• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کراچی آرٹس کونسل کے زیر اہتمام چار روزہ 17ویں عالمی اردو کانفرنس جمعرات سے شروع ہوگی

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ افتخار عارف اور انور مقصود نے اردو زبان کےلیے بہت کام کیا، مودی سرکار نفرتوں کی ایجنٹ ہے، بھارت اور پاکستان کے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ہم ایک ریاست کے طور پر اپنا وجود قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ 

انھوں نے ان خیالات کا اظہار کراچی آرٹس کونسل کے زیر اہتمام چار روزہ ”سترھویں عالمی اردو کانفرنس 2024 ۔ جشن کراچی“ کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

حسینہ معین ہال میں  منعقدہ پریس کانفرنس میں معروف دانشور و مزاح نگار انور مقصود، معروف شاعر افتخار عارف، نورالہدیٰ شاہ اور اعجاز فاروقی بھی موجود تھے۔ 

اس موقع پر بریفنگ دیتے احمد شاہ نے کہا کہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس میں اس سال ”جشن کراچی“ منا یا جارہا ہے، عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کا آغاز 5 دسمبر 2024 کو وائی ایم سی اے گراﺅنڈ میں کیا جائے گا جو 8 دسمبر تک جاری رہے گی۔

انھوں نے کہا کانفرنس میں 60 سے زائد سیشن رکھے گئے ہیں جبکہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر کیک بھی کاٹا جائے گا۔ 

محمد احمد شاہ نے کہا کہ افتخار عارف اور انور مقصود نے اردو زبان کےلیے بہت کام کیا، مودی سرکار نفرتوں کی ایجنٹ ہے، ہندوستان اور پاکستان کے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ہم ایک ریاست کے طور پر اپنا وجود قائم رکھنا چاہتے ہیں، میں صبر کرلوں گا اور میڈیا کے ذریعے جاوید صدیقی اور گلزار صاحب سے بات کروں گا۔

انھوں نے کہا ہم نے ہندوستان سے بھی ادیبوں کو مدعو کیا ہے، ہر چیز کے مثبت اور منفی اثرات ہوتے ہیں اسی طرح عالمی اردو کانفرنس کے بعد دوسرے فیسٹیول اور کانفرنسز ہونا شروع ہوگئیں، تین سو سال سے لاہور اردو کا مرکز رہا لیکن اس شہر میں بسنے والے لوگوں کی یہ زبان مادری نہیں تھی۔

پنجاب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ اردو کےلیے انہوں نے جتنا کام کیا کسی نے نہیں کیا، ہمیں تمام زبانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، ہندوستانی جس کو ہندی کہتے ہیں وہ ہندی نہیں اردو ہے۔ اردو زبان پوری دنیا میں لٹریچر کے ذریعے تو پہنچی لیکن اسے گانے والوں نے بہت مقبول کیا۔

انھوں نے کہا مہدی حسن نے اردو غزل کو اس مقام پر پہنچایا، اقبال بانو اور فریدہ بانو سے پہلے لوگوں کو غالب کی غزلوں کا پتہ لی نہیں تھا کہ یہ گائی بھی جاسکتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہماری نئی نسل اپنی زبانوں اور تہذیبوں سے دور ہوتی جا رہی تھی کیونکہ اردو سرکاری زبان نہیں نوکری صرف انگریزی بولنے اور لکھنے والے کو ملتی ہے، کوئی بھی زبان خالی زبان نہیں ہوتی اس کے پیچھے اس کی تہذیب ہوتی ہے۔

عالمی اردو کانفرنس ہماری قومی ثقافتی کانفرنس ہے، ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی وجہ سے تمام زبانوں کے لوگوں کو سازش کے تحت تقسیم کیا گیا، ہم نے تمام زبانوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا ہے، جو تہذیب کا دشمن ہے وہ ملک کا دشمن ہے، جب عالمی اردو کانفرنس کا آغاز کیا تو افتخار عارف کی صدارت میں مشاعرہ ہو رہا تھا اور باہر چالیس لاشیں پڑی تھی۔

اس وقت ہم نے لائٹیں بند کرکے مشاعرہ جاری رکھا، اس وقت کوئی سیکیورٹی نہیں تھی، پاکستان کے شہر کراچی کو جہاں خراب کہا جا رہا تھا وہیں ہم نے ورلڈ کلچر فیسٹیول کراچی کی اختتامی تقریب میں 30 ہزار عوام کو ایک جگہ اکٹھا کرکے آنے والے تمام ممالک کے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔

انہوں نے کہاکہ ہم ابھی 50 یا 60 کی دہائی تک نہیں پہنچے مگر نفرتوں پر کافی حد تک قابو پایا ہے، اس وقت شہر میں 55 سے 60 سنیما ہوا کرتے تھے، اب کروڑوں عوام ہیں اور سنیما کم، کتابوں کی دکانیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو بزرگ دنیا سے چلے گئے، مشتاق یوسفی، اسلم فرخی، جالب صاحب ہم نے سب کی جوتیاں سیدھی کی ہیں اور اب بھی کرتے ہیں، تہذیبی تسلسل کو جاری رکھنے کےلیے یہ اردو کانفرنس ہو رہی ہے۔ کانفرنس میں کراچی کی تاریخ، اس کے مصور، موسیقار، گلوکار، ادب، نظم و غزل گو شعرا، نقاد، فکشن رائٹر، چائے خانے، باغات، سنیما سمیت کئی اہم شخصیات اور تاریخی مقامات پر گفتگو کی جائے گی۔

احمد شاہ نے کہاکہ دس ہزار سے زیادہ نوجوانوں نے کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنی رجسٹریشن کو یقینی بنا یا ہے، میڈیا کا شکر گزار ہوں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستانی ادب پھیل رہا ہے۔

معروف مزاح نگار انور مقصود نے کہاکہ اردو زبان لشکری زبان ہے، اس بار کانفرنس میں بہت سے فنکاروں کو مدعو کیا گیا ہے۔ فنکاروں کو مدعو کرنے کا مقصد ہے کہ اردو کانفرنس سے کچھ سیکھیں اور تلفظ ٹھیک کریں، احمد شاہ چھ مہینے سے ٹھیک سے سوئے نہیں، کامیاب پروگرامز کا انعقاد صرف احمد شاہ کرسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا روز آرٹس کونسل میں کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے، ورلڈ کلچر فیسٹیول کی کامیابی کے بعد عوامی تھیٹر فیسٹیول اور اب عالمی اردو کانفرنس بھی کامیابی سے منعقد ہو گی، کانفرنس میں دو مشاعرے ہیں، ملکی حالات جیسے بھی ہوں کانفرنس کامیاب ہو گی، جو لوگ کانفرنس کے انعقاد پر سوال اٹھاتے ہیں وہ دراصل حسد کا شکار ہیں، انہیں حسد ہے کہ اس عمارت میں ہر پروگرام کامیاب کیسے ہو جاتا ہے۔ 

معروف شاعر افتخار عارف نے کہاکہ مجھے دنیا کے مختلف ملکوں میں رہنے کا اتفاق ہوا پوری دنیا میں ادیبوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، ہر کوئی پیسہ کمانے میں لگانے ہوا ہے، ایسے میں فنون لطیفہ کو معتبر بنانا بہت مشکل کام ہے اور احمد شاہ یہ کام کر رہے ہیں، اگر آدمی کو تہذیبی بنانا ہے تو آپ کو فن کی طرف آنا پڑے گا، دنیا میں کوئی ایسا اداراہ نہیں کہ جہاں فنون پر اتنے بڑے پیمانے پر کا م ہوتا ہو، میں شروع دن سے آرٹس کونسل کا کام دیکھتا آ رہا ہوں۔

انھوں نے کہا یہ شہر اپنی منفی رحجانات کی وجہ سے مشہور تھا، ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ تضاد ہوتا ہے، یہ اردو عالمی کانفرنس ہے، اس میں تمام بڑے لوگوں کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیے جاتے ہیں، ہمارے ملک میں 76 زبانیں بولی جاتی ہیں، جو انسان اپنی مادری زبان سے محبت کرتا ہو وہ کیسے کسی کی مادری زبان سے نفرت کر سکتا ہے۔

آرٹس کونسل کراچی کی جوائنٹ سیکرٹری اور مصنفہ نور الہٰدی شاہ نے کہا کہ احمد شاہ تسلسل سے اردو کانفرنس کراتے آ رہے ہیں جو کہ قابل ستائش اقدام ہے۔

سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے پہلے روز افتتاحی اجلاس کے بعد ”میں ہوں کراچی۔انور مقصود“ پر سیشن ہوگا جس میں تابش ہاشمی اور وسیم بادامی بھی شامل ہوں گے۔ 

دوسرے روز کا آغاز اردو نظم میں کراچی کا حصہ سے کیا جائے گا جس کے بعد تقدیسی ادب کے روشن چراغ، دنیا بدلتی خواتین، کتابوں کی رونمائی، کے ایم سی 1843سے 2024ء تک، بچوں کا ادب، عارفہ سیدہ زہرا کے ساتھ، سرائیکی ثقافت و ادب، Governance for People`s Empowerment، نئی نسل کی نمائندہ آوازیں۔عمیر نجمی۔عمران عامی، جاوید صدیقی کے خاکوں کا مجموعہ ”میرے محترم“، پاکستانی میڈیا، بین الاقوامی میڈیا کے تناظر میں، کراچی: کل اور آج، پختون ثقافت و ادب، میں ہوں کراچی ۔عاصم اظہر، ہمایوں سعید، ماہرہ خان اور عالمی مشاعرہ ہوگا۔ 

تیسرے روز اسلوبِ غزل، اردو تنقید، یارک شائر ادبی فورم، آبادی کی ناقص منصوبہ بندی، پاکستان کے لیے خطرہ، جاپان: اردو کی زرخیز سرزمین، یادِ رفتگاں، ماحولیات اور گلوبل وارمنگ، اردو کی نئی بستیاں، بلوچی ثقافت و ادب، پاکستان اور ترکیہ کے ثقافتی و تجارتی رشتے، کراچی کے نامور مصور، وہ کہیں اور سنا کرے کوئی، پنجابی ادب و ثقافت، میں ہوں کراچی۔لیجنڈ ندیم بیگ، منور سعید، مصطفیٰ قریشی کے ساتھ، مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات، عرض کیا ہے۔ 

یوسف بشیر قریشی، تھیٹر، ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی کہانی، پاکستان میں میڈیا کی تاریخ، تقریب رونمائی دستانِ لکھنؤ اور دبستانِ لکھنؤ، سلمان گیلانی کے ساتھ، میں ہوں کراچی۔ لیونگ لیجنڈ شاہد آفریدی پر سیشن اور اختتام عالمی مشاعرے پر ہوگا۔

کانفرنس کے آخری روز اردو فکشن، ترقی پسند تحریک اور کراچی، ولایتی بیٹھک، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی دوستی، اردو فارسی کے رنگ، معیشت کی شہ رگ: کراچی، کراچی کے مزاح نگار: پڑھنت نصرت علی، نذر الحسن، Artificial Intelligence & Digital Humanities، تعلیم کی صورتحال، سندھی زبان و ادب، نئی نسل کی نمائندہ آوازیں۔ علی زریون۔ فریحہ نقوی، شہر نامہ، ہم ادب کا نوبل انعام جیت سکتے ہیں، میں ہوں کراچی میں بشریٰ انصاری، فہد مصطفیٰ کے ساتھ سیشن کے بعد اختتامی اجلاس ہوگا، آخر میں قوالی ہوگی جس میں فرید ایاز اور ابو محمد قوال پرفارم کریں گے۔

انٹرٹینمنٹ سے مزید
خاص رپورٹ سے مزید