپنے اس آرٹیکل کا اختتام اس نتیجہ کے ساتھ کیا تھا کہ

" For now it seems that Pakistan's star, that star in their beloved crescent , is rising and rising "

اور یہ تجزیات صرف کوئی ان تک ہی محدود نہیں ۔ یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ ایک امریکی میڈیا ہاؤس ہے۔ یہ ادارہ انیس سو تينتیس سےطاقت ور ترین ممالک کی درجہ بندی کرکے اس پرتجزیاتی رپورٹ جاری کر رہا ہے۔ اس ادارے نے جولائی دو ہزار اٹھارہ میں جاری کردہ اپنی رپورٹ میں پاکستان کو بائيسویں نمبر کی طاقت قرار دیا جبکہ دو ہزار سترہ میں پاکستان کا نمبر بیسواں تھا مگر سیاسی عدم استحکام کی بنا پر یہ نمبر تنزلی کی جانب گامزن ہو چکا تھا۔

Goldman Sachs اٹھارہ سو انہتر سے قائم امریکی مالیاتی ادارہ ہے ۔ اس ادارے نے رواں صدی کے اول عشرے میں معیشت کے حوالے سے ایک اصطلاح استعمال کی’’نیکسٹ الیون‘‘یعنی وہ گیارہ ممالک جن کی معیشت برکس کے ہمراہ دنیا کی بڑی معیشتیں ہونگی ۔ اس میں بھی پاکستان شامل تھا۔

یہ دیگ کے چند دانے ہیں جو تمام دیگ کا ذائقہ بیان کر رہے ہیں ۔ اب پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنا سب کچھ وسائل کے اعتبار سے ممکن ہے توپھر موجودہ معاشی صورتحال کی وجہ کیا ہے اور اس صورت حال کا تدارک کیسے ممکن ہے۔ اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ دو ہزار سترہ میںجو جمہوریت اور آئین کو زخمی کیا گیا تھا اس کے زخموں سے اب تک وطن عزیز جانبر نہیں ہو سکا۔ سیاسی عدم استحکام ایک مستقل عفریت کی صورت میں ہمارا تعاقب جاری رکھے ہوئے ہے۔ ابھی جب حال ہی میں چین میں تھا تو وہاں چینی دوستوں نے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا بار بار ذکر کیا کہ چلو حزب اختلاف تو یہ تاثر قائم رکھے گی کہ حکومت غیر مستحکم ہے مگر جب ایسی سیاسی جماعتیں جو اس وقت بھی حکومت کا حصہ ہیں یہ تاثر قائم کریں کہ بجٹ جیسے اہم ترین مسائل پر بھی وہ حکومت کے ساتھ یکسو نہیں تو دور بیٹھے دوسرے ممالک سیاسی استحکام کا تاثر کیسے لیں گے۔ اسی طرح انہوں نے کچھ ایسے افراد کا تذکرہ کیا جو ابھی گزشتہ حکومت میں اور اس سے قبل بھی وزیر تھے یا گورنر جیسے منصب تک پر فائز رہے۔ مالیاتی پالیسی کے ذمہ دار تھے یا اس میں کرتا دھرتا تھے اب وہ حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقیدکرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک تاثر قائم کر رہا ہے جو پاکستان کی معاشی نمو کیلئے کسی طور مناسب نہیں۔ میں نے کہا کہ ان سب کا مسئلہ صرف ایک سینیٹ کا ٹکٹ یا کابینہ کی رکنیت تھی اور ہے۔ ایسے لوگوں کو پھرکس بنیاد پر اتنے اہم عہدوں پر براجمان کیا گیا؟ اس سوال کا جواب بہرحال میرے پاس نہیں تھا۔ ویسے ہونا تو یہ چاہئے کہ سیاست دانوں میں سیاسی بلوغت بھی محسوس ہو اور وہ پاکستان کو مستحکم کرنے کی غرض سے کسی ایک مشترکہ ایجنڈے پر جمع ہو جائیں۔ کیوں کہ جب تک وطن عزیز کو سیاسی استحکام اور گڈ گورننس ميسر نہیں آئیگی اس وقت تک یہ وسائل بس وسائل ہی رہیں گے اور دنیا بھر میں اپنا حقیقی مقام ہم حاصل نہیں کر سکیں گے۔

تازہ ترین