کُرّۂ ارض پر ہر دَور میں کچھ ایسے افراد موجود رہے ہیں کہ جنہوں نے انتہا پسندی، عدم برداشت اور نفرت و عداوت کا سدِ باب کرتے ہوئے عالمِ انسانیت کے لیے امن و آشتی کی راہ ہم وار کی۔ آج پھر دُنیا کو ایسے ہی مخلص رہنماؤں کی اشد ضرورت ہے کہ جو پُر تشدّد رویّوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے امن کی فضا قائم کریں۔
یاد رہے کہ کسی بھی مُلک میں رُونما ہونے والے پُر تشدّد واقعات کے نتیجے میں پھر اُس مُلک کی ساکھ دُنیا بَھر میں متاثر ہوتی ہے اور اقوامِ عالم اُسے تنقید کا نشانہ بناتی ہیں ، کیوں کہ احترامِ انسانیت اور امن و امان کے حوالے سے دُنیا کی مختلف تہذیبوں اور مذاہب میں روایات سمیت دیگر عناصر کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔
تاہم،بدقسمتی سے موجودہ ترقّی یافتہ دَور میں بھی دُنیا کا امن بالکل اُسی طرح خطرات سے دوچار ہے، جس طرح قبائلی دَور میں انسان ہمہ وقت خطرات کا شکار رہتا تھا۔ آج بھی دُنیا میں ’’جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس‘‘ ہی کا اصول کار فرما ہے۔
آج بھی انسان کا خون ارزاں ہے اور کسی کی جان، مال اور عزّت مکمل محفوظ نہیں۔ آج بھی اظہارِ رائے پر پابندیاں عائد ہیں اور رنگ ، نسل، ذات پات اور وطن پرستی کا جِن بے قابو ہے ، اُونچ نِیچ کا فرق ختم نہیں ہوا۔ دُنیا میں نِت نئے نظریات سامنے آ رہے ہیں، لیکن کوئی انسان کے بنیادی مسائل کا حل پیش نہیں کر رہا۔ گرچہ انسانیت کے تحفّظ کے لیے لیگ آف نیشنز اور اقوامِ متّحدہ جیسے ادارے قائم کیے گئے، مگر کشت و خوں آج بھی جاری ہے۔
اقوامِ متّحدہ نے دُنیا کو درپیش مسائل سے متعلق آگہی فراہم کرنے اور اُن کا حل پیش کرنے کے لیے مختلف عالمی یوم مقرّر کیے ہیں اور ان ہی میں ’’عالمی یومِ انسانیت‘‘ بھی شامل ہے۔ اس ضمن میں یو این او کی جنرل اسمبلی نے 2008ء میں ایک متفقّہ قرارداد کے ذریعے 19اگست کا دن عالمی یومِ انسانیت کے طو پر منانے کی منظوری دی۔ اس روز دُنیا بَھر میں تنازعات اور جنگوں کا مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل نکالنے کے لیے مختلف اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں مقرّرین اپنی اپنی آراء پیش کرتے ہیں۔
تاہم، دوسری جانب انسانیت پر ظلم ڈھانے کے نِت نئے طریقے بھی وجود میں آرہے ہیں۔ آج طاقت وَر ممالک نے کم زور ریاستوں کے شہریوں کے لیے زمین تنگ کر دی ہے۔ فلسطین سمیت دیگر اسلامی ممالک میں آتش و آہن کی برسات جاری ہے، تو ہمارے پڑوسی مُلک، بھارت میں ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، جب کہ کچھ عرصہ قبل برما کے مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر برق بے چارے مسلمانوں ہی پر کیوں گرتی ہے؟ اقوامِ متّحدہ کی چھتری تلے ہی فلسطینی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے علاوہ دُنیا بَھر کے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ اکتوبر 2023ء سے غزہ میں جاری اسرائیل کے وحشیانہ مظالم نے جہاں انسانیت کو شرما دیا ہے، وہیں انسانیت کا بدترین چہرہ بھی دُنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ دُنیا کے خطرناک ترین ہتھیاروں کا تجربہ فلسطین کے نہتّے شہریوں پر کیا گیا۔
ایک طرف بُھوکے بھیڑیے اپنی نظریں شکار پر لگائے بیٹھے ہیں، تو دوسری جانب ’’برادر مُلک‘‘ ہونے کے جھوٹے دعوے داروں نے مظلوم فلسطینیوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں اور انسانیت کے عَلم بردار ہونے کا دعویٰ کرنے والے سب سے بڑے ادارے، اقوامِ متّحدہ کی نام نہاد سلامتی کاؤنسل اپنے ہی بنائے گئے جنگی قوانین کے بخیے اُدھڑتے دیکھ رہی ہے۔
گرچہ فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف دُنیا بَھر سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن یہ کافی نہیں اور اس کے ساتھ عملی اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ کُن مرحلہ ہے، قیل و قال، حُجّت بازی اور عُذر خواہی کا موقع نہیں، کیوں کہ پوری انسانی تاریخ میں شاید ہی کبھی اتنا بدترین ظلم کہیں کیا گیا ہو، جتنا کہ گزشتہ 11ماہ میں ارضِ فلسطین کے باسیوں پر کیا جا چُکا ہے۔ درحقیقت، یہ نہتّے فلسطینیوں کی نسل کُشی کی مذموم سازش ہے، جسے ہم اپنی مشترکہ کاوشوں کے ذریعے ہی روک سکتے ہیں، وگرنہ یہ خون آشام عفریت ایک روز ہمیں بھی نگل لے گا۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
قدرتی آفات اور نوجوان نسل (سید اطہر نقوی)ایل جی بی ٹی کیو کیا ہے؟(مفتی اکرام واحدی، کراچی) وائلڈ لائف کومبنگ آپریشن (مرزا محمد رمضان) اشفاق احمد(محمد اقبال شاکر، میاں والی) پاکستان ایک مقدّس امانت (اسماء اعظم) جنگلات، معاشی عدم استحکام کے سبب نوجوان کی دیگر ممالک کی جانب ہجرت (صبا احمد) سندھ مدرسۃ الاسلام یونی ورسٹی کا پانچواں کانووکیشن (انور ابڑو) ضلع کوہلو میں تعلیمی بحران (شیراز عالم مری، شہید جہاں گیر آباد، کوہلو) عورت کا دوسرا نام، قربانی (طوبیٰ سعید، لاہور) عیدِ قربان اور مرغی کی قربانی (حافظ عمران احمد عمرانی) قربانی نہیں قربانیاں، کنکریاں (ریطہ فرحت) لا الٰہ کے دیس میں (منیبہ مختار اعوان، لاہور) مَیں کراچی ہوں (رابعہ محمد عثمان) وفاقی اردو یونی ورسٹی میں عبدالحق کیمپس میں پینے کے پانی کا بحران (فیضان شفیق جمالی) 28 مئی یومِ تکبیر (شبیر احمد لہڑی، نصیر آباد، گڑھی خیرو)میرا شوہر بس میرا ہے (غزل جعفری)میٹا اور بھارتی لابنگ (حافظ بلال بشیر، کراچی)بجلی کے بل اور لوڈشیڈنگ، شہرِ قائد میں پانی کی قلّت (صغیر احمد صدیقی) آم اور ثقافت (جاوید ایاز خان)۔