• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف نے اگلے تین سال میں برآمدات 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں نیشنل ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے متعلقہ حکام کو برآمد کنندگان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ خود ہر ڈیڑھ ماہ بعد اس بورڈ کے اجلاس کی صدارت کیا کریں گے۔ اس موقع پر انہوں نے وزارت تجارت کو برآمدات کی استعداد رکھنے والے شعبوں کے نمائندوں سے مل کر برآمدات میں اضافے کیلئے تجاویز کو حتمی شکل دینے کے علاوہ زرعی برآمدات میں اضافے کیلئے وزارت فوڈ سکیورٹی کو صوبوں کے ساتھ مل کر سروسز کی بہتری کے لیے کام کرنے کی بھی ہدایت کی تاکہ معیاری بیج اور زرعی اجناس کی مزید پراسیسنگ کرکے ان کی برآمد یقینی بنائی جا سکے۔ اسی طرح زرعی اجناس کی زیادہ پیداوار والی اقسام کو متعارف کروانے کے لیے بھی اقدامات تیز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

وزیر اعظم نے صنعتوں کیلئے بجلی کی لاگت کو کم کرنے اور نجی شعبے کے مسائل کے حل کیلئے انہیں پالیسی کی تشکیل کے عمل کا حصہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ برآمدات بڑھانے کیلئے وزیر اعظم کا عزم اور سنجیدگی اپنی جگہ قابل تحسین ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس میٹنگ کو تقریباً دو ڈھائی ہفتے گزرنے کے باوجود تادم تحریر کوئی عملی اقدامات ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے نہ تو متعلقہ حکومتی محکموں کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز یا ایکسپورٹرز کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا جا سکا ہے اور نہ ہی انہیں درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی عملی اقدامات شروع ہو سکے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی مجموعی برآمدات اگرچہ 32 ارب ڈالر رہیں لیکن رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں جس طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کو سہولت دینے کی بجائے ریونیو بڑھانے کیلئے اس پر مزید ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اس سے یہ انڈسٹری پہلے ہی مایوسی کا شکار ہے اور ایکسپورٹ انڈسٹری کی مختلف نمائندہ تنظیمیں برآمدات بڑھانے کے حوالے سے حکومت کے عدم تعاون کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسے میں حکومت کا برآمدات بڑھانے کا دعویٰ زبانی جمع خرچ سے زیادہ نظر نہیں آتا ہے۔ اسی طرح کا ایک دعویٰ نگران حکومت کے دور میں بھی کیا گیا تھا اور برآمدات کو سو ارب ڈالر تک لے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں ماضی میں بھی ہر حکومت یہی نعرہ لگاتی آئی ہے کہ برآمدات میں اضافے کو یقینی بنایا جائے گا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔ برآمدات میں اضافے کے حوالے سے حکومتی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی برآمدات میں 60فیصد سے زیادہ شیئر کے حامل ٹیکسٹائل سیکٹر کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

یہ حالات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں کہنے کی حد تک ہر حکومت برآمدات میں اضافے کیلئے برآمدی صنعتوں کو درپیش مسائل حل کرنے کا نعرہ لگاتی ہے لیکن عملی طور پر ہماری صورتحال یہ ہے کہ اگر برآمدی صنعتوں میں سے کوئی شعبہ ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو درپیش مسائل اسے دو قدم پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ اس وقت ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں سب سے زیادہ شیئر کے حامل نٹ وئیر سیکٹر کیلئے پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے کام جاری رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ اس کی بڑی وجہ مارک اپ ریٹ اور انرجی ٹیرف ہے جس کی وجہ سے ناصرف پیداواری لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے بلکہ پاکستان کی برآمدکنندگان کی عالمی مارکیٹ میں مسابقت کی صلاحیت بھی کم ہوئی ہے۔ اگر حکومت برآمدات بڑھانے میں مخلص ہے تو بینکوں کے مارک اپ ریٹ کو سنگل دیجٹ پر لانے کے علاوہ ویلیو ایڈڈ سیکٹر کو ترجیحی بنیادوں پر شمسی توانائی پر منتقل ہونے کیلئے مالی تعاون فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف مستقل بنیادوں پر انڈسٹری کو درپیش توانائی بحران کا خاتمہ کیا جا سکے گا بلکہ ماحول دوست توانائی کے فروغ سے کاربن کے اخراج میں بھی کمی آئے گی۔ اسی طرح برآمد کنندگان کے طویل عرصے سے واجب الادا ریفنڈز فوری جاری کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ برآمدات بڑھانے کی راہ میں حائل سرمائے کی قلت کا مسئلہ حل ہو سکے۔ اس سلسلے میں زیرو ریٹنگ رجیم بحال کر کے ایکسپورٹ سیکٹر کے لیے سیلز ٹیکس کے نظام کو مقامی کاروبار سے مکمل طور پر الگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریفنڈ کلیم فائل کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر برآمد کنندگان کو سیلز ٹیکس کی واپسی یقینی بنائی جا سکے۔نٹ وئیر کا شعبہ برآمدات میں تسلسل سے اضافہ کرکے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے اور روزگار کی فراہمی میں اپنی حیثیت منوا چکا ہے۔ اسے طویل المدت پالیسی اقدامات کے ذریعے مزید تعاون مہیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو نٹ ویئر سیکٹر کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی مالی معاونت کے لیے خصوصی کوٹہ مختص کر کے قرضوں کے اجرا کی سہولت آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ مستحکم بنیادوں پر صنعتی ترقی کیلئے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی سرپرستی انتہائی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ برآمدی آرڈرز کے حصول اور پیداواری لاگت کو خطے کے دیگر ممالک کے مساوی رکھنے کیلئے برآمدی صنعتوں کے لیے توانائی کے نرخوں کو مسابقتی علاقائی ممالک میں رائج ٹیرف کے برابر یا اس سے نیچے لانا بھی انتہائی ضروری ہے۔

تازہ ترین