• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! گزرے منگل (30جولائی ) کے اسی ادارتی صفحے پر جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید پراچہ کا ایک تردیدی و وضاحتی نوعیت کا آرٹیکل بعنوان ’’قرارداد مقاصد کی مخالفت یا فکری بددیانتی ‘‘ شائع ہوا ہے ۔اصل میں یہ جنگ کےادارتی صفحہ میں ہمارے رفیق کار وجاہت مسعود کی جاری سیریز آف کالمز بعنوان ’’قرار داد مقاصد اور مولانا شبیر احمدعثمانی ‘‘ کا استرداد (REBUTTLE)ہے جس پر ڈاکٹر فرید پراچہ کا آرٹیکل جاری ہے کہ پہلی قسط میں تو انہوں نے وجاہت صاحب کے موضوع پر اپنے مندرجات پیش کرنے سے پہلے یہ واضح کیا ہے کہ وہ (وجاہت مسعود )جنگ کے ادارتی صفحے پر موضوع پر کالم نہیں مقالہ نگاری کر رہے ہیں ،ساتھ ہی فرید صاحب نے ناچیز سمیت چار سینئر صحافیوں جناب الطاف حسن قریشی، جناب مجیب الرحمن شامی اور جناب سہیل وڑائچ سے استفسار کیا ہے کہ( ہم رہنمائی کریں )کہ وجاہت مسعود کالم نگاری کر رہے ہیں یا مقالہ نگاری ؟جس میں بقول ان(ڈاکٹر پراچہ) کے مندرجات کے مفہوم کو وجاہت تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ رہے ہیں، ان کا نوٹس یہ بھی ہے کہ کالم یا مقالہ نگار نے موضوع پر لکھتے مولانا مودودی کو بھی لپیٹ لیا ہے اصل میں الیکشن70کی انتخابی مہم میں مولانا مودودی کے مخالفین خصوصاً پیپلز پارٹی کے پرجوش حامیوں اور اہل دانش کے پروپیگنڈے کو پھر دہرایا گیاہے جس میں مولانا پر الزام لگایا جاتا کہ انہوں نے اپنی زیر ادارت شائع ہونیوالے ترجمان القرآن کی ایک اشاعت میں قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دیا تھا ۔

ناچیز موجودہ پرآشوب ملکی صورتحال میں حالات حاضرہ کو نظراندازکر کے وجاہت مسعود کے قسط وار طویل کالم میں زیر بحث موضوع پر اپنی پختہ رائے بلکہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ کو آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادی دستاویز سمجھتے اور دستور میں اس کی متفقہ شمولیت کو مقدم جاننے کے باوجود ڈاکٹر فرید پراچہ اور وجاہت مسعود کی فکری بحث میں تو نہیں آنا چاہتا ،تاہم جو استفسار تحریر کی کالم یا مقالہ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر پراچہ نے ناچیز سے بھی کیا ہے علم صحافت کا طالب علم ہونے ناطے اپنی مطلوب پیشہ ورانہ رائے یا رہنمائی کا خود کو پابند جانتا ہوں۔

قومی اور بین الاقوامی جرنلزم کی پیشہ ورانہ پریکٹس اور علم ہر دو کے تناظر میں اخبارات کا ادارتی صفحہ (اوپ ایڈ پیچ)حالات حاضرہ کے وسیع تر عوامی، قومی اور عالمی مفادات و دلچسپی کا حامل ہونےکے ناطے صاحبان رائے کی آرا کو سامنے لانے اور ان کی روشنی میں ر ائے عامہ کی تشکیل میں رہنمائی کا مستقل بڑا اور موثر ذریعہ ہے یوں ادارتی صفحہ بنیادی طور پر نیوز انفارمیشن کے تیز تر اور فلو (دھارے) میں سے منتخب خبروں کے تجزیات پر مبنی کالمز اور آرٹیکلز کا ذریعہ ہے ان میں پیش کئے گئے صاحبان رائے و تجزیہ کی آرا اور تبصرے و تجزیے، عوامی رائے میں ڈھلنے کے علاوہ ریاستی و حکومتی پالیسی و فیصلہ سازی کے بالائی مراکز کو متاثر کرنے کا اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔اسی لئے میڈیا ریسرچ میں ادارتی صفحہ بڑا اہم ایونیو ہے، اس کا اہم ترین حصہ اداریہ اور ادارتی نوٹس ہوتے ہیں جو اخبار کی اپنی پالیسی اور حالات حاضرہ کی آرا کے ترجمان و عکاس ہوتے ہیں ۔ چونکہ حالات حاضرہ کے اہم ترین اور ترجیحی موضوعات پر رائے عامہ کی تشکیل و رہنمائی ہی ادارتی صفحے کی صحافتی خدمت (سروس) کی روح رواں ہے لہٰذا سیاسی و معاشی و سماجی اور دیگر اہم اور بنیادی شعبوں پر مسلسل آتی خبروں کے تجزیوں پر مبنی کالم نویس کا غلبہ ہی ادارتی صفحے کا بنیادی اور ترجیحی ایجنڈا ہوتا ہے ۔اس (ادارتی صفحے) کی اہمیت یوں اور بڑھ جاتی ہے کہ مطلوب اور معیاری ادارتی صفحے میں مختلف نقطہ ہائے نظر آرا اور تبصرے پیش کئے جاتے ہیں جو رائے عامہ کی تشکیل میں رہنمائی اور سہولت کا بڑا ذریعہ بنتے ہیں اور ایسے یہ ر ائے عامہ مختلف شعبہ جاتی پالیسیوں اور فیصلہ سازی کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور گرتی ساکھ، حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی اور سب سے بڑھ کر عوامی رویوں اور مختلف موضوعات پر ان کے رجحانات و ضروریات کو سمجھنے اور ان کا رخ بدلنے یا قائم رکھنے کے حوالے سے سب سے بڑی اور موثر میڈیا پراڈکٹ ہے۔ایسے میں پرنٹ میڈیا کے ادارتی صفحات اپنی نسبتاً محدود ریڈر شپ کے باوجود سنجیدہ اور صاحب الرائے قارئین کے حوالے سے بہت اہم ہیں تبھی تو آج بھی ادارتی صفحات خاصے اہم سمجھے جاتے ہیں یوں کالم نگاری کا رخ سیاسی تجزیوں کی طرف بہت واضح اور غالب ہے ۔جہاں تک ان کی طوالت کا سوال ہے کہ کالم نگاری اور مقالہ نگاری میں کوئی فرق ہے۔ جی ہاں! کالم اور حالات حاضرہ کے موضوعات سے ہٹ کر تاریخ کی تصحیح یا اسے سیاسی مقاصد کیلئے توڑنا مروڑنا، ادارتی صفحے کے بنیادی مقاصد اور روح کے منافی ہے اور صحافی اخلاق کے بھی ۔یہ بھی واضح ہو کہ ہر اخبار اپنی پالیسی اور اہلیت کے اپنے مقررہ پیمانوں کے مطابق ادارتی صفحےکیلئے کالم نویسوں کا انتخاب کرتا ہے ۔کالم نویسی کی تعریف کالم نویس کو اس کی مخصوص فری کوئینسی (تعداد یا مقدار) مستقل عنوان اور سطور و الفاظ کا پابند کرتی ہے نیز کالم کا فریم اسے موضوع کی ابتدائی وضاحت اہمیت اور مخصوص نقطہ نظر اور رائے، دلائل ، حوالوں اور نتیجے (بشکل حل تجاویز وغیرہ ) کا بھی پابند کرتا ہے اس کی محدود جگہ(سطور و الفاظ) بھی قارئین کی سکت ادارتی صفحے کی پیشہ ورانہ اصول و پابندیوں کے باعث لازم ہے۔اگر تو موضوع حالات حاضرہ کا اہم ترین اور زیادہ سے زیادہ وضاحت اور رائے عامہ کے حوالے یا کالم نویس کے اپنے اعتماد اور دسترس کے مطابق بہت اہم ہو تو قسط وار کالم سیریز کی محدود گنجائش ہی بنتی ہے، اسکی آڑ میں کتاب لکھنا کالم نویسی تو ہرگز نہیں۔ حالات حاضرہ کے زیادہ سے زیادہ موضوعات کو کالم نویسی کے احاطے میںلایا جانا لازم، پیشہ ورانہ فرائض اور اہلیت کا تقاضہ ہے ۔تاہم ہماری صحافت میں کچھ غیر متعلقہ گنجائش جو ادارتی صفحے کی روح ،سنجیدگی اور مقاصد سے متضاد ہے کی جگہ پیدا ہو چکی ہے۔ اسکی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے، یہ معیاری اور مطلوب رائے عامہ کی تشکیل اور تمام معاشرتی حکومتی سیاسی و معاشی اور ثقافتی ضروریات کا تقاضہ ہے کہ کالم نویسی میں زیادہ سے زیادہ اس صنف صحافت کے نظری اور غالب عملی پہلوئوں پر ہی کاربند رہا جائے اور حالات کا دامن نہ چھوڑا جائے اس حوالے سے ادارہ جنگ کی خدمات مثالی اور پاکستانی صحافت میں ایک قابل تقلید ماڈل ہیں،جنہوں نے پاکستانی رائے عامہ کی تشکیل اور سیاسی کتھارسس کے لئے اپنے ادارتی صفحے کا معیار بلند سے بلند کیا اور اسے ہائیڈ پارک بھی بنایا ۔

تازہ ترین