(گزشتہ سے پیوستہ)
کرشن نگر سے کبھی بس نمبر 2چلا کرتی تھی یہ کرشن نگرکے آخری بس اسٹاپ سے لاہور ریلوے اسٹیشن تک جایا کرتی تھی۔لاہور کا مرکزی ریلوے اسٹیشن گڑھی شاہو اور برانڈرتھ روڈ کے قریب ہے جبکہ ضلع لاہور میں اس کے علاوہ 15ریلوے اسٹیشن ہیں جس کا آج کی نسل کیا بلکہ بے شمار لاہوریوں کو بھی علم نہیں۔کسی آئندہ کالم میں ان 15ریلوے اسٹیشنوں کے نام اور بڑی دلچسپ تاریخ بیان کریں گے۔ یعنی کل پندرہ ریلوے اسٹیشن ہیں اس کے علاوہ ایک /دو فلیگ ریلوے اسٹیشن بھی ہیں فلیگ ریلوے اسٹیشنوں پر ریل گاڑی رکتی نہیں صرف اسٹیشن ماسٹر فلیگ دکھا کر اس کو جانے دیتا ہے۔ہاں اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو ریل گاڑی کو فلیگ اسٹیشن پر روکا بھی جاسکتا ہے۔
بات کرشن نگر کی ہو رہی تھی کرشن نگر سے 60نمبر ویگن بھی چلا کرتی تھی ویگن کلچر نے لاہور کےتانگہ کلچر کو بہت متاثر کیا تھا اصل میں لاہور سے تانگوں کو ختم کرنے میں ویگن کلچر کا بہت کردار ہے۔ ویگن کلچر نےلاہور کے روایتی تانگہ کلچر کو بہت خراب کیااب تو چنگ چی آ گئے ہیں ان موٹر سائیکل رکشا ئوںنے تو پورا لاہور ہی برباد کر ڈالا ہے اس وقت سب سے زیادہ حادثات کی وجہ بھی یہ چنگ چی رکشا بن رہے ہیں انتہائی غیر محفوظ سواری ہے اور سب سے زیادہ ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں۔
کرشن نگر کے بدمعاش بائو وارث نے ایک سابق گورنر کے کہنے پر بھٹو دور کے ایک وفاقی وزیر کو اسٹیج پر جا کر تھپڑ مارا تھا پھر بائو وارث کو گرفتار کرکے دلائی کیمپ بھیج دیا گیا تھا یہ حکم بھٹو نے دیا تھا، اس زمانے میں پہلی مرتبہ دلائی کیمپ کا نام سنا گیا تھا غالباً بھاٹی گیٹ کے افتخار احمد تاری کو بھی اور دیگر کئی سیاسی قیدیوں کو وہاں بھیجا گیا تھا۔ افتخار احمد تاری مرحوم بھاٹی گیٹ کی ایک مشہور سیاسی شخصیت تھی اور کسی زمانے میں وہ ایک سیاسی پارٹی کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ کرشن نگر میں گورنمنٹ کالج لاہور اور ایم اے او کالج لاہور کے کئی اساتذہ رہائش پذیر رہے۔ کبھی لوگ اس علاقے کے قدیم مکانات کو دیکھنے کے لئے سیر کے طور پر آیا کرتے تھے اب کرشن نگر میں کوئی رات کے بارہ بجے بھی جانے کا نہیں سوچ سکتا۔ اس لاہور شہر کا سارا کلچر پچھلے پچیس /تیس برسوں میں بالکل تبدیل ہو چکا ہے اب پوری پوری رات لوگ سڑکوں پر رہتے ہیں۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اندرون شہر جس کے باسی رات نو/دس بجے سو جاتے تھے تاکہ صبح فجر کی نماز باجماعت پڑھ سکیں اب یہاں پر رات کے دس /گیارہ بجے ناشتہ اور کھانے کی دکانیں سج جاتی ہیں جو صبح تک کھلی رہتی ہیں لاہوریوں کی صحت خراب کرنے میں ان تمام رنگ برنگے چنے، سری پائے اور حلوہ پوری رات کو فروخت کرنے والوں کا بڑا کردار ہے اور اس کا اندازہ ان لاہوریوں کو بالکل نہیں ہو رہا۔ جس شہر کے اور ملک کے لوگ اپنی دکانیں اور کاروبار صبح بارہ بجے شروع کریں گے انہوں نے کیا ترقی کرنی ہے؟
کرشن نگر کے قدیم رہائشی بائو حامد کی بیٹی فائکہ (سونیا) جن کو کرشن نگر اتنا پسند ہے کہ آج بھی 1932ء کے مکان میں رہائش پذیر ہیں انہیں اپنے آبائی مکان سے بہت پیار اور لگائو ہے اور اس مکان کی مرمت بھی اس کے اصل تعمیراتی حسن کو برقرار رکھتے ہوئے کراتی ہیں۔ ان کا یہ مکان تین بھائی گوپال برادرز کا تھا جو لاہور میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے جس طرح ہم نے عرض کیا ہے کہ کرشن نگر میں 1947ء سے قبل ہندو رہتے تھے جو اندرون لاہور کے 14دروازوں سے آئے تھے اس زمانے میں لاہور کی دو پوش بستیاں تھیں ایک کرشن نگر اور دوسری ماڈل ٹائون، فائکہ کے بقول اسے اس مکان سے اپنے بڑوں کی خوشبو آتی ہے ان کی دادی اس مکان میں آئی تھیں ۔
مجھے دیوار و در سے آتی ہے اجداد کی خوشبو
مگر بچوں کو شکوہ ہے ، ہمارا گھر پرانا ہے
کرشن نگرکے تمام قدیم مکانات میں لوہے / لکڑی کے بڑے بڑے گارڈر ہیں اور دروازوں میں دیار کی لکڑی استعمال ہوئی ہے یہاں تقریباً ہر گھر کے اوپر ہندوئوں نے کچھ نہ کچھ لکھوایا ہوا تھاجو اب مسلمانوں نے اتار دیا ہے اور بعض مکانات پر قرآنی آیات اللہ پاک اور نبی پاکﷺ کے اسم مبارک لکھوا لئے ہیں۔ ہندوئوں نے کس خوبصورت پلاننگ سے یہاں گھر بنائے تھے کہ کسی بھی گلی میں اور نالی میں پانی نہیں ٹھہرتا تھا اور یہ سارا گندا پانی بہتا ہوا آخری بس اسٹاپ پر جاتا تھا پھر جہاں سے دریائے راوی یا پھر کسی ڈسپوزل اسٹیشن جو کہ آئوٹ فال روڈ کے پاس تھا چلا جاتا تھا۔
اس مرتبہ ہم لاہور کے مختلف دروازوں سے ہوتے ہوئے بادامی باغ جا پہنچے بادامی باغ جو کبھی پرسکون اور صاف ستھرا علاقہ تھا آج لاریوں، بسوں، چنگ چی رکشوں، موٹر سائیکلوں کا ایک شور آلود علاقہ بن چکا ہے۔ دھواں اور فضائی آلودگی اس قدر ہے کہ سانس لینا محال ہے۔ بادامی باغ جس کو کبھی کمپنی باغ بھی کہا جاتا تھا ویسے کبھی گول باغ کو اس نام سے پکارا گیا ہے۔ اس میں آج بھی ایک کمپنی باغ ہے لاہور کے شیرانوالہ، مستی، یکی دروازہ اور قلعہ سے باہر آتے ہوئے سب سے پہلے یہ باغ ہی ہوتا تھا تب یہاں پر صرف ایک کچی سڑک تھی بعد میں لاری اڈہ اور سبزی منڈی بننے کے بعد اس علاقے میں رش بڑھ گیا تھا۔ گوروں کو بادامی باغ بہت پسند تھا اور گوروں کے دور اور سکھوں کے دور میں اس تاریخی باغ میں کئی تقریبات بھی ہوتی تھیں پھر یہاں بادامی باغ ریلوے اسٹیشن بھی ہے جو اب خستہ حال اور برے حالات میں ہے اس ریلوے اسٹیشن پر پھر کبھی بات کریں گے یہ وہ تاریخی ریلوے اسٹیشن ہے جہاں سے 1860ء میں پہلی مرتبہ ریل گاڑی امرتسر کے ریلوے اسٹیشن پر گئی تھی پھر1880ء میں اسی ریلوے اسٹیشن سے وزیر آباد تک ریلوے لائن بچھائی گئی تھی چنانچہ بادامی باغ کی بہت ساری زمین اس تاریخی اسٹیشن کی نذر ہو گئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کا کوئی ایسا بورڈ، کوئی ہسٹری اس قدیم ریلوے اسٹیشن کے بارے میں نہیں اس کی عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے کبھی بادامی باغ میں بادام، جامن، نارنگی، امرود، ناشپاتی، چکوترہ، آم، آڑوکے پودے اور درخت ہوا کرتے تھے۔(جاری ہے)