السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اتفاقاً نظر پڑ گئی!!
مَیں ایک نوجوان طالبِ علم ہوں۔ مجھے نہ تو اخبار پڑھنے سے کوئی دل چسپی ہے کہ جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے اور نہ ہی آپ کے ’’سنڈے میگزین‘‘ سے۔ ہاں، میری امّی پڑھتی ہیں اور بہت دل جمعی سے پڑھتی ہیں۔ وہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ صفحے کے مضامین کی دل دادہ ہیں۔ اتفاق سے اُنہیں پڑھتے دیکھ کر میری نظر ایک سلسلے ’’قصّہ دنیا کی بدترین قوم کا‘‘ پر پڑی۔ اور پھر مَیں نے اُس کی پانچوں اقساط بہت ہی دل چسپی سے پڑھیں۔
اُس کے بعد اگلے سلسلے ’’قصّہ یہودی ریاست کے قیام کا‘‘ کی بھی تمام ہی اقساط اُسی خشوع و خصوع سے پڑھ ڈالیں اور اب مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مَیں نے ان سلسلوں سے بہت کچھ سیکھا اور مَیں جو اخبارات و جرائد کو بالکل فضول گردانتا تھا، اب تہہ دل سے آپ لوگوں کا معترف ہوں۔ اُمید ہے، ایسے علمی و ادبی اور بیش بہا معلوماتی سلسلوں کا یہ تسلسل برقرار رہے گا۔ (احسن اقبال، کراچی)
ج: اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ نوجوان نسل اب کسی بھی روایتی چیز کو درخورِاعتنا ہی نہیں سمجھتی۔ ینگ جنریشن تو ایک طرف، چُھٹکوؤں تک کے ہاتھ میں ’’اسمارٹ فون‘‘ نامی Monster (راکشس، کہ مانسٹر کا سب سے بہتر ترجمہ ہمیں یہی لگتا ہے) جو آگیا ہے۔
وہ اُس کے سحر سے نکلیں، تو کہیں اور بھی دیکھیں۔ یہ بھی شُکر ہے کہ آپ کو امّی کو بھی دیکھنے کی فرصت ملی، سنڈے میگزین کے لیے تو ہم کیا ہی گلہ شکوہ کریں۔ اور یہ رویہ بھی ہم نے اِسی نسل میں دیکھا کہ بِنا سوچے سمجھے، دیکھے بھالے، جانچے پرکھے، بس فتویٰ صادر کردیا کہ فلاں چیز تو بالکل فضول، بکواس، جھوٹ کا پلندہ ہے۔
ایڈٹ ہوئے بغیر
خط کی عُمدہ اشاعت سے بہت حوصلہ افزائی ہوئی، ایک بار پھر ہمّت ملی کہ دوبارہ آپ سے تحریری ہم کلامی کی کوشش کروں۔ وہی ہم کلامی، جو آپ ہی کے طفیل2020ء سے دوبارہ آغاز ہوئی اور تاحال رواں دواں ہے۔ آج کے جلتے سُلگتے موضوع، المیۂ فلسطین نے میرے حسّاس دل کے تارہلا کر قلم کو بھی جیسے خُون کے آنسو رُلا دیا ہے۔
ہزاروں فلسطینی ماؤں کی آہوں نے مجھے تڑپا کے رکھ دیا ہے اور اُن کا غم صفحۂ قرطاس پر سمیٹتے سمیٹتے بے اختیار اُس ’’عزیز ہستی‘‘ کا خیال آیا، جس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے دوبارہ اس قلمی سفر پر گام زن کیا کہ میرے قلم کا رواں ہونا، آپ ہی کی بے لوث کاوشوں، خلوص کا اعجاز ہے۔ سو، اگر میری یہ روتی بلکتی تحریر، آپ کی وساطت سے ’’ایڈٹ ہوئے بغیر‘‘ شائع ہوگئی تو سمجھوں گی کہ مَیں نے بھی فلسطینی ماؤں کے کچھ آنسو پونچھ کر، اُن کا غم کم کرنے میں اپنا کچھ حصّہ ڈال دیا ہے۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج: آپ کی تحریر، متعلقہ صفحہ انچارج کے سپرد کردی گئی ہے۔ قابلِ اشاعت ہوئی، تو ضرور شایع ہوجائے گی۔ لیکن براہِ مہربانی ہم سے یہ ’’ایڈٹ کیے بغیر‘‘ والی فرمائش نہ ہی کی جائے، تو بہتر ہے کہ ایڈیٹنگ کے بغیر تو یہاں بڑے بڑے قلم کاروں اور اسٹاف کی بھی تحریروں کا تصوّر ناممکن ہے۔
کچھ خُوبیاں، چند خامیاں…
اُمید ہے، خیریت سے ہوگی۔ اِس مرتبہ وقفہ کچھ زیادہ ہوگیا۔ چند دیگر وجوہ کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مَیں ٹرانسفر ہو کر تمہارے آفس کے قریب آگئی ہوں، اجازت دوگی تو ملنے چلی آؤں گی، حالاں کہ سُنا ہے کہ تم ملنا ملانا پسند نہیں کرتیں۔ ویسے برنس روڈ کےدہی بڑے بہت مشہورہیں، میری طرف سے دعوت کی آفر ہے۔ اچھا، پہلی بات تویہ کہ میگزین کے صرف سولہ صفحات میں پوری دنیا قید کردینا کوئی تم سے سیکھے۔ صفحات کےساتھ ساتھ اسٹاف بھی کم ہوا، اور کئی اچھے نام میگزین سے غائب ہوگئے، لیکن تم نے پھر بھی معیار پر سمجھوتا نہیں کیا اور کئی ’’مُفتے کے‘‘ اچھے لکھاریوں کو اپنی محفل میں شامل کرلیا۔
یعنی اِن مُفت کے لکھاریوں کی تحریروں ہی نے میگزین کو اصل سہارا دیا۔ یقیناً یہ سب تمہاری خداداد صلاحیتوں ہی کے مرہونِ منّت ہے۔ اِس کےعلاوہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے قلم کو جو سحر عطا فرمایا ہے، وہ بھی کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ تمہارے پاس شورش کاشمیری اورابوالکلام آزاد کی طرح الفاظ کا سمندر ہے، جو یقیناً ایک اَن مول سرمایہ ہے۔ پھر تمہاری ایڈمنسٹریشن نواب آف کالا باغ کی طرح سخت ہے، تو ایوب کے مارشل لاء کی طرح بہترین ڈسپلن قائم رکھنا بھی جانتی ہو۔
اگر تمھاری خواجہ ناظم الدین کی طرح دوسروں سےکام لینے کی صلاحیت نے تمہیں ادارے کے اہم افراد کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، تو یہ تمہارا حق بھی ہے۔ لیکن اِن خُوبیوں کے ساتھ تمھاری چند خامیوں کی نشان دہی بھی کرتی چلوں کہ جو تمہاری بیش قیمت صلاحیتوں پہ چاند کےدھبّےکی طرح نمایاں ہیں۔ تم میں نواز شریف کا سا تکبّر، بھٹو کی سی متلوّن مزاجی اورعمران خان کی طرح کام لے کر ٹشوپیپر کی طرح پھینک دینے جیسی خامیاں بھی ہیں اور تمھاری اِن ہی خامیوں کے سبب کئی معروف لکھاریوں نے (مَیں نام نہیں لوں گی، بس اتنا کہوں گی کہ اِن ناموں میں قارئین کے پسندیدہ ناول نگار کا نام بھی شامل ہےکہ جنہوں نےاپنا ناول ہی ادھورا چھوڑ دیا)جریدے میں لکھنا ہی ترک کر دیا۔
مَیں ایک طویل عرصے سے نوجوانوں کو پڑھا رہی ہوں، اُن کی نفسیات سے بخوبی واقف ہوں۔ دراصل تمہارے ذہن میں ہمہ وقت یہ بات رہتی ہے کہ بیش تر لکھاری، تمہارے یا میگزین کی وجہ سے مشہور ہوئے ہیں۔ گویا تم نے اُن پر احسانِ عظیم کیا ہے، تو تمھاری یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ پھر قارئین کے خطوں کے جواب میں تم بعض اوقات جو تلخ، متکبرانہ الفاظ استعمال کرتی ہو، وہ بھی پسندیدہ نہیں۔ یہاں تک کہ کسی لکھاری سے ناراض ہو، تو خطوط سے اُس کا نام تک حذف کردیتی ہو۔ تمہیں اپنی اِن خامیوں پر توجّہ دینی چاہیے۔ ویسے اِس چاپلوس دنیا میں لوگوں کو آئینہ دکھانا اتنا آسان نہیں کہ لوگ بُرا مان جاتے ہیں۔
ماشااللہ، اِس مرتبہ بلوچستان کی بیوروکریٹ خواتین پر فرّخ شہزاد ملک کا مضمون میگزین کی جان تھا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پرموجود تمہاری تحریر کی بھی کیا تعریف کروں۔ اور ہاں، ’’مسٹر پرفیکٹ‘‘ کا مضمون بھی پڑھا۔ انہوں نے کافی حد تک حوالہ جات کا اہتمام کر رکھا تھا، لیکن کئی جگہ ڈنڈی بھی مارگئے۔ محض کتاب کا نام،صفحہ نمبر ہی لکھنےپراکتفا کیا۔ چلو، اگر تم نے بلاک نہیں کیا، تو اِن شااللہ تعالیٰ پھرحاضرِ خدمت ہوں گی۔ (شاہدہ تبسّم، ڈی ایچ اے، کراچی)
ج:میڈم! یہ آج آپ کی کوئی پہلی ایسی تحریر نہیں ہے، اِس سے قبل بھی آپ کافی سخت خطوط لکھ چُکی ہیں،لیکن ہنوز’’سنڈے میگزین‘‘ کا حصّہ ہیں، تو لکھاریوں کے نام نکال دینے یا بلاک کردینے والی بات کی تو یہیں نفی ہوگئی۔ نیز، ہم پر، آپ کی ریسرچ اور حاصل کردہ معلومات بھی قطعاً مستند نہیں، کیوں کہ آپ کا سورس ہی غیر جانب دار نہیں ہے۔ رہی بات، ہمیں مِلنا ملانا پسند نہیں، ہم نے کئی لوگوں کو ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے بےدخل کردیا ہے، تو یہ قدغن بھی صرف چند انتہائی بدتمیز، بدتہذیب، اخلاقیات سےعاری یا نفسیاتی قسم کے’’دردِ سر‘‘ مَردوں کے لیے ہے۔ آپ جب جی چاہے، ملاقات کے لیے آ سکتی ہیں اور ہمارے یہاں مہمانوں کی تواضع کی روایت ہے، نہ کہ وہ اُلٹا میزبان کی خاطر داری کرتے پھریں۔
ایک طرف آپ ’’مُفتے کی لکھاریوں‘‘ کے سبب (ویسے قارئین کے لیے بےغرض، بےلوث خدمات پیش کرنے والے محترم لکھاریوں کےلیے یہ الفاظ خاصے تضحیک آمیز ہیں) جریدے کے معیار کی برقراری کی بات کر رہی ہیں، تودوسری طرف ہمارے متکبرانہ رویے کے باعث اچھے رائٹرز کے جریدہ چھوڑ جانے کا الزام بھی لگا رہی ہیں۔ کسی ایک بات پر تو قائم رہیں اور قارئین کے پسندیدہ ناول نگار کا جو آپ نے ذکر کیا، تو غالباً آپ ہاشم ندیم صاحب کی بات کررہی ہیں۔ یوں کریں، ہم سے اُن کا نمبر لے لیں، اوراُن سے خُود پوچھ لیں کہ اُنھوں نے ناول کیوں ادھوراچھوڑا تھا۔
اب آپ کی ہرالل ٹپ بات کا جواب یہاں تو نہیں دیا جا سکتا کہ کچھ ہماری صحافتی اورادارہ جاتی مجبوریاں بھی ہیں، جن کا شاید آپ تصوّربھی نہیں کرسکتیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا ابتدا ہی سےایک فارمیٹ ہے، اور آج کے اِس ڈیجیٹلائز دَور میں بھی اگر لوگ خطوط نگاری جیسے قریباً متروک طرزِ نگارش سے جُڑے ہوئے ہیں، تو وہ صرف اور صرف اِس بےجھجک، بےلاگ انداز ہی کی بدولت ہے۔ یہاں ہمارے جوابات ہی تلخ، متکبرانہ نہیں ہوتے، خطوط اُس سے بھی دس ہاتھ آگے ہی ہوتے ہیں۔ روایتی طرزِصحافت میں تو ایسے خطوط بغیر پڑھے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیئے جاتے ہیں، جنہیں ہم اہتمام سے شایع ہی نہیں کرتے، کٹہرے میں کھڑے ہوکر جوابات بھی دے رہے ہوتے ہیں۔
اور رہی بات، جریدے کے سبب (کہ ہم بھلا کون ہوتے ہیں، کسی کو مقبول یا غیر مقبول کرنےوالے) کسی کے مشہور ہونے کی، تو اِس میں کیا غلط ہے۔ ہمیں خُود اگر آج چار لوگ جانتے ہیں، تو یہ صرف اور صرف ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی کے دم قدم سے ہے، وگرنہ مَن آنم کہ مَن دانم۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ اِس ضمن میں بھی کئی لوگ انتہائی ناشُکر گزار اور احسان فراموش ہیں۔ اُن کی تحریر ایڈٹ ہو جائے یا کسی سبب شایع نہ ہو، تو ادارے کے دیرینہ کارکنان پر بلاثبوت جھوٹے الزامات عائد کرنے لگتےہیں۔ اور آخری بات، فی زمانہ، آئینہ دکھانا ہی مشکل نہیں،دیکھنا اوربرسرِعام دیکھنا بھی دِل، گُردے کی بات ہے۔ اور یہ صرف وہی دیکھ سکتے ہیں، جن کا اندروباہر شفّاف، ضمیر سو فی صد مطمئن ہو۔
خواتین ڈپٹی کمشنرز، لاجواب تحریر
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا برطانیہ کے قبل ازوقت انتخابات پرتحریر کردہ مضمون پڑھا، ہمیشہ کی طرح بہت اچھا لگا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کے ذریعے فرّخ شہزاد ملک نے بھی معلومات میں بیش بہا اضافہ کیا۔ بلوچستان کی 6 خواتین ڈپٹی کمشنر خواتین سے متعلق رپورٹ پڑھ کر بہت ہی خوشی ہوئی کہ بظاہر ایک پس ماندہ صوبہ، ذہانت وفطانت کے اعتبار سے کیسا زرخیز ہے۔ ایسی عُمدہ، مثالی، لاجواب تحریروں سے کافی موٹیویشن ملتی ہے، لہٰذا براہِ مہربانی ایسی نگارشات شاملِ اشاعت کرتی رہا کریں۔ نیز، ’’ڈائجسٹ‘‘ میں جویریہ شاہ رُخ کا افسانہ ’’ٹھنڈی چھاؤں‘‘ بھی کمال افسانہ تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: جی، ہماری اپنی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ متنوّع، موٹیویشنل اور قارئین کے مَن پسند موضوعات ہی شاملِ اشاعت رکھیں۔
فی امان اللہ
رسالہ موصول ہوا، سرِورق پر زیبراپرنٹ میں ملبوس ماڈل کی مسکان دیکھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘میں منور مرزا چابہار بندرگاہ کے گوادر پر اثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بھارت اِس بندرگاہ کو پاکستان میں تخریب کاری کے لیے استعمال کرتا ہے، نام نہاد قوم پرستوں کو آلۂ کار بنا کر بلوچستان کے حالات خراب کررہا ہے اور ہم افغانستان اور ایران میں دہشت گردوں کی کئی پناہ گاہوں کاعلم ہونےکے باوجود، مستقل برادرانہ اخوت کے نام پر تحمّل و برداشت کا مظاہرہ کیے چلے جارہے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’قصّہ یہودی ریاست کے قیام کا‘‘ کی آخری قسط کے ساتھ آئے اور غزہ کے الم ناک واقعات سے غم ناک کر گئے۔
واللہ، اکیسویں صدی میں بھی ایسے اندوہ ناک مظالم، جن سے چینگز، ہلاکو اور ہٹلر کی رُوحیں بھی شرما جائیں، مگر مہذّب دنیا کی بے حِسی وبے حیائی بھی دیدنی ہے۔ یہ اقوامِ ِمتحدہ کا نام نہاد امن قائم کرنے کا ادارہ، آخر کس مرض کی دوا ہے؟ یہ کیسا ظالمانہ قانون ہے کہ 200 مُلکوں کی قرارداد، ایک مُلک ویٹو کرکے سب سبوتاژ کردیتا ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں فیضان شفیق جمالی پاکستان میں موروثی سیاست کی خرابیاں بیان کررہے تھے۔
یہاں پچھلے پچھتّر سال سے جو چند خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہے، اِسی وجہ سے تو امیر، امیر تراورغریب، غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ غریب کو دو وقت روٹی میسّر نہیں اور اشرافیہ کی دولت مُلکی و غیرمُلکی بینکس میں بَھری پڑی ہے، جب کہ حُکم ران آئی ایم ایف کے آگے کشکول پھیلا کرعوام کو زندہ درگور کرنے والی شرائط مان رہے ہیں۔
اگر اِس اشرافیہ کی 25 فی صد دولت بھی مُلک میں واپس آجائے، توقوم کے دلدّر دُور ہوسکتے ہیں، مگرکِتھوں…؟محلات میں عیش وعشرت کرنے والوں کویہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ غریب عوام کا ردِعمل کہیں انقلابِ فرانس کی تاریخ نہ دہرا دے۔ کسی نے سوچا ہے کہ یہ جو بجلی، گیس کے بھاری بھرکم نرخ کی صُورت عوام پرقہرٹوٹا ہے، اُن میں یہ بوجھ اُٹھانے کی اب سکت بھی ہے یا نہیں۔ ’’خادمِ اعلیٰ صاحب‘‘ نے تولگتا ہے، وزیرِاعظم بن کے کانوں، آنکھوں پر ہاتھ ہی رکھ لیے ہیں۔ اُنھیں نہ کچھ دکھائی دے رہا ہے، نہ سُنائی۔
’’رپورٹ‘‘ ہی میں اسرار ایوبی قومی صنعتی تعلقات کمیشن کی کارکردگی بتا رہے تھے، تو ڈاکٹر معین نواز برانڈز کی چمک دمک سے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹنے والوں کا المیہ بیان کرتے نظر آئے۔ بھئی، یہاں عوام کو لُوٹنے کھسوٹنے کی کُھلی آزادی ہے، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں، چاہے وہ کچّے کے ڈاکو ہوں یا پکے کے۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں محمّد سعید بلوچ ’’زنگی ناوڑ‘‘ کے حُسن و خُوب صورتی سے آگاہ کررہے تھے۔ اور کچھ نہ سہی، اگرحُکم ران سیرو سیاحت کے شعبے ہی کو کچھ فروغ دے دیں، تو ہم اتنا زرِمبادلہ تو کما سکتے ہیں کہ دوسرے ممالک سے قرضوں کی ضرورت نہ رہے۔
ہمارے یہاں دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات موجود ہیں، مگر ڈنگ ٹپاؤ محکمے کچھ کرنے پرآمادہ ہی نہیں۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں، جن کے پاس صنعت ہے، نہ زراعت، وہ صرف چند سیاحتی مقامات ہی کے سبب خاصے خوش حال ہیں۔ ہر ہفتے ’’سینٹراسپریڈ‘‘ کے خُوب سے خُوب تررائٹ اَپ ہی کے سبب یہ صفحات ایک بار پھر خاص و عام میں مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔
’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل، تعلیمی نصاب کو فکرِ اقبال سے مزیّن کرنے کی تلقین کررہے تھے تاکہ نوجوانوں کوحب الوطنی، اسلام پرستی اور انسان دوستی کےجواہر سے مالا مال کیا جاسکے، جب کہ اشرافیہ کا ذاتی مفاد تو آکسفورڈ کا نصاب اپنانےمیں ہے۔ پوری دنیا اقبال کےفکر و فلسفے کا لوہا مانتی ہے، مگر ہم صرف کتابی باتیں کرنا، تعریفوں کے پُل باندھنا جانتے ہیں، عملی جوہر کشید کرنانہیں، حالاں کہ زندگی توعمل سے بنتی ہے۔
’’جہانِ دیگر‘‘میں انجینئر محمّد پرویز آرائیں امریکا یاترا کی پہلی قسط لائے، تو ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سلمیٰ اعوان ایک فکرانگیز افسانے ’’آپشن‘‘ کے ساتھ آئیں، جو بہت کچھ سوچنے پرمجبور کر گیا۔ منور راجپوت نے نئی کتابوں پرحسبِ معمول ماہرانہ تبصرہ کیا، تو طلعت عمران نے ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ مرتّب کیا، جو مدرزڈے ہی کا تسلسل تھا۔ اور ہمارے باغ و بہار صفحے پر پہلی چٹھی کا اعزاز جاوید اقبال کےحصّےآیا، بہت مبارک ہو۔ یہاں شدید گرمی ہے، پنکھا چلنے کے باوجود پسینہ ٹپک رہا ہے۔ سو، اب مزید لکھا نہیں جا رہا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج: چلیں، کہیں تو گرمی بھی باعثِ رحمت ثابت ہوئی، وگرنہ آپ کا شیطان کی آنت جیسا خط ایڈٹ کرتے کرتے تو خُود ہمارے ہاتھ دُکھنے لگے تھے۔
* ’’سنڈے میگزین‘‘ سے میری بہت سی یادیں جُڑی ہیں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب ہم (پاپا، امّاں اور میرے بھائی) کراچی میں رہائش پذیر تھے، پاپا ایک ایمان دارآفیسر تھےاور محکمۂ ڈاک میں پوسٹ ماسٹر جنرل کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ لکھنے پڑھنے کا بہت شوق رکھتےتھے، اپنے بابا(میرے دادا) کی بائیو گرافی لکھی اور تھوڑی بہت شاعری بھی کرتےتھے۔ ہم نے ہوش سنبھالتے ہی گھر میں متعدّد اخبارات و رسائل آتے دیکھے، جن میں ’’سنڈے میگزین‘‘ اور اخبارِجہاں سرِفہرست تھے۔
تب میں نرسری میں تھی اور امّاں، پاپا کی دیکھا دیکھی میگزین اُٹھا تولیتی، لیکن کہانیوں کے ساتھ شایع تصاویر دیکھ کر ہی خوش ہوتی رہتی۔ آہستہ آہستہ شعور آیا، تو میگزین کا مطالعہ شروع کیا۔ تب بھی’’آپ کا صفحہ‘‘ میں،’’اِس ہفتےکی چِٹھی‘‘ کو’’اِس ہفتے کے چُھٹی‘‘ پڑھا کرتی۔ خیر، بچپن کا دَور پر لگاکر اُڑ گیا۔ پاپا کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہم کراچی سے حیدرآباد شفٹ ہوگئے۔ میرا لیاقت یونی ورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز میں ایڈمیشن ہوگیا اور اب فائنل ائیرمیں ہوں۔ دوسال پہلے پاپا بھی رخصت ہوگئے۔
اُن کے بغیر جینا، کوئی جینا نہیں، لیکن جینا تو ہے۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ ہمیشہ کی طرح آج بھی ہمارے گھرآتا ہےاور مَیں ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی سےآغازکرتی ہوں بلکہ پہلے ہر خط کا جواب پڑھتی ہوں اور ہر شُمارے میں خادم ملک کا خط ضرور ڈھونڈتی ہوں۔ نیز، سرچشمۂ ہدایت، ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش، اسٹائل میرے پسندیدہ صفحات ہیں۔ لکھتے لکھتے پتا ہی نہیں چلا، ای میل بہت لمبی ہوگئی، معذرت۔ (سیّدہ فاطمہ، حیدرآباد، سندھ)
ج: ہماری محویت کا تو یہ عالم تھا کہ پتا ہی نہیں چلا اورای میل ختم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے پیارے والدِ گرامی کی بہترین مہمان نوازی فرمائے۔ یقین کریں، آپ کی میل پڑھ کے ہم خُود پتا نہیں ماضی کی کس کس شاہ راہ سے ہولیے۔ کیا کیا کچھ نہیں یاد آگیا۔ اس جریدے سے وابستگی، عملی زندگی کے ابتدائی ایّام، سخت جدوجہد، محنت ومشقّت کےدن، کچھ کر دکھانے، دنیائے صحافت میں قدم جمانے کا عزم اور پھر چل سو چل… بس، سب کی داستانِ حیات کچھ ایسی ہی ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا؎ آواز دے کے دیکھ لو، شاید وہ مل ہی جائے… ورنہ یہ عُمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔ اب پتا نہیں، یہ سفر کچھ کارآمد رہا، یا رائیگاں ہی گیا۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk