• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

یہ حُسنِ نو بہار، یہ ساون کی بدلیاں ...

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز: صبا، تانیہ

ملبوسات: رضا شاہ

آرائش: عائشاز بیوٹی سیلون (برکت مارکیٹ، لاہور)

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

موسموں، رُتوں کی بات ہو، تو جس قدر شعر و شاعری، گیت و نغمہ نگاری برکھا رُت، موسمِ برسات، ساون جھڑی، میگھ ملہار، بھادوں کے مینہ، ٹِپ ٹِپ پڑتی بوندوں، رِم جِھم برستی پھوار،باد و باراں، کالی سیاہ بدلیوں، ابرِ رحمت، ابرِکرم، ’’بارش کے موسم‘‘ پرکی گئی ہے، شاید ہی کسی پر کی گئی ہو۔ گرچہ خزاں رُت، موسمِ سرما، بہارسمے کے چاہنے، سراہنے والے بھی کم نہیں، لیکن ساون رُت کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ 

شاید اس موسم کا جذبات و احساسات، تصورات و خیالات کے بہاؤ سے کچھ خاص ہی ربط ضبط ہے۔ گرچہ گلوبل وارمنگ، کلائمیٹ چینج نے سب موسموں، رُتوں کو کچھ ایسے اُتھل پُتھل کردیا ہے کہ نہ تو اب اُن کے کوئی مخصوص مہہ و ایّام رہ گئے ہیں اور نہ ہی اُن سے مشروط روایتی رنگ و انداز۔ بے موسم ساون بھی برسنے پہ آتا ہے، تو برسے ہی جاتا ہے اور کبھی کبھی تو ایسا غضب ناک ہو جاتا ہے کہ سامنے آئی ہر شئے ہی بہا لے جاتا ہے۔ نہیں برستا، تو جَلتی بَلتی، سُلگتی، چٹختی پیاسی دھرتی اپنی صحرائی، پتھرائی آنکھوں سے مسلسل، آسمانِ رحمت کو تکے جاتی ہے، مگر چار بوندیں بھی نہیں پڑتیں کہ پپڑی زدہ زمین کے لب ہی تر ہوجائیں۔ 

خیر، اِن دنوں تو مُلک بَھر ہی میں موسم خُوب مہربان ہے۔ کہیں چھاجوں مینہ برس رہا ہے، تو کہیں ’’رِم جھم گِرے ساون، سُلگ سُلگ جائے مَن.....بھیگے آج اس موسم میں لگی یہ کیسی اگن۔‘‘ کے مثل ہے۔ اب رُت ایسی حسین ونشیلی ہو،اوربارش، برکھا، میگھا، ساون کی نسبت معروف غزلیں، گیت، اشعار، اقوال نہ دہرائےجائیں، کیسے ممکن ہے۔

ناصر کاظمی کی غزل ؎ ’’پھر ساون رُت کی پون چلی، تم یادآئے.....پھرپتّوں کی پازیب بجی، تم یاد آئے.....پھرکُونجیں بولیں، گھاس کے ہرے سمندر میں.....رُت آئی پیلے پھولوں کی، تم یاد آئے.....پھرکاگا بولا، گھرکےسُونے آنگن میں .....پھر امرت رس کی بوند پڑی، تم یاد آئے .....پہلے تو مَیں چیخ کے رویا اور پھرہنسنے لگا.....بادل گرجا، بجلی چمکی، تم یاد آئے.....دن بَھر تو مَیں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا..... جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی، تم یاد آئے۔‘‘ تو گویا موسمِ برسات کا ترانہ ہے۔ مگر امجد اسلام امجد کےیہ اشعار بھی ؎ ’’کہاں آکے رکنے تھے راستے، کہاں موڑ تھا اُسے بھول جا.....وہ جو مِل گیا اُسے یاد رکھ، جو نہیں مِلا، اُسے بھول جا.....وہ تِرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں.....دلِ بےخبر مِری بات سُن، اُسے بھول جا، اُسے بھول جا۔‘‘ اس موسم میں کئی دِلوں کی آواز بن جاتے ہیں۔ 

پھر ندا فاضلی کا شعر؎ ’’برسات کا بادل تو دیوانہ ہے، کیا جانے.....کس راہ سے بچنا ہے، کس چھت کو بھگوناہے۔‘‘، تو پروین شاکر کے اشعار ؎ ’’کاش صندل سےمِری مانگ اُجالےآکر.....اتنے غیروں میں وہی ہاتھ، جو اپنا دیکھوں.....تُومیرا کچھ نہیں لگتا ہے، مگر جانِ حیات.....جانے کیوں، تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں.....بند کرکے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے.....بُوجھے جانےکا مَیں ہرروز تماشا دیکھوں.....سب ضدیں اُس کی مَیں پوری کروں، ہربات سُنوں..... ایک بچّے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں.....مجھ پہ چھاجائے، وہ برسات کی خُوشبو کی طرح..... انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں۔‘‘ 

جاں نثار اختر کی غزل کے خُوب صُورت اشعار ؎ آئے کیا کیا یاد، نظر جب پڑتی ان دالانوں پر.....اُس کا کاغذ چپکا دینا گھر کے روشن دانوں پر.....آج بھی جیسے شانے پر تم ہاتھ مِرے رکھ دیتی ہو.....چلتے چلتے رُک جاتا ہوں، ساری کی دکانوں پر.....برکھا کی تو بات ہی چھوڑو، چنچل ہے پُروائی بھی.....جانےکس کا سبز دوپٹّا پھینک گئی ہے دھانوں پر.....شہر کے تپتے فٹ پاتھوں پر، گائوں کے موسم ساتھ چلیں..... بوڑھے برگد ہاتھ سا رکھ دیں، میرے جلتے شانوں پر.....اُس کاکیا مَن بھید بتاؤں، اُس کاکیاانداز کہوں.....بات بھی میری سُننا چاہے، ہاتھ بھی رکھے کانوں پر.....شعر تو اُن پر لکھے، لیکن اوروں سے منسوب کیے.....اُن کو کیا کیا غصّہ آیا، نظموں کےعنوانوں پر۔‘‘ جگجیت سنگھ اور چترا کا گایا ہوا امرگیت ؎ ’’یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو.....بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی.....مگرمجھ کولوٹادو،بچپن کا ساون.....وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی۔‘‘ سعد اللہ شاہ کے اشعار؎ ’ ’ابر اُترا ہے چار سُو دیکھو.....اب وہ نکھرے گا خُوب رُو دیکھو.....سُرخ اینٹوں پہ ناچتی بارش.....اور یادیں ہیں رُوبرو دیکھو..... ایسے موسم میں بھیگتے رہنا.....ایک شاعر کی آرزو دیکھو۔‘‘

اور.....خالد معین کی ایک اچھوتی، اَن چھوئی سی غزل ؎ ’’رقص کیا، کبھی شورمچایا،پہلی پہلی بارش میں.....مَیں تھا، میرا پاگل پَن تھا، پہلی پہلی بارش میں.....پیہم دستک پر بوندوں کی، آخر اُس نے دھیان دیا..... کُھل گیا دھیرے دھیرے دریچہ، پہلی پہلی بارش میں.....ایک اکیلا مَیں ہی گھر میں خوف زدہ سا بیٹھا تھا.....ورنہ شہرتو بھیگ رہا تھا، پہلی پہلی بارش میں.....آنےوالےسبزدِنوں کی سب شادابی، اس سے ہے.....آنکھوں نےجو منظر دیکھا، پہلی پہلی بارش میں.....شام پڑے سوجانے والا، دیپ بجھا کر یادوں کے.....رات گئے تک جاگ رہا تھا، پہلی پہلی بارش میں.....جانے کیا کیا خواب بُنے تھے، پہلے ساون میں، مَیں نے.....جانے اُس پر کیا کیا لکھا، پہلی پہلی بارش میں۔‘‘ سب اِس ست رنگے موسم ہی کی تو ’’وارداتیں‘‘ ہیں۔

اِسی طرح اِس البیلی، بانوری رُت سے کئی معروف اقوال بھی منسوب ہیں۔ جیسے ’’مجھے بارش میں بھیگتے بہت دُورتک چلتے چلے جانا بہت پسند ہے،کیوں کہ اِس طرح کسی کو میرے آنسو دکھائی نہیں دیتے۔‘‘، ’’انگیٹھی میں جلتی آگ اور کھڑکی کے شیشے پہ گرتی بارش سے زیادہ رومانی نظارہ کوئی نہیں ہوسکتا۔‘‘، ’’جب بارش سب دھول، مٹی دھوسکتی ہے، تو ہم اپنے دل و دماغ سےدُکھوں، غموں کےداغ کیوں نہیں مِٹا سکتے۔‘‘،’’آپ کو بارش سے خوف زدہ ہونا ہے یا اُسے خُوب انجوائے کرنا ہے، یہ آپ کا اپنا انتخاب ہے۔‘‘، ’’بچّوں کو بارش کے کیچڑ میں کھیلتے دیکھنے سے زیادہ حسین منظر بھلا کیا ہوگا۔‘‘، ’’برکھا رُت دراصل اپنے لیے کچھ وقت نکالنےکی ایک یاددہانی ہے۔‘‘، ’’زندگی، طوفانوں کے گزرنے کے انتظار کا نام نہیں، یہ تو بارش کے موسم میں رقص سیکھنے کا نام ہے۔‘‘، ’’جب بارش ہورہی ہو، تو اُس سمے سب سے بہتر کام بس برستی بارش کو دیکھتے رہنا ہی ہے۔‘‘، ’’حُسنِ فطرت میں کئی گہرے راز پنہاں ہیں اور بارش ہربارکچھ نہ کچھ بتانے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘، ’’ٹین کی چھت پررِم جِھم برستی بوندوں کی آواز سے بہتر موسیقی تخلیق نہیں کی جاسکی۔‘‘، ’’پیاسی دھرتی برکھا پھوار کے بعد جیسے مہکتی ہے، دنیا کی قیمتی سے قیمتی خوشبو اُس کے آگے ہیچ ہے۔‘‘، ’’برکھا، جھولا، کتاب اور ایک کپ چائے، اِس سے بہترکامبی نیشن ملنا ناممکن ہے۔‘‘، ’’ایک اچھا دوست وہ بھی ہے، جو آپ کی چھتری پکڑے ساتھ ساتھ چلے، مگر وہ کہیں اچھا دوست ہے، جو دونوں چھتریاں پھینک کے آپ کو بھی اپنے ساتھ برستی بارش میں ہنسنے بولنے، گانے جھومنے پرمجبورکردے۔‘‘، ’’برکھا رُت کا حزن و ملال سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ اگر آسمان کے آنسوبھی ہیں، تووہ آنسو ہیں،جو بےتحاشا ہنسنے پر بےاختیار ہی چھلک جاتے ہیں۔‘‘، ’’برستی بارش میں آپ کے ساتھ بھیگنے والا ہی آپ کا مخلص دوست ہے۔‘‘ اور… ’’اگر آپ کبھی موسمِ گرما کی بارش میں بھیگے، اُس سے لُطف اندوز نہیں ہوئے، تو اِس کا مطلب ہے، آپ زندہ ہی نہیں ہیں۔‘‘

اب آپ کہیے، برکھا رُت سے متعلق آپ کے کیا خیالات و احساسات ہیں اور ساتھ ساتھ ہماری حسین و دل کش سی محفل سے بھی حَظ اُٹھاتے جائیں۔ جہاں دو سکھیاں سہیلیاں خوب بن سنور کے اس کافر ادا موسم کے سب ہی رنگ و انداز سے نہ صرف خُود خُوب محظوظ ہو رہی ہیں، دوسروں کوبھی جی بھرلُطف اُٹھانےکی تحریک دے رہی ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید