• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکثر سننے کو ملتا ہے کہ بہت زیادہ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں، یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ عدالتوں پر بہت بوجھ ہے، چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر ججز یہ بیان کر چکے ہیں کہ عدالتوں پر ہزاروں مقدمات کا بوجھ ہے، اسی لئے پچھلے دنوں سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججز کی تقرری ہوئی۔ اس مرحلہ پر بھی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے یہی مؤقف اختیار کیا گیا کہ مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لئے ایڈہاک ججز کا تقرر بہت ضروری تھا۔ یقیناً نچلی عدالتوں پر بھی بوجھ ہو گا، وہاں بھی مقدمات کی بہتات ہو گی اور اس کا اثر جیلوں پر بھی دکھائی دیتا ہو گا کیونکہ جب مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا تو بہت سے لوگوں کو سالہاسال جیلوں میں گزارنا پڑتے ہیں۔ قارئین کرام! مقدمات کا زیادہ ہونا ایک مسئلہ ہے مگر اس مسئلے کا حل نہیں ڈھونڈا جا رہا، ہم کوشش کریں گے کہ کوئی ایک تجویز ممبران پارلیمنٹ اور عدلیہ کے سامنے ایسی رکھیں، جس پر عملدرآمد کر کے مقدمات کا بوجھ ہلکا کیا جا سکے بلکہ اس تجویز کے بعد مقدمات اتنے کم ہو جائیں گے کہ ججز مقدمات کا انتظار کیا کریں گے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے مجھے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اور نچلی عدالتوں میں متعدد مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا ہے، جو باتیں میرے مشاہدے میں آئیں، وہ رقم کر رہا ہوں۔ مثلاً چھوٹی عدالتوں میں بہت سے لوگ جیلوں سے لائے جاتے، ان کے حلیوں سے پتہ چلتا تھاکہ ان لوگوں کا تعلق اس طبقے سے ہے جو غربت کی عالمی لکیر سے نیچے بستا ہے۔ ان کے چہروں پر معاشرے کے جبر کی کہانیاں لکھی ہوئی تھیں، ان کے ملبوسات اور جوتے، غربت کی گواہیاں دے رہے تھے، ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی نظر آئی جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نہ وکیل کر سکتے ہیں نہ ضمانت اپلائی کر سکتے ہیں پھر ان غریبوں کا ایک اور بھی مسئلہ ہے، اگر کوئی خدا ترسی کے جذبے سے ان کا وکیل بن بھی جائے تو ضمانت ہونے پر ان کے مچلکے کون دے گا؟ مچلکوں کے لئے زمین کی رجسٹری یا پھر نقد کیش دینا پڑتا ہے، اس کا بندوبست کہاں سے ہو گا؟ یہ بڑا سوال ہے۔ چھوٹی عدالتوں میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا جن پر ڈالے گئے جرائم ان کے چہروں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، میں نے کچھ لوگوں سے پوچھا تو پتہ چلا ان لوگوں پر مقدمات سرکاری اہلکاروں کی مدعیت میں بنائے گئے ہیں، میرے لئے اور بھی حیرت کا مقام تھا کہ کیا سرکاری اہلکار لوگوں پر جھوٹی ایف آئی آر بھی درج کرتے ہیں پھر اچانک میرا خیال لاہور کے اس پولیس اہلکار کی طرف چلا گیا، جس نے کچھ عرصہ پہلے مجھے کہا تھا کہ میرا خفیہ پولیس سے عام پولیس میں ٹرانسفر کروا دیں، میں نے اس سے وجہ پوچھی تو وہ پھٹ پڑا، کہنے لگا’’ سر! اللہ سے بہت ڈر لگتا ہے، سر ہم بہت ظلم کرتے ہیں، ہم ایک بے گناہ پکڑتے ہیں اور اس پر ستر پچھتر مقدمات ڈال دیتے ہیں، وہ ساری زندگی ان مقدمات میں پستا رہتا ہے، اس کا جسم موت تک جیل کا ایندھن بنا رہتا ہے، سر! میں نہیں چاہتا قیامت کے روز مجھ سے ایسے بے گناہوں کا پوچھا جائے‘‘۔

میں اس کی بات سمجھ گیا، کسی سے کہا اور اس کی ٹرانسفر ہو گئی، وہ ایک با ضمیر تو الگ ہو گیا مگر اس گھناونے کھیل میں اور کتنے کردار ہیں جنہوں نے موت کا کنواں سجا رکھا ہے۔ سو دوستو! مجھے نچلی عدالتوں میں سرکاری و غیر سرکاری افراد کی جانب سے قائم کیے گئے جھوٹے مقدمات کی بہتات نظر آئی۔ مقدمات کی طرح جھوٹی گواہیوں کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے پھر مقدمات کو لٹکانے کے روایتی طریقے بھی دیکھنے کو ملے، کبھی ریکارڈ نہیں تو کبھی سرکاری وکیل نہیں، کبھی کچھ نہیں تو کبھی کچھ نہیں۔ اور بھی بہت کچھ دیکھنے کو ملا، کچہریوں کے ہر موڑ پر دولت کے کرتب دکھائی دیئے۔ دوستو! یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ایک تجویز تو یہ ہے کہ جو سرکاری یا غیر سرکاری افراد جھوٹے مقدمات قائم کرتے ہیں، انہیں نوکری کے خاتمے کے ساتھ دس سال قید سنائی جائے، جھوٹی گواہی دینے پر پانچ سے سات سال سزا ہونی چاہیے، صرف اس تجویز پر عمل کر لینے سے نوے فیصد مقدمات قائم ہی نہیں ہوں گے۔ جب نوے فیصد مقدمات قائم نہیں ہوں گے تو دس فیصد رہ جائیں گے، انہیں عدالتیں آرام سے حل کر لیں گی۔ وقتی طور پر عدالتوں کا بوجھ کم کرنے کیلئے شام کی عدالتیں بھی لگا دی جائیں تاکہ مقدمات حل کی طرف جائیں۔ وزارت قانون ایک خصوصی ڈیسک قائم کرے جو جیلوں میں پڑے ہوئے غریب افراد کی قانونی معاونت کرے اور ایسے افراد کو رہا کروائے جن پر جھوٹے مقدمات قائم ہیں۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ سرکاری اہلکار جھوٹے مقدمات قائم کرنے سے گریز کریں۔ جب کسی کو اپنی نوکری کے لالے پڑیں گے تو کوئی جھوٹے مقدمات قائم نہیں کرے گا۔ بقول فیض صاحب

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

تازہ ترین