• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: تحریم ملک

ملبوسات: Akkas Ladies Wear

آرائش: Sleek By Annie

کوارڈی نیشن: محمّد وسیم

عکّاسی: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ : نوید رشید

آج کل ٹیلی ویژن پر ایک اشتہار چل رہا ہے، جس میں ایک ’’چڑیل‘‘ کو سُرخ گلاب پیش کر کے کہا جاتا ہے کہ ’’آپ کے بالوں میں کتنا حَسین لگے گا، خُود دیکھ لیں‘‘ اور وہ اپنے بالوں میں لگے گلاب کو آئینے میں دیکھنے میں کچھ ایسی محو ہوتی ہے کہ اپنے ’’شکار‘‘ ہی کو بھول جاتی ہے۔ مطلب، عورت، خواہ وہ ’’چڑیل، بُھوتنی‘‘ ہی کیوں نہ ہو، اپنے حُسن کی جھوٹی تعریف پر بھی نہ صرف یقین کرلیتی ہے، خُوب کِھل اُٹھتی ہے بلکہ انتہائی مسحور و مگن بھی ہوجاتی ہے۔ خیر، اپنی تعریف تو کسی کو بھی بُری نہیں لگتی، چاہے جھوٹی ہو یا سچّی، دل سے کی گئی ہو یا محض چاپلوسی ہی ہو اور اِس میں مرد و عورت کی کچھ خاص تخصیص بھی نہیں۔ 

ہاں، یہ ضرور ہے کہ خواتین اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی نادان، بے وقوف ہیں، سچ و جُھوٹ میں بالکل تمیز نہیں کر پاتیں (یا شاید کرنا ہی نہیں چاہتیں، کیوں کہ ہر انسان کو کم از کم اپنی خُوبیوں، خامیوں کا تو پتا ہوتا ہی ہے)۔ گرچہ مَردوں کو بھی اپنی تعریف و توصیف دلی خوشی دیتی ہے۔ اُنہیں بھی بعض اوقات کسی کا کہا ایک جملہ دِنوں مسرور و مسحور رکھتا ہے، خصوصاً اگر وہ کسی پسندیدہ یا کسی ایسی شخصیت کی طرف سے ہو، جسے وہ آئیڈلائز کرتے ہوں، لیکن وہ عمومی طورپربہرحال خواتین کی نسبت خاصے حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ یوں بھی ایک تحقیق کے مطابق خواتین کے مقابلے میں مَردوں کے دماغ کا سائز 8 سے 13 فی صد بڑا ہوتا ہے اور اِس ضمن میں بنیادی فرق جذبات کنٹرول کرنے والے نظام کا ہے۔ حالاں کہ اگر بات خُود پسندی، خُود ستائی و خُود پرستی کی انتہا (نرگسیت) کی ہو، تو یونانی دیومالائی کہانیوں میں، وہ ایک مرد، ’’شہزادہ نارسس‘‘ سے منسوب ہے۔

یہاں ’’حُسن و خوبی‘‘ ہی کےموضوع پر، مغرب کی چند معروف اور اپنے وقت کی حسین ترین خواتین سلیبرٹیز کے کچھ اقوال نقل کرنا بھی ہرگز بے محل نہ ہوگا۔ جیسے صوفیہ لورین (معروف اطالوی اداکارہ) نے کہا تھا کہ ’’عورت کو دنیا میں کوئی چیز، اِس اعتماد و یقین سے زیادہ خُوب صُورت نہیں بنا سکتی کہ وہ واقعتاً خُوب صُورت ہے۔‘‘ سلمیٰ ہائیک (میکسیکن امریکی اداکارہ، فلم پروڈیوسر) کا کہنا ہے کہ ’’لوگ کہتے ہیں، حُسن دیکھنے والی آنکھ میں ہوتا ہے، اور اِس سے زیادہ خُوب صُورت بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ دیکھنے والی آنکھ ہم ہیں۔ یہ آنکھ ہمیں طاقت دیتی ہے کہ ہم حُسن کو وہاں وہاں تلاش کریں، جہاں کسی اور کی رسائی بھی ممکن نہیں، حتیٰ کہ یہ ہمارے مَن اندر بھی ہوسکتا ہے۔‘‘

مارلن منرو (امریکی ماڈل، اداکارہ) کا ماننا تھا کہ ’’کاملیت، خُوب صُورتی نہیں، بلکہ پاگل پَن میں زیادہ ذہانت ہے۔ میرے خیال میں تو بورنگ ہونے سے مضحکہ خیز ہونا کہیں بہتر ہے۔‘‘ ازابیلا روزولینی (اطالوی نژاد امریکی اداکارہ، ماڈل) کا قول ہے کہ ’’اپنے آپ کو تلاش کرنا زندگی نہیں، خُود کو تخلیق و تعمیر کرنا زندگی ہے اورمیری زندگی کا مقصد دنیا کی سب سے خُوب صُورت عورت بننا ہرگز نہیں۔‘‘بروک شیلڈ (11سال کی عُمر سے اداکاری کا آغاز کرنے والی امریکی اداکارہ) کہتی ہیں کہ ’’خُوب صُورتی درحقیقت ایک بوجھ، ایک ذمّے داری بھی ہے، لیکن کبھی کسی دوسرے کو اپنی چمک دمک، اپنا نُور، روشنی ماند یا مدھم کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔‘‘ 

اِسی طرح جینیفرلوپیز(امریکی اداکارہ، گلوکارہ، بزنس وومین) کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ خُود سے محبّت نہیں کرتے، تو آپ دنیا میں کسی سے محبّت نہیں کرسکتے، لیکن بطور خواتین ہم اکثر یہ بات بھول جاتی ہیں۔‘‘ جب کہ ڈیمی مور (امریکی اداکارہ) کا خیال ہے ’’اپنی صحیح عُمر کے مطابق حَسین و دل کش نظر آنا ہی اصل خُوبی ہے، نہ کہ خُود سے چھوٹی عُمر کا نظر آنے کے لیے سر توڑ کوشش کی جائے۔‘‘ پھر بیونسے (امریکی گلوکارہ، گیت نگار، بزنس وومین) کا بھی ایک معروف قول ہے کہ ’’اُس عورت سے زیادہ حسین کوئی نہیں ہوسکتا، جو اپنا خیال رکھنا جانتی ہے۔‘‘ اور انجلینا جولی (امریکی اداکارہ، فلم میکر، سماجی رہنما) کہتی ہیں کہ ’’حسین نقوش، بڑھتی عُمرکےساتھ دھندلا جاتے ہیں، لیکن ایک اچھا دل آپ کو تا زندگی خُوب صُورت رکھتا ہے۔‘‘ قصّہ مختصر، ایسا نہیں کہ حسینوں کوخُوب رُوئی وخُوب صُورتی، حُسن و دل کشی کے معیارات، پیمانوں کا علم نہیں، بس، مَن کا رانجھا راضی رکھنےکو کبھی کبھی یونہی قصداً، ارادتاً بھی صرفِ نظر کر لیا جاتا ہے۔

چلیں بھئی، حُسن و جمال کے اِسی بہتے دریا کی روانی میں، اب ایک واقعتاً حسین سی نیّا (ہماری آج کی بزم) پر بھی نگاہ ڈال لیں۔ جس میں دہکتے سُرخ گلاب سی رنگت کے ایک انتہائی نفیس کام دار پہناوے نے آگ سی لگا رکھی ہے، تو ریڈ ٹیولپ یا زینیا فلاور سے ڈل ریڈ کلر کا ایک پیارا سا پرنٹڈ ڈریس بھی ہے۔ اِسی طرح مارننگ گلوری، آئرس کے رنگوں سے ہم آہنگ پھول دار میچنگ سیپریٹس کا جلوہ ہے، تو بلیو ڈیزی، بیل فلاور کی ہم آمیزی میں ٹرکوائز رنگ میچنگ سیپریٹس کا بھی ایک انداز ہے۔ نیز، گلابی گلاب، بیلاڈونا للی، چیری بلاسم، بوگن ویلا اور کنول کے رنگوں سے مشابہ دو اور حسین پرنٹڈ ڈریسز بھی ہیں۔سچ کہیں، تو آج تو ہمارے رنگ و انداز کچھ ایسے ہیں کہ کوئی’’چڑیل‘‘ بھی اپنا کے گلاب سی کِھل اُٹھے، جب کہ ہماری بزم کی مہمان تو چشمِ بد دُور خُود ’’شاخِ گلاب‘‘ سی ہے۔ 

وہ کیا ہے کہ ؎ وہ ہنستی آنکھیں، حسیں تبسّم، دمکتا چہرہ کتاب جیسا… دراز قامت ہے، سرو آسا ہے، رنگ کِھلتے گلاب جیسا… وہ دھیمے لہجے کے زیر و بم میں پھوار جیسی حسین رِم جِھم… ہے گفتگو میں بہم تسلسل رواں رواں سا چناب جیسا… کچھ اُس کے عارض کی دل فریبی، کچھ اُس کے ہونٹوں کا رنگ دل کش… وہ سر سےپا ہےغزل کا لہجہ، نیا نیا سا شباب جیسا… کبھی وہ تصویر بن کے دیکھے، کبھی وہ تحریر بن کے بولے… وہ پَل میں گم صُم، وہ پَل میں حیراں، کسی مصوّر کے خواب جیسا… فرشتہ صُورت، دُعا کا سایہ، وہ رُوپ انساں کا دھار آیا… ہے اُس سے دوری عذاب مجھ کو، ہے اُس کا ملنا ثواب جیسا… پلٹ کے دیکھے تو وقت ٹھہرے، وہ چل پڑے تو زمانہ حیراں… وہ رشکِ امبر، وہ ماہِ کامل، وہ کہکشاں، وہ شہاب جیسا… کبھی وہ شعر و سخن کا شیدا، کبھی وہ تحقیق کا دوانہ… وہ میری غزلوں کا حُسنِ مطلع، مِرے مقالے کے باب جیسا۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید