تحریر: نرجس ملک
مہمانانِ گرامی: آمنہ، صدف، منال، ارسل، احمد
ملبوسات: مظہر علی کلیکشن
آرایش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ : نوید رشید
اِس نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کی کھینچا تانی میں ہمارا ’’اصل پاکستان‘‘ تو کہیں کھو ہی گیاہے۔ ہمارے قائدؒ، ہمارےاقبالؒ، ہمارے اسلاف، ہمارےاجداد کا پاکستان۔ جو ایک طویل، انتہائی صبرآزما اور مثالی جدوجہد کے بعد دنیا کے نقشے پر، دینِ اسلام کے نام پہ حاصل کیے گئے پہلے مُلک کی صُورت اُبھرا۔ جسےعین ستائیسویں شب دولتِ آزادی کا میسّر آنا تائیدِ خداوندی کی سند ٹھہرا، توجس کی بنیاد ہی دو قومی نظریئے اور مسلمانوں کی علیحٰدہ دینی و دنیاوی شناخت و تشخّص پر رکھی گئی۔
جس کی آزادی کی قیمت تاریخ کی سب سے بڑی اور انتہائی اندوہ ناک ہجرت، لاکھوں انسانی جانوں، عزتوں اور مال و اسباب کا نذرانہ پیش کرکے چُکائی گئی۔ وہی پاکستان (پاک لوگوں کا وطن) جس کے نام پر پُرکھوں کی میراث/ جائدادیں، بسی بسائی بستیاں، چلتے کاروبار، روزگار، سب مال و زر، سارے رشتے ناتے، دوست احباب چھوڑ دینے میں لمحے بھر کی تاخیر و تردّد نہ کیا گیا۔
جس کی خاک چُومنے، جسے اپنانے، بسانے، جس میں رہنے بسنے کی خواہش میں آگ کے دشت، لہو کے دریا پار ہوئے۔ نفوسِ انسانی، حقیقتاً مولی، گاجر کی طرح کاٹے گئے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ کتنے پیکر کٹے، پھر یہ پیکر بنا.....کتنے ماتھے جلے، پھر یہ جھومر سجا۔ وہی پاکستان، جس کی شناخت پانے، قومیت و وطنیت اپنانے کی خاطر وہ وہ قرض اتارے گئے، جو کہ واجب الادا بھی نہ تھے۔ اور پھر دل سے مانا، تسلیم کیا گیا کہ ؎ مِرا وطن ہے، مِرے شجرۂ نسب کی طرح.....بغیر اِس کے تھی ممکن کہاں شناخت مِری۔
ہمارا وہی پاکستان، وہ پاک دھرتی پون صدی کی عُمر پانے کے بعد آج کس مقام پر آن کھڑی ہوئی ہے، کیا کبھی کسی نے تصوّر بھی کیا تھا۔ روشن، مثبت پہلوئوں پر نگاہ ڈالیں تو بے شک ہمیں جوہری طاقت کی حامل پہلی اسلامی ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے، تو مختلف فیلڈز کے ہمارے کئی ماہرین نے دنیا بَھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا۔
ہم نے کئی شعبہ جات میں مُلکی ہی نہیں، عالمی سطح پر کام یابیاں و کام رانیاں سمیٹیں، تو’’پاکستانی‘‘ کی شناخت رکھنے والی کئی شخصیات، خصوصاً نوجوانوں نے مُلک کا نام، اپنا سبز ہلالی پرچم خُوب سربلند بھی کیا۔ لیکن.....دوسری طرف اگر دنیا کی دیگر اقوام (خصوصاً ہمارے ساتھ یا ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک) سے تقابل و موازنہ کیا جائے تو ہماری اِن کام یابیوں، شادکامیوں کی شرح آٹے میں نمک ہی کے مثل لگتی ہےکہ آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہماری اکثریتی آبادی غربت کی لکیر سے بھی (یاد رہے، ’’خطِ غربت‘‘ سے مُراد آمدنی کی وہ حد ہے، جس سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد، بنیادی ضروریاتِ زندگی سے بھی محروم ہیں) کہیں نیچے، بہت نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
بھوک و ننگ، غربت و افلاس، بےسروسامانی، بے روزگاری، دُکھ بیماری، جہالت و ناخواندگی، علاج معالجے سے محرومی جن کا سامانِ حیات اور بالآخر بے بسی و بے کسی کی موت جن کا مقدر ٹھہرا۔ اور اس ضمن میں اصل خجالت و ندامت، افسوس و شرمندگی کا پہلو یہ ہے کہ یہ ذلّت و رسوائی کوئی ازل سے ہمارے مقدر میں لکھی نہیں گئی، یہ ہماری اپنی کوتاہیوں، غلطیوں، گناہوں کا شاخسانہ و ہرجانہ، زرِ نقصان و تاوان ہے۔ قصّۂ غم، داستانِ الم کہاں سےشروع کریں، کہاں ختم۔ جس شجر پہ رین بسیرا ہو، اُسی کی جڑیں کھوکھلی بلکہ اُسے جڑ ہی سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرنے، اپنےلیےخود گڑھے کھودنے، پائوں پہ کلہاڑی مارنے جیسی امثال کو جیسا ہم نے یہاں صادق آتے دیکھا، بخدا دنیا میں کہیں نہیں دیکھا گیا۔
اپنے مُلک کے وسائل کو برباد، ملیا میٹ کرنے، دونوں ہاتھوں سے لُوٹنے کھسوٹنے کی جیسی داستانیں یہاں رقم ہوئی ہیں، کبھی کم ہی سُنی، دیکھی گئی ہوں گی اور یہی اصل المیہ، مقامِ افسوس ہے۔ مُلک بائے ڈیفالٹ بنیادی وسائلِ زندگی سےمحروم ہوتا،عوام النّاس تقدیر میں نامُرادی و محرومی لکھوالائے ہوتے، تو شاید صبر و قرار آبھی جاتا، یہاں تو دُکھ اس بات کا ہے کہ دنیا کے بے شمار ممالک سے کہیں زیادہ وسائل رکھنے کے باوجود، ہم محض اپنی، خصوصاً حُکم ران طبقے، اشرافیہ کی کارستانیوں کے سبب (عوام کی جہالت و فرسودگی، ہڈحرامی اور خواص کی عیاشیوں کی بدولت) مسلسل رُوبہ زوال ہیں۔ پستی کے گڑھے میں گرتے، دلدل میں دھنستے ہی چلے جارہےہیں۔ یوں توگریبانوں میں جھانک دیکھنے کو ’’بڑا کچھ‘‘ ہے، لیکن سرِدست صرف بجلی کے بھاری بھرکم بِلز کے تناظر میں (اِس وقت پاکستانی قوم کے دو ہی بڑے مسائل ہیں۔
ایک بجلی کے ہوش رُبا بلز اور دوسرا دانش ورِ اعظم، خلیل الرحمٰن قمر کا نام نہاد ہنی ٹریپ) آئی پی پیز معاہدوں ہی پر نظر ڈال لی جائے، تو اندازہ ہوجائے گا کہ بحیثیتِ قوم ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جب کہ اخلاقی معیارات کی جانچ کے لیے موخر الذکر،المعروف ’’دو ٹکے کی عورت‘‘ اور کچھ دیگر ’’اکابرین‘‘ بشمول ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے والی وارث بمع اہلیہ و کُل جماعت، نیزمتعدد مُفکّرین و مدبّرینِ سوشل میڈیا کے افکارات سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
؎ ’’عشق و آزادی ہماری زیست کا سامان ہے.....عشق میری جان، آزادی مِرا ایمان ہے..... عشق پراخترلُٹا دوں اپنی ساری زندگی..... اور آزادی پر میرا عشق بھی قربان ہے۔ اور نتیجتاً ؎ ریاست ہوگی ماں کے جیسی.....ہر شہری سے پیار کرے گی۔‘‘ خواب تو ہماری آنکھوں نے بھی کچھ ایسے ہی پروئے تھے، تعبیر تو ہم نے بھی کچھ ایسی ہی چاہی تھی۔
مگر، افسوس، صدافسوس جب ’’طرزِعمل‘‘ سو فی صدبرخلاف رہا، تو پھر زخمی، گھائل ماں بھی کہاں تک ممتا نچھاور کرے۔ اُس کی بوڑھی ہڈیوں میں بھی کتنا دَم خم رہ گیا ہے۔ پھر بھی جُھریوں بَھرا دستِ شفقت رکھے ہوئے ہی ہے۔ پپڑی زدہ ہونٹوں پہ بھی یہی صدا ہے ؎ ہم وطنوں کے درد کا درماں ایسا کچھ دشوار نہیں.....نامِ وطن ہے اسمِ اعظم، خاکِ وطن اکسیر لکھو۔
وہ کیا ہے کہ ؎ رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف.....آج کچھ درد مِرے دل میں سوا ہوتا ہے۔ عموماً جشنِ آزادی کے موقعے پر، جلے دل کے پھپھولے آپ ہی آپ پُھوٹ پڑتے ہیں، حالاں کہ ہم نے رسمِ دنیا، موقعے، دستور کے عین مطابق ’’عیدِ آزادی‘‘ سے سو فی صد ہم آہنگ ایک پوری ’’بزمِ سرسبز‘‘ بھی سجا رکھی ہے۔ لیکن طبعِ حساس، قلبِ صمیم کا ستم ظریفئ حالات پر جلنا کُڑھنا بھی تو برحق ہے۔
بہرکیف، رحمان فارس کی اس دُعا کے ساتھ کہ؎ پیروں تلے یہ صحن، سَروں پر یہ چھت رہے.....یارب! ہمارے گھر میں سدا خیریت رہے .....پُرکھوں کی پگڑیوں سے بنا ہے مِرا عَلم..... تاحشر پُروقار مِری مملکت رہے.....یارب! گلِ وطن ہے عطائے محمّدی.....خوشبوئے امن اس میں پرت در پرت رہے.....فارس نبھا سکوں مَیں محبّت، وطن کے ساتھ.....تا عُمر میرے دل میں وفا کی سکت رہے۔ آپ سب کو ’’جشنِ آزادی‘‘ کی خوشیاں بہت بہت مبارک ہوں۔