اس وقت میرے سامنے ٹی وی چینل پر ایک دیو ہیکل مجسمہ دکھایا جارہا ہے جسکے اوپر کچھ مشتعل لوگ چڑھ کر ہتھوڑے مار کراسے گرانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ لوگ ہمارے ہی خطے کے اس ملک کے باسی ہیں جو کسی زمانے میں مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اوریہ مجسمہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کا ہے جس نے دسمبر 1971ء میں قائد اعظم کے پاکستان کو دو لخت کر کے بنگلہ دیش بنا دیا تھا یعنی بنگالیوں کا وطن۔ تحریک پاکستان کی اہم سرزمین مشرقی بنگال پربنگلہ دیش کے غیرفطری قیام سے کچھ سوال آج بھی حل طلب ہیں کہ اگر واقعی عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش بنگالی عوام کا ملک ہے تو پھر بھارت میں واقع سرزمین بنگال کے دوسرے حصے کو شامل کیوں نہیں کیا گیا اورجو بنگالی نسل کے لوگ سرحد پار بستے ہیں،کیا وہ بنگالیوں کے دیش کی شہریت کے حقدار نہیں؟خیر، میرے آج کے کالم کا موضوع قائداعظم کا پاکستان توڑنے والے شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کے کئی دہائیوں پر مشتمل طویل اقتدار کا عبرت ناک انجام ہے، سابق وزیراعظم شیخ حسینہ جمہوری وزیراعظم کے بھیس میں ایک ایسا آمرانہ کردار تھا جس کی سیاست بھارت کی اشیرباد پرپاکستان دشمنی کے گرد گھومتی تھی۔ دسمبر 1971ء میں شیخ مجیب الرحمان نے قائد اعظم کا پاکستان توڑ کر اقتدار تو سنبھال لیا لیکن وہ قدرت کے انتقام سے نہ بچ سکا اور چند سال بعد ہی 1975 میں وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن کو خاندان سمیت قتل کر دیا گیا، اس وقت 27 سالہ حسینہ بیرون ملک تھی جس نے وطن واپسی کے بعد اپنے باپ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان دشمنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حالیہ دنوں میںبنگلہ دیش میں جو بد امنی اور افراتفری کا ماحول پیدا ہوا، اسکا آغاز جولائی میں یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کے احتجاج کی صورت میں ہوا، یونیورسٹی طلبہ کا موقف تھا کہ اس وقت لگ بھگ ایک کروڑ بیس ہزار تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں لیکن شیخ حسینہ کی حکومت میں رائج کوٹہ سسٹم کے تحت سرکاری جاب کے حصول میں کامیابی کا معیار میرٹ نہیں بلکہ امیدوار کے باپ داداکے ماضی پر منحصر ہے کہ اس نے اکہتر میں پاکستان کے خلاف کیاکردار ادا کیا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طلبہ کے احتجاج پرجاب کوٹہ سسٹم پر انکے تحفظات پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جاتا لیکن شیخ حسینہ نے پاکستان دشمنی کی روش پر چلتے ہوئے احتجاجی اسٹوڈنٹس کو ہی پاکستان کا ایجنٹ قرار دے دیا، شیخ حسینہ نے ہٹ دھرمی کا رویہ اپنایا کہ یہ جو لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، یہ اسٹوڈنٹس کے بھیس میںپاکستان کے رضاکار ہیں اور بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامی کسی رحم کے مستحق نہیں۔یہاں لفظ رضاکارکی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جب 1971 میں قائداعظم کا پاکستان توڑنے کیلئے مکتی باہنی نے پاکستان کے حامیوں پر گوریلا حملے شروع کیے تو اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو پاکستان کو متحد رکھنا چاہتے تھے، ان لوگوں کو رضاکار کا نام دیا گیا جو رضاکارانہ طور پر ریاست پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، تاہم بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں لفظ رضاکار کو ایک گالی بنا دیا گیا، شیخ حسینہ کے دورمیں جب بھی اپنے کسی سیاسی حریف کو ہدفِ تنقید بنانا ہوتا تو اُسے رضاکاریعنی پاکستانی ایجنٹ کا طعنہ دیاجاتا۔بنگلہ دیش میں حالیہ مظاہروں کی ایسی بہت سی ویڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئیں جن میںا سٹوڈنٹس نعرے لگا رہے ہیں کہ میں کون؟ تم کون؟ رضاکار،رضاکار...!اورپھر پوچھا جاتا ہے ہمیں یہ کہہ کون رہا ہے؟ اسکے جواب میں تمام اسٹوڈنٹس یک زبان ہو کر نعرے لگاتے کہ ڈکٹیٹر ڈکٹیٹر اور یوں بنگلہ دیش کے باشعوربہادر نوجوانوں نے شیخ حسینہ کی آمریت کوللکارنا شروع کیا۔ انسانی تاریخ کی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انقلاب خون مانگتا ہے،بنگلہ دیش کے اسٹوڈنٹس کی یہ جدوجہد بھی اس لحاظ سے بہت خونیں ثابت ہوئی کہ حالیہ احتجاج میں درجنوں معصوم جانوں نے قربانی پیش کی، مظاہرین پر اندھادھند گولیاں برسائی گئیں اور طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا گیا۔کیا آج سے چند دن قبل کوئی تصورکر سکتا تھا کہ مظاہرین کو طاقت سے کچلنے کا ارادہ رکھنے والی بنگلہ دیش کے سیاہ و سفید کی مالک شیخ حسینہ ایک ہیلی کاپٹر میں ملک سے فرار ہوجائے گی لیکن ہم سب نے اپنی آنکھوں سے شیخ حسینہ کو قصہ ماضی بنتے ہوئے دیکھا۔ ویدک علم نجوم کے مطابق سال 2024کرما کا سال ہے، رواں سال کے دوران دنیا کے ہر طاقتور حکمران کو اپنے ماضی کے کرتوتوں کا پھل پانا ہے، میںاس سلسلے میںماضی کے اپنے ایک کالم میں خبردار کرچکاہوں کہ سال 2024ء میں منعقدہ انتخابات میں دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ قوتوں کو شکست کا سامنا ہے، شیخ حسینہ نے رواں برس جنوری میں منعقدہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن وہ طویل حکومت کرنے کے باوجودعوام کی نظروں سے روزبروز گرتی چلی گئیںاور آخرکار کرما کے سال میں اپنے عبرتناک انجام کو جاپہنچیں۔ تاہم بطور تاریخ کے طالب علم میرے لئے یہ کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ ازل سے ایسا ہی ہوتاآرہا ہے کہ جو بھی حکمران عوام کی حمایت سے محروم ہو کر ریاستی طاقت کے زعم میں اپنے ہی لوگوں کو دباتا ہے، وہ پھرقدرت کے انتقام سے نہیں بچ سکتا۔ آج جو کچھ ہمیں بنگلہ دیش میں دیکھنے کو ملا ہے، اس سے دنیا بھر کے حکمرانوںکو یہ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کو اپنی اولین ترجیح بنائیں اور طاقت کے گھمنڈ میںایسی کوئی حرکت نہ کریں جس سے عوام کا ٹھاٹھیںمارتا ہوا سمندر بے قابو ہو جائے اور انکے اقتدارکو بہا لے جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کے مشرقی پاکستان کے باسی اپنے ملک میں نفرتوں کا مزید پرچار نہیں چاہتے، امید کی جانی چاہیے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام ماضی کی تلخیوں کو بھلاکر ایک دوسرے کے ساتھ باہمی احترام اور دوطرفہ تعاون کا رشتہ مستحکم کریں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)