• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

خواب دیکھنے پر پابندی؟

اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ایک بار پھر مُلکی سرحدوں کےقریب ہونے والی سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا۔ اللہ کرے، ہمارے حُکم رانوں کی بھی آنکھیں کچھ کُھل جائیں، کراچی کی بندرگاہ کو محفوظ کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ منور مرزا کا بہت شکریہ کہ وہ ہر ایشو پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ یہودی ریاست کے قیام کا‘‘ کی آخری قسط بہت ہی شان دار تھی۔ گویا یہ تمام قسطوں کا نچوڑ تھی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں فیضان شفیق جمالی پاکستان کی موروثی سیاست کی کتھا سُنا رہے تھے۔ اسرار ایوبی قومی صنعتی کمیشن کے قواعد و ضوابط پر معلوماتی تحریر لائے۔ 

’’پیارا وطن‘‘ میں محمّد سعید بلوچ نے زنگی ناوڑ کا ذکر کیا۔ بلاشبہ، اگر حکومت سیاحت ہی پر کچھ توجّہ مرکوزکرلے، تو مُلکی حالات میں خاصا سدھار آسکتا ہے۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل شکوہ کُناں تھے کہ اقبال کی فکری شاعری کو درست طور پر نصاب کا حصّہ نہیں بنایا گیا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں انجینئر محمد پرویز آرائیں ہم کو امریکا کی سیر پر لےگئے۔ اور سچی بات ہے، امریکا کی سیر ہم بذریعہ میگزین ہی کر سکتے ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سلمیٰ اعوان کے افسانے کا جواب نہ تھا۔ 

واقعی، مرد کے پاس چار کا آپشن تو ہوتا ہی ہے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خادم ملک کا جگمگاتا خط دیکھ کردل خوش ہوگیا۔ اب بھئی، اُن کے خواب دیکھنے پر تو پابندی نہ لگائیں۔ اگلے جریدے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت پراظہارِخیال فرما رہے تھے۔ اُنہوں نے اُن کی شہادت سے ایران اور خطے پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ریچھ اور کتے کی لڑائی کو مرزا محمّد رمضان نے ایک گھنائونا خونی کھیل قرار دیا اور درست ہی دیا۔ اِس ظالمانہ کھیل کا فوری تدراک ہونا چاہیے۔ 

ڈاکٹر ناظر محمود نے کوہی گوٹھ وومین ڈسپینسری کا ذکر کیا، تو عمیر جمیل چاہتے ہیں کہ ہم سب مل کر ٹی سی ایف کا ساتھ دیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر بابائے اسپورٹس، عطا محمد کاکڑ سے بات چیت کر رہے تھے۔ ’’لازم و ملزوم‘‘ میں ڈاکٹر قمرعباس، ضمیر نیازی پر ایک بہترین نگارش کے ساتھ آئے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ کی دوسری قسط بھی پڑھ ڈالی۔ بھئی، اپنے یہ انجینئر صاحب تو خُوب گھوم پِھر لیے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حافظ بلال بشیر شُکر گزاری کے ثمرات بیان کررہے تھے، تو حکیم حارث نسیم سوہدروی نے گلاب کے پھول اور عرقِ گلاب کے فوائد بیان کیے۔ 

طلعت نفیس ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’سیلانی‘‘ کے عنوان سے زبردست افسانہ لائیں اور اب بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، جس میں ہمارا خط شامل نہیں تھا۔ خیر، کوئی بات نہیں، اگلے شمارے میں شامل ہوجائے گا۔ ہاں، مگر خادم ملک کا خط سیاسی لطائف سے مہک رہا تھا اور آپ کا جواب بھی کسی ادبی لطیفے سے ہرگز کم نہ تھا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: آپ کو لگتا ہے کہ خادم ملک پر کسی ’’پابندی‘‘ کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ ہم نے تو خال ہی کوئی اُن جیسا مست الست دیکھا ہے۔ وہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں اور کسی کے لاکھ سر پھوڑنے کے باوجود وہی کہتے، کرتے، لکھتے ہیں، جواُن کی چھوٹی سی سمجھ دانی میں سمایا رہتا ہے۔

یہ ڈاک کے ڈاکو…

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دوہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ جب کہ ایک شمارے میں متبرک صفحۂ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘موجود نہیں تھا۔ چابہار پورٹ کے گوادر، کراچی بندرگاہوں پر ممکنہ اثرات سے متعلق تفصیلی تجزیہ بہترین تھا۔ پاکستان میں موروثی سیاست کی 52 فی صد شرح تو بہت ہی زیادہ ہے اور جس نے اس مورثی سیاست کے خاتمے کا سوچا، اُسے بھی پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ اس بار’’پیارا وطن‘‘ میں زنگی ناوڑ سے متعلق شان دارمعلومات ملیں۔

بلاشبہ، پاکستان قدرتی خزانوں سے مالا مال مُلک ہے، مگر ہمارےحُکم ران اِن خزانوں سے فائدہ اُٹھا کرغریب عوام کے حالات ہرگز سدھارنا نہیں چاہتے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’ہم بھی چلے امریکا‘‘ کی پہلی دو اقساط شان دار رہیں۔ ’’ابراہیم رئیسی کی شہادت کے ایران اور خطّے پراثرات‘‘ بھی مدلّل تجزیہ تھا۔ کوہی گوٹھ وومین اسپتال سے متعلق، جہاں عورتوں کو نئی زندگی ملتی ہے، پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔

پانچ عشروں سے کھیلوں کے فروغ کے لیے سرگرم، عطا محمّد کاکڑ کا ’’انٹرویو‘‘ زبردست تھا۔ اِس بار ’’لازم وملزوم‘‘ میں ضمیر نیازی پرقلم آرائی کی گئی۔ ایک شمارے میں میرا خط اور دوسرے میں میرا پیغام شائع فرمانے کا شکریہ۔ اور ہاں، مَیں تو اپنا خط وقت ہی پر بھیجتا ہوں، مگر یہ ڈاک کے ڈاکو… (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: ’’یہ ڈاک کے ڈاکو‘‘ کی ترکیب اچھی استعمال کی آپ نے۔ مگر حیرت اس بات پر ہے کہ چیچو کی ملیاں سے لکھا گیا خط بھی اِس قدر تاخیر کا شکار نہیں ہوتا، جتنا کہ آپ کا، تو اِن ڈاکوؤں کا آپ ہی کے ساتھ اِس قدر’’حُسنِ سلوک‘‘ کیوں؟ یوں ہی خیال سا آرہا ہے کہ ’’ایڈا توں خلیل الرحمٰن قمر!!‘‘

درر واندوہ میں ٹہرا جو رہا…

اُمید ہے، آپ اور آپ کے ہمراہی بالکل خیریت سے ہوں گے۔ گزارش ہے کہ جریدے میں سوال وجواب کا بھی ایک سلسلہ شروع کریں، جس میں قارئین آپ سے مختلف سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ’’سہیلی، بوجھ پہیلی‘‘ جیسا سلسلہ ہو سکتا ہےاورمیرے خیال میں بہت دل چسپ ہوگا۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ آپ اکثر کہتی ہیں کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ اردو زبان کے فروغ و احیاء کے لیے شروع کیا گیا ہے، جب کہ آپ نے اپنے جریدے کا نام ہی ’’سنڈے میگزین‘‘ انگریزی زبان میں رکھا ہوا ہے، تو براہِ مہربانی اِس کا کوئی اردو نام رکھ لیں۔ ہاں، خادم ملک پر ہاتھ ذرا ہولا رکھا کریں۔ 

مجھے تو لگتا ہے کہ وہ ایک بہت ذہین شخص ہیں بس، اس جریدے کی الفت کی باعث ہر ہفتے میگزین میں خط لکھ ڈالتے ہیں۔ اُن پر تو یہ شعر صادق آتا ہے۔ ؎ دردو اندوہ میں ٹہرا جو رہا، مَیں ہی ہوں۔ (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، ڈاک خانہ باغ بان پورہ، لاہور)

ج: جریدے کے مندرجات کے ضمن میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ اس اعتبار سے سوال و جواب ہی کا صفحہ ہےکہ اِس میں ہر متعلقہ سوال کا واضح، تسلی بخش جواب دیا جاتا ہے، جب کہ ’’سہیلی، بوجھ پہیلی‘‘ جیسے کسی بھی بچگانہ سلسلے کا آغاز خصوصاً ذاتی نوعیت کے سوال و جواب کے لیے ہرگز ممکن نہیں۔ یوں بھی ہم صفحات کی کمی کے شکار ہیں،  ہمارے موجودہ سلسلے بھی باقاعدہ شیڈول نہیں ہوپا رہے۔

رہی جریدے کے نام کی بات تو اس حوالے سے پہلے بھی کئی بار تفصیلاً وضاحت کی جاچُکی ہے۔ آج مختصراً پھر بتا دیں کہ یہ نام ہمارا تجویز کردہ ہے اور نہ ہی ہمارے ادارہ جوائن کرنے کے بعد رکھا گیا۔ نیز، اِسے تبدیل کرنے کا اختیار بھی ہمارے پاس نہیں۔ بے شک، خادم ملک بہت ذہین شخص ہیں اور آپ اُن سے بھی کہیں زیادہ ذہین کہ اُن کی اونگیوں بونگیوں میں سے ذہانت و فطانت تلاشنا کم از کم ہم جیسے کسی کند ذہن کے بس کی بات تو ہرگز نہیں۔

دودھ کی راکھی بلّی…!

منور مرزا برطانیہ کے قبل از وقت انتخابات پر عمدہ تجزیے کے ساتھ آئے۔ دراصل یورپی یونین اور برطانیہ ایک ہی ترازو کےدو پلڑے ہیں۔ کبھی ہمارا مُلک بھی ایک مثالی مُلک تھا۔ غیرمُلکی کھلاڑیوں کی کوچنگ کا میدان ہو یا اجناس کی فراوانی کا معاملہ، ہم ہزاروں سے بہتر تھے۔ اللہ جانےکس کی بُری نظر لگ گئی۔ 

بے شک، وعدے کی پاس داری اور ایمان داری وہ خوبیاں ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر دین و دنیا میں سُرخ رُو ہوا جاسکتا ہے۔ علّامہ اقبال کے فلسفۂ خودی پر اچھی روشنی ڈالی گئی۔ بلوچستان کے چھے اضلاع میں خواتین ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی کا پڑھ کر دلی خوشی ہوئی کہ واقعی پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ بس حُکم رانوں نے اندھیر مچا رکھا ہے۔ 

ہر ایک قیمتی متاع درندوں، بھیٹریوں کے حوالے کردی ہے۔ مطلب،’’دودھ کی راکھی، بلّی‘‘۔ اور ہاں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ضیاء الحق قائم خانی، سیّد زاہد علی، حسن علی چوہدری، انجم مشیر، بابر سلیم، پرنس افضل شاہین وغیرہ کے خطوط خُوب صُورت تھے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

ج : آپ کے، ہمارے مُلک کو کسی کی نظر نہیں لگی۔ یہ خُود آپ کے، ہمارے، ہم سب کے اعمال کی سزا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی دوسروں کو دوش دے کر، اپنا دامن جھاڑ کے کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اپنے پیروں پر کلہاڑیاں چلانے والے ہم خُود ہی ہیں اور ہم سب ہی کو اپنا اپنا محاسبہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، نہ کہ ہمہ وقت ’’اغیار کی سازش‘‘ جیسے فرسودہ ، بوگس نظریے ہی کا ڈھول پیٹتے رہیں۔ یورپ کا ’’مردِ بیمار‘‘ تندرست و توانا ہوسکتا ہے۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والا مُلک، اپنا بدبودار، عبرت انگیز ماضی دفن کرکے، سُپر پاورز کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے، تو ہم28 کروڑ ’’مجسمے‘‘ اغیار کی سازشوں کا مقابلہ کیوں نہیں کر سکتے۔

مَیں چھوٹا سا اِک ’’پھل‘‘ ہوں…

اخلاق ہی وہ ہتھیار ہے، جس کی بدولت ہر میدان میں سُرخ رُو ہوا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں تو کبھی بھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دینا چاہیے کہ اچھے اخلاق، میٹھےبولوں سے ایک دنیا فتح کی جا سکتی ہے۔ یہ تو ہوئی پتے کی بات، جریدے کی بات کریں، تو منور مرزا اس بار’’برطانیہ میں قبل از وقت انتخابات‘‘ کو زیرِ بحث لائے۔ 

بات یہ ہے کہ آج لوگ امن و سُکون،بہتر زندگی چاہتے ہیں اور جس پارٹی کا یہ منشور ہوگا، دنیا اُسی کےساتھ کھڑی ہوگی۔ وعدےکی پاس داری،اسلامی تعلیمات کی اساس، جزوِ ایمان ہے۔ سلطان محمّد فاتح نے’’ایفائے عہد کی اہمیت‘‘ پر انتہائی شان دارمضمون تحریر کیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں محمّد علی حسنین شاعرِ مشرق، علّامہ محمّد اقبال کے فلسفۂ خودی پر رقم طراز تھے۔ ’’بلوچستان کے چھے اضلاع میں خواتین ڈپٹی کمشنرزکی تقرری‘‘ فرّخ شہزاد ملک کے کریڈٹ پر ایک شان دار تحریر کی صُورت پڑھی گئی۔ ’’اسٹائل‘‘ بزم کی قلم کار کی تحریر ہمیشہ کی طرح خُوب تھی۔

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں محّمد کاشف ’’جنگوں کے مختلف ادوار اور حربی تدابیر‘‘ کے عنوان سے شان دار معلومات فراہم کر گئے۔ کوئٹہ کے ہول ناک زلزلے کی یاد تازہ کی، ڈاکٹر نور یاسین نے۔ ساتھ ہی آگاہ بھی کیا کہ اگربچاؤ کے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو خدانخواستہ ناقابلِ تلافی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ ’’اسلامی نظامِ سیاست اور سیاسی جماعتیں‘‘ کے عنوان سے یہ باور کروایا گیا کہ مُلکی تعمیروترقی کے لیے شرعی قوانین کا نفاذ ناگزیر ہے۔ ’’ہم بھی چلے امریکا‘‘ کی آخری قسط کے ساتھ انجینئر محمّد پرویز آرائیں نےخُوب تفریح کروائی۔ 

حکیم حارث نسیم سوہدروی قربانی کے گوشت پر بات کررہے تھے کہ کم مسالا جات کے ساتھ پکایا اور بے تحاشا نہ کھایا جائے کہ پیٹ تو آخر اپنا ہے، جب کہ منیبہ مختار اعوان چکن سہانجنا کی ڈش لیےآئیں اور ڈاکٹر شاہد ایم شاہد نے فالسے کی اہمیت اجاگر کی کہ ؎ مَیں چھوٹا سا اِک ’’پھل‘‘ ہوں … پر کام کروں گا بڑے بڑے۔ جویریہ شاہ رُخ ’’ٹھنڈی چھاؤں‘‘ ہی کو خوشیوں کا راز بتا رہی تھیں، تو ذکیہ بتول ’’دوآنسو‘‘ سےخون کے آنسو رُلا گئیں۔ 

محمّد جاوید تو جب بھی ’’ آپ کا صفحہ ‘‘ میں آتے ہیں، خُوب آتے اور چھا جاتے ہیں، ساتھ ہی ضیاء الحق قائم خانی کی تُک بندی کا بھی کیا کہنا کہ آپ سے چھے بار’’واہ، واہ‘‘ کی گردان کروا لی۔ باقی خطوط بھی اپنی اپنی جگہ بہترین تھے۔ آپ اورآپ کی ٹیم جُگ جُگ جیے۔ یونہی خوشیاں، خوشبوئیں بانٹتے رہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)

ج: بعض اوقات بصد مجبوری بھی ’’آہ ‘‘ ، ’’واہ‘‘ میں بدل جاتی ہے۔ آپ کو شعر و شاعری کا اتنا ہی شوق ہے، تو کسی باقاعدہ شاعر کی شاگردی اختیار کرلیں ، کم ازکم چھوٹا سا اِک لڑکا، چھوٹے سے پھل میں تبدیل ہونے سے تو بچ جائے گا۔

                        فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر خواتین کا حق تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں الم ناک موت سے خطّے پر مرتّب ہونے والے اثرات کا بہت باریک بینی سے تجزیہ کررہے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں مرزا محمد رمضان نے کتّے اور ریچھ کی لڑائی کے ظالمانہ شوق سے حَظ اٹھانے والوں کی خُوب مذمّت کی۔ پنجاب ہی نہیں، سندھ میں بھی یہ شوق پایا جاتا ہے۔ نیز، یہاں تو مُرغوں کی لڑائی کا ظالمانہ شوق بھی موجود ہے، جس میں مُرغے شدید زخی ہوکر مر بھی جاتے ہیں، جب کہ اس کھیل میں لاکھوں کا جوا بھی کھیلا جاتا ہے۔ 

پتا نہیں، یہ ’’انسدادِ بے رحمیٔ حیوانات‘‘ کا محکمہ کس مرض کی دوا ہے کہ اِس کی کارکردگی تو صفر ہے۔ ویسے ہم نے ایسے ایک آدھ نہیں، کئی سفید ہاتھی پال رکھے ہے، تب ہی تو مُلکی معیشت ڈانواڈول ہے۔ قرض ادا کرنے کے لیے بھی بھاری سُود پر قرض لینا پڑتا ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ ہی میں ڈاکٹر ناظر محمود ’’کوہی گوٹھ وومین اسپتال‘‘ کی کارکردگی بیان کررہے تھے،جہاں 30 ہزارخواتین کا مفت علاج کیا جا چُکا ہے۔ 

پھر محمّد عمیر جمیل نے ’’دی سٹیزن فاؤنڈیشن‘‘ کی خدمات پرروشنی ڈالی، جس کے تحت دو ہزار اسکولوں میں تین لاکھ سے زائد بچّے مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر نے پانچ عشروں سے کھیلوں کے فروغ کے لیے سرگرم عطا محمد کاکڑ سے بات چیت کی۔’’سینٹر اسپریڈ‘‘ سے بھی ’’نظر بندی‘‘ کے حُکم پر آنکھ بند کرکے گزرجاتے، مگر ایڈیٹر صاحبہ کے اسکرپٹ نے روک لیا۔ اقبال کہہ گئے ہیں کہ ؎ اپنے مَن میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی اور رائٹ اَپ کے ذریعے بھی خُود سے پیار کا درس دیا گیا۔ تو بھئی، ہمیں توآج خُود پر بہت پیار آیا ویسے ’’خود سے پیار کرو‘‘ کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ لگانا آسان نہیں، یہ بڑا گہرا فلسفہ ہے۔ 

ڈاکٹر قمر عباس، بے باک، نڈر، حق گو صحافی ضمیر نیازی کی سوانحِ حیات کے نشیب و فراز سے آگاہ کر رہے تھے۔ بلاشبہ، نامساعد حالات ہی میں انسان کی صلاحیتوں کا جوہر کُھلتا ہے۔ برِعظیم میں کسی حق گوصحافی کےلیے حالات کبھی بھی ساز گار نہیں رہے۔ اخبارات کی بندش سے لے کر قید و بند کی صعوبتیں، ذہنی اذیتیں ہمیشہ سہی جاتی رہی ہیں۔ خُود ’’جنگ گروپ‘‘ نے بھی اس ضمن میں کافی مصائب و تکالیف جھیلی ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حافظ بلال بشیر شُکر گزاری کے ثمرات بیان کررہے تھے، تو شُکرگزاری کا بہترین طریقہ یہی کہ اپنے خالق و مالک کے احکامات پر پوری طرح عمل کیا جائے۔ 

فرائض و واجبات کے ساتھ سنن و نوافل بھی دل جمعی سےادا ہوں، حتیٰ کہ اُس کےحُکم پرجان بھی قربان کرنی پڑے تودریغ نہ کیا جائے۔ بقولِ غالب؎ جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی…حق تویوں ہےکہ حق ادانہ ہوا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طلعت نفیس ’’سیلانی‘‘ کے عنوان سے عُمدہ افسانہ لائیں۔ ذکی طارق کی غزل بھی اچھی تھی اورہماری بزم میں اعزازی چٹھی کی سند عروج عباس کو عطا ہوئی، جب کہ ہماری چٹھی بھی شاملِ بزم تھی۔ نیز، باقی خطوط نگاروں کی کاوشیں بھی اچھی رہیں۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج: آج کل تو آپ کی گُڈی خُوب چڑھی ہوئی ہے۔ اکثر سب نامے پڑھنے کے بعد بالآخر آپ ہی کے حق میں فیصلہ دینا پڑجاتا ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* شمارہ موصول ہوا۔ سب سے پہلے ’’پاکستانی گداگروں کے بیرونِ مُلک ڈیرے‘‘ پڑھا اورسر شرم سے جُھکتا گیا۔ سچ میں، یہاں بھی کئی بار کسی کو بتاتے شرم سی محسوس ہوتی ہے کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ اُچ شریف کے میلے کا احوال پڑھ کے دل دیکھنے کو مچل سا گیا، بچپن کی چاند راتوں کے میلے یاد آگئے۔ 

مبشرہ خالد مختلف رنگوں کی آنکھوں کے حامل افراد کی شخصیات بتا رہی تھیں، پڑھ کےحیرت ہوئی کہ آنکھوں کی رنگت کا تعلق تو انسان کے ڈی این اے سے ہوتا ہے، بھلا اِن سے کسی کی شخصیت کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ میں اِس بار فیشن ڈیزائنرز کا زیادہ ذکر تھا۔ ویسےآپ کی ماڈل بھی تھوڑی آنٹی ٹائپ تھی۔ ہاں، آپ کا شاعری کا انتخاب دل لُوٹ لے جاتا ہے۔ اور بھئی، ’’لاکٹ آج بھی محفوظ ہے‘‘ میں کیا ناقابلِ فراموش تھا۔ یہ تو ایک بالکل عام سی کہانی تھی۔ مجھے لگا، شاید کوئی بہت انوکھا، جادو کا لاکٹ ہوگا۔ ہاہاہا… (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ج: چلو، اِس بہانے تمھارے ہونٹوں پہ ہنسی تو آئی، ورنہ تو ہمیشہ کوئی اداس بلبل ہی معلوم ہوتی ہو۔ مبشرہ کی تحریر ’’جسٹ فار فَن‘‘ تھی۔ اُسےسنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ کبھی کبھی کچھ ہلکی پُھلکی تحریریں، جریدے کا بوجھل پن کم کرنے کے لیے بھی شایع کی جاتی ہیں، اور لاکٹ والی عام سی کہانی کو بھی تم ایسی ہی تحریروں کی کیٹیگری میں شامل کرسکتی ہو۔

* منور مرزا نے آزادیٔ اظہار کے موضوع پر بہترین مضمون تحریر کیا اورآخری حصّے میں سو فی صد درست کہا کہ مُلکی قومی سلامتی، آزادیٔ اظہار سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں آزادیٔ اظہار سے فوائد کم، مُلک و قوم کا نقصان زیادہ ہوا۔ مانا کہ’’عرب بہار‘‘کے نتیجے میں مصر، تیونس، لیبیا، یمن، شام اور بحرین حکومتوں کے تخت اُلٹے، مگر اس کے نتیجے میں اُن ممالک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام بھی پہلے سے کہیں بڑھا۔ پاکستان کی بات کی جائے، تو یہاں تحریک لبیک پاکستان اور تحریکِ انصاف نے آزادیٔ اظہارکا بہت ناجائز فائدہ اٹھایا۔ مَیں تو ؒ اِس بات سے سو فی صد متّفق ہوں کہ آزادیٔ اظہار کوہرگز بےلگام نہیں ہوناچاہیےاوراِس کے لیے ہمیں بالآخر چین، روس اور سعودی عرب ماڈلز پرجانا ہوگا۔ (محمّد کاشف)

ج: اس ضمن میں تو ہم بھی، منور مرزا اور آپ سے سو فی صد متفق ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید