مصنّف: محمّد اسلام تبسّم
صفحات: 144، قیمت: 800روپے
ناشر: گردو پیش پبلی کیشنز، ملتان۔
فون نمبر: 6780423 - 0318
زیرِ نظر کتاب کے مصنّف کا شمار ملتان کے اُن قلم کاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے ہمیشہ حسّاس موضوعات پر قلم اُٹھایا اور قارئین کی توجّہ حاصل کی۔ اسلام تبّسم کا بنیادی حوالہ انشائیہ نگاری ہے۔ اِس سے پہلے’’کباڑ خانہ‘‘ اور’’حسینوں کے خطوط‘‘ کے عنوان سے اُن کی دو کتب شائع ہوچُکی ہے۔
زیرِ نظر کتاب اُن کی خود نوشت ہے۔ وہ سقوطِ ڈھاکا کے عینی شاہد ہیں اور یہ دیناج پور سے ملتان تک کے سفر کی ایک صعوبت ناک کہانی ہے۔ سقوطِ ڈھاکا کی اَن کہی کہانی، ہر سمندر، بچپن کچھ اور یادیں، اسکول میں پہلا اور آخری دن، الیکشن سے پہلے، الیکشن کے بعد، مشرقی پاکستان میں آخری یومِ آزادی، 71ء کی جنگ اورسقوطِ ڈھاکا، سقوطِ ڈھاکا کے بعد کیا ہوا؟ بھارت کا سفر، بھارت میں چند ماہ، سید پور میں آخری ایام، دوسری ہجرت، کراچی آمد، آسمان سے گِرا کھجور میں اٹکا، آخری پڑاؤ اور ملتان میں میری زندگی کے پچاس سال جیسے عنوانات ہی سے کتاب کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ یہ ایک بڑی دردناک کہانی ہے کہ پڑھنے والا آنسو روک ہی نہیں سکتا۔
ویسے یہ محمّد اسلام تبسّم کے لڑکپن کی کہانی ہے، جب وہ دیناج پور میں رہتے تھے، اُنہوں نے بہت سی اذیّتیں برداشت کیں، ریڈ کراس کے کیمپس میں بھی رہے اور بالآخر پاکستان پہنچ گئے۔بلاشبہ یہ کتاب، سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابتدا میں فیض احمد فیض کی نظم’’ ہم کہ ٹھہرے اجنبی، اِتنی مدارتوں کے بعد‘‘دی گئی ہے، جو اِسں کتاب کا سرنامہ ہے۔