• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راقم الحروف نے تین جنوری 2024 اور چوبیس جولائی2024 کو بنگلہ دیش کے حالات پر تحریر کیا تھا کہ ’’اب شیخ حسینہ عملی طور پر یک جماعتی اقتدار میں اپنے اصل چہرے کے ساتھ واضح طور پر دکھائی دے رہی ہیں‘‘ اور کالم کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا کہ’’ یہ وہ کشمکش ہے کہ جس سے بنگالی معاشرہ اس وقت دو چار ہے اور اسے نفرت کے اظہار کا موقع دستیاب ہو گیا ہے‘‘ ۔ اسی نفرت میں جب کامیابی ملی اور یہ خبر ٹی وی اسکرینوں پر رنگ جمانے لگی کہ شیخ حسینہ کا اقتدارماضی کی صرف ایک تلخ یاد بن کے رہ گیا ہے اور وہ انڈیا فرار ہو گئی ہیں اور ان کو پینتالیس منٹ دیے گئے تھے کہ وہ فیصلہ کرلیں تو اس وقت میرے ساتھ موجود ایک غیر ملکی دوست نے کہا کہ شیخ حسینہ بہت خوش قسمت ہے کہ اتنی لاشوں کا بوجھ اٹھانے کے باوجود ان کو بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے پینتالیس منٹ دیے ورنہ شیخ مجیب الرحمن کے انجام کی طرف بڑھنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی ۔میں نے کہا کہ وہ بچ ہی صرف اس لئے گئی ہیں کہ بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ جنرل وقار الزمان ہیں ۔ وہ کیوں ؟ اس کی آواز میں بہت سوالیہ انداز تھا۔ کیا وہ اس لئے بچ گئی ہیںکہ جنرل وقار کو ابھی 23 جون کو ہی اس منصب پر انہوں نے خود مقرر کیا تھا ؟ میں نے جواب دیا نہیں؛ بلکہ اس لئے کہ جنرل وقار آخر تک ان کے ساتھ مخلص رہے اور ان کی عوام کے ہاتھوں جان بخشی کرادی اور اس اخلاص کی صرف یہ وجہ نہیں کہ شیخ حسینہ نے انھیں آرمی چیف مقرر کیا تھا یا جنرل وقار کے سسر جنرل مستفیض کو انہوں نے 1997 میں ریٹائرمنٹ سے صرف ایک دن قبل آرمی چیف بنایا تھا ۔ جنرل مستفیض کو اس وقت آرمی چیف مقرر کرنے کی یہ وجہ تھی کہ جنرل مستفیض شیخ مجیب الرحمن کی کزن کے شوہر تھے یعنی موجودہ آرمی چیف جنرل وقار کی اہلیہ اور شیخ حسینہ آپس میں کزنز ہیں اور اسی رشتے داری نے شیخ حسینہ کو اتنا موقع فراہم کیا کہ وہ بنگلہ دیش سے فوجی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں با الفاظ دیگر ان کی قسمت میں 15 اگست انیس سو پچھتر نہیں آیا ورنہ انہوں نے جس انداز میں اپنے تخت کے پائے خون میں ڈبو رکھے تھے اگر وہ کہیں عوام کے ہاتھ آ جاتیں تورومانیہ کے بھاگتے آمر چاؤ شسکو سے مختلف صورت حال سے دو چار نہ ہوتیں ۔ خیال رہے کہ جنرل مستفیض پاکستان ایئر فورس میں انیس سو باسٹھ میں بطور ایئر مین منسلک ہوئے تھے اور بعد میں ایک کیڈٹ کالج اسکیم کے تحت پاکستان آرمی میں کمیشنڈ افسر بن گئے تھے ۔ اس کا تذکرہ ان لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ جو ہر وقت یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ مغربی پاکستان والے مشرقی پاکستان والوں کو آگے نہیں بڑھنے دے رہے تھے ۔ بہرحال شیخ حسینہ جس راستے پر گامزن رہیں اس نے ان کے ملک میں جمہوری اقدار کو زبردست طور پر نقصان پہنچایا ۔ وہ مخالفين کے خون سے اپنی پیاس کو بجھاہی نہیں پا رہی تھیں بلکہ ان کی پیاس تو بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی ۔ جب دو ہزار تیرہ میں شیخ حسینہ حکومت نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے عبدالقادر ملا کو سزائے موت دی اور دیگر افراد کو سزائے موت کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو اس وقت راقم الحروف نے اپنے کالموں میں تحریر کیا تھا کہ وہ ان افراد کو سزا نہیں دے رہیں بلکہ در حقیقت پاکستان کو مجرم قرار دے رہی ہیں ۔ انہوں نے متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے آخری اسپیکر فضل القادر چوہدری کے بیٹے صلاح الدین چوہدری کو، جو چٹاگانگ سے سات بار بنگلہ دیشی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے ، بائیس نومبر دو ہزار پندرہ میں سینٹرل جیل ڈھاکہ میں پھانسی دے دی اور یہ وہی جیل ہے جہاں پر شیخ مجیب الرحمن کی حراست میں ان کے والد فضل القادر چوہدری نے سترہ جولائی انیس سو تہتر میں پر اسرار حالات میں وفات پائی تھی ۔ فضل القادر چوہدری اپنی آخری سانس تک پاکستانی ہی رہے تھے ۔ صلاح الدین چوہدری پر جس زمانے کے دوران الزامات عائد کئے گئے تھے وہ اس وقت سے یعنی مارچ انیس سو اکہتر سے مغربی پاکستان میں موجود تھے اور پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے پاکستانیوں کی گواہیوں کو تو ایک طرف رکھئے ۔ بنگلہ دیشی جج جسٹس شمیم حسنین نے ان کے خلاف کارروائی کرنے والے ٹربیونل کو تحریری طور پر بیان دیا تھا کہ مارچ انیس سو اکہتر سے وہ ان کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے مگر شیخ حسینہ ان کو تختہ دار پر جھولتا دیکھنا چاہتی تھیں ۔

وہ اپنی حمایت قائم رکھنے کیلئے بنگلہ دیش کی قومی سلامتی سے بھی کھیل رہی تھیں ۔ انہوں نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کیلئے امریکہ پر الزامات عائد کرنا شروع کر دیے تھے کہ ان کو ڈرایا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ کو خلیج بنگال میں فوجی اڈہ دیں ۔ مذہبی کارڈ کے استعمال کی بھی وہ کوشش کر رہی تھیں، انہوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ انکے پاس گورے آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ خلیج بنگال میں اڈہ دیں اور وہ بنگلہ دیش اور میانمار کے حصوں پر مشتمل ایک مسیحی ملک قائم کرنا چاہتے ہیںجیسا کہ مشرقی تیمور کو قائم کیا گیا ۔ انکا اشارہ بنگلہ دیشی علاقہ چٹوگرام اور اس سے منسلک میانمار کے علاقوں کی طرف تھا ۔ اس شوشے سے ایک تو وہ کوشش کر رہی تھیںکہ بنگالی مذہبی طبقات میں بے چینی پیدا کریں تا کہ وہ با امر مجبوری حسینہ واجد کی جانب دیکھنا شروع کردیں اور دوسرا وہ انڈیا کو پیغام دے رہی تھیں کہ اگر وہ اقتدار سے ہلیں تو صرف بنگلہ دیش کو ہی نہیں بلکہ انڈیا کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انڈیا سے مزید قربت کیلئے چین کو دھوکہ دیتے ہوئے انہوں نے تیستا آبی پروجیکٹ بھی انڈیا کے حوالے کیا تھا مگر ان سب ڈرامہ بازیوں کے باوجود وہ تین سو مزید لاشوں کا بوجھ اٹھائے اقتدار سے بے دخل ہو گئیں۔

تازہ ترین