چند دہائیاں قبل تک خودکُشی کی خبریں خال خال ہی سامنے آیا کرتی تھیں اور اگر کبھی اخبارات میں اِس حوالے سے کوئی خبر چَھپتی، تو لوگ حیران و پریشان ہو جاتے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا تھا کہ ایک شخص نے اپنی عزیز ترین متاع، زندگی ہی کو اپنے ہاتھوں ختم کر لیا۔ جان سب کو پیاری ہوتی ہے، یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی جان کا خطرہ ہو، تو وہ آخر دَم تک مقابلہ کرتی ہے۔ ماضی میں دنیا میں خودکُشی کی شرح زیادہ نہ تھی، لیکن پھر صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کے رنگ ڈھنگ اور رہن سہن بدل گئے۔
طبقاتی تفریق بڑھی۔ بے روزگاری، احساسِ محرومی اور غربت کے بطن سے جہاں اور کئی مسائل نے جنم لیا، وہیں خودکُشی جیسا خوف ناک عمل بھی رواج پانے لگا۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے، تو ہر سال 8لاکھ سے زائد افراد خودکُشیاں کرتے ہیں اور یہ دنیا بَھر میں اموات کی 10ویں بڑی وجہ ہیں۔ یعنی ہر ایک لاکھ افراد میں سے 12افراد۔ جب کہ ناکام خودکُشیوں کے کیسز کی تعداد بھی ہول ناک ہے، جو سالانہ دو کروڑ تک ہے۔
ماہرین نے یہ اندازہ بھی لگایا ہے کہ پوری دنیا میں 15سے 30سال کی عُمر کے افراد سب سے زیادہ خودکُشیاں کرتے ہیں، جب کہ ہر مُلک میں خودکُشی کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ اِسی طرح اِس سے متعلق قوانین بھی مختلف ہیں۔ زمانۂ قدیم کے کئی ممالک میں یہ دیوتائوں کے نام پر انسانی قربانی کی روایات کا حصّہ رہی۔ تاہم، اب اکثر ممالک میں اسے معیوب اور قابلِ تعزیر جرم سمجھا جاتا ہے۔ قدیم یونان میں خودکُشی کرنے والے کو نارمل طریقے سے دفن کرنے کی بجائے شہرسے دُور کسی ویران مقام پر دفن کیا جاتا اور اُس کی قبر پر کتبہ لگانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔
پاکستان میں کتنے لوگ اپنی زندگیوں کا خاتمہ خود کرتے ہیں؟ اِس ضمن میں حتمی طور پر تو کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ، اخبارات میں ہر دوسرے روز غربت، گھریلو جھگڑوں، بے روزگاری، طویل بیماری، محبّت میں ناکامی اور دیگر وجوہ کی بنا پر خودکُشیوں کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ غریب، نادار اور لوئر مِڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کی خودکُشیوں کی خبریں تو چند گھنٹوں بعد منظر سے غائب ہو جاتی ہیں، لیکن معروف شخصیات اور اعلیٰ عُہدے داروں کی خبریں کئی کئی روز تک ٹاک آف دی ٹائون بنی رہتی ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں خودکُشی کرنے والے بعض معروف افراد میں فلم اسٹار ننّھا، ایئرمارشل اصغر خان کے بیٹے عُمر اصغر خان (مبیّنہ طور پر)، شکیب جلالی (شاعر) کے علاوہ پولیس افسران، بنّوں کنٹونمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بلال پاشا، پولیس ٹریننگ اسکول، روات کے پرنسپل ابرار حسین نیکوکار، ایس ایس پی شہزاد، ڈی پی او جعفر آباد جہانزیب کاکڑ، ڈی۔ سی۔ او گوجرانوالہ سہیل ٹیپو اور ڈی۔ پی۔ او ننکانہ صاحب وغیرہ شامل ہیں، جب کہ بیوروکریٹس میں اکائونٹس گروپ کی نبیہہ، کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس خرّم ہمایوں اور کئی دیگر افراد نے خود کُشیاں کیں۔
ان کے علاوہ بھی کئی بیوروکریٹس یا معروف افراد اِس فہرست میں شامل ہیں، جو چند روز بحث مباحثے کا موضوع بننے کے بعد ماضی کا حصّہ بن گئے۔معروف افراد کے حوالے سے اگر ہم سایہ مُلک،بھارت کی طرف نظر دوڑائیں، تو وہاں شوبز کی روشنیاں خودکُشیوں سے ماند پڑتی نظر آتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر وہاں صرف گزشتہ چند سالوں میں ٹی وی اور فلم سے وابستہ 13اداکاروں اور اداکاراؤں نے خودکُشیاں کیں۔
مُلکی سطح پر خود کُشیوں کے واقعات کے مصدقہ اعداد و شمار دست یاب نہیں اور اگر کہیں کوئی ریسرچ ہوئی بھی ہے، تو وہ محدود پیمانے ہی پر رہی، جس سے معاملے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں ہو پاتا۔2021ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے’’ سوئسائڈ ورلڈ وائیڈ اِن 2019ء ‘‘میں’’ گلوبل ہیلتھ ایسٹی میٹس‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شایع کی، جس کے مطابق 2019ء میں پاکستان میں 19ہزار 331 افراد نے خودکُشی کی، جن میں سے 76فی صد مرد اور 34فی صد عورتیں تھیں۔
ماہرین کے مطابق، پاکستان میں35سے 50افراد روزانہ اور ہر گھنٹے میں دو افراد خودکُشی کرتے ہیں، جب کہ مُلک میں خودکُشی کی ناکام کوشش کرنے والوں کی تعداد سالانہ ڈیڑھ لاکھ تک ہے۔ پوری دنیا کے تناظر میں پاکستان میں خودکُشی کی یہ شرح 2.73بنتی ہے۔ اِن اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کا خودکُشیوں کے حوالے سے دنیا میں چَھٹا نمبر ہے۔واضح رہے، اِس ضمن میں بھارت کا دنیا میں پہلے نمبر پر، چین دوسرے اور امریکا تیسرے نمبر پر ہے۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں 2015ء میں خودکُشی کی شرح 8-9اموات فی ایک لاکھ تھی، جو کہ عالمی سطح کی شرح سے قدرے کم تھی۔یوں تو پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں، جہاں خودکُشیوں کے واقعات نہ ہوتے ہوں، لیکن چترال کے بعد اب سندھ کا علاقہ، تھرپارکر اس حوالے سے سرِ فہرست ہے، جہاں 2022ء میں 129افراد نے خودکُشی کی۔ ماہرین نے یہاں شادی بیاہ کے حوالے سے سخت پابندیوں کو خودکُشی کی ایک بنیادی وجہ قرار دیا ہے کہ نوجوان لڑکے، لڑکیاں پسند کی شادی نہ ہونے پر موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
پاکستان میں 2022ء سے پہلے خودکُشی، تعزیراتِ پاکستان کے تحت ایک جرم تھی اور اس پر 10ہزار روپے جرمانے یا قید کی سزا تھی، لیکن 2022ء میں اس ایکٹ میں ترمیم کر کے اِسے قابلِ مواخذہ جرم کی لسٹ سے خارج کر دیا گیا۔جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے خودکُشیوں کے حوالے سے اگرچہ مستند اور جامع اعداد و شمار نہیں ملتے، لیکن دو سال پر محیط ایک تجزیاتی رپورٹ میں پاکستان کے 35شہروں میں خودکُشی کرنے والوں کی تعداد 300بتائی گئی ہے اور یہ اقدام کرنے والوں میں زیادہ تعداد غیر شادی شدہ مَردوں کی تھی۔ اِسی طرح ایک اور میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں روزانہ 35سے 50افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔
اِس رپورٹ میں اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں نوجوانوں میں(15سے 24سال کی عُمر)خودکُشی کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ 13.15اموات فی لاکھ ہے۔ ایک اور مسئلہ خودکُشی کی ناکام کوشش کرنے والوں کی تعداد کا بھی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال خودکُشی کی ایک لاکھ سے زاید کوششیں ہوتی ہیں اور ماہرین اِس سلسلے میں’’پاکستان میں خودکُشی کی شرح میں اضافہ‘‘نامی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ خودکُشیوں کے بہت سے واقعات لواحقین کی پردہ پوشی اور شرمندگی کے باعث بھی سامنے نہیں آ پاتے۔
وہ عموماً انہیں حادثاتی اموات قرار دے دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بچ جائے، تو اس کا علاج نجی اسپتال سے کروایا جاتا ہے اور واقعہ رپورٹ نہیں ہوتا۔بعدازاں، ایسے افراد نفسیاتی علاج معالجے سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اِسی لیے شاید ہی آج تک عدالتوں میں ناکام خودکُشی کا کوئی کیس سامنے آیا ہو، جب کہ اگر پولیس کو بھنک پڑ بھی جائے، تو وہ بھی وقت کا زیاں سمجھ کر کیس درج نہیں کرتی۔حالاں کہ ماہرینِ نفسیات کے خیال میں ایسے زندگی سے تنگ افراد کے لیے ذہنی بحالی سینٹرز قائم ہونے چاہئیں۔
تاہم، موجودہ حالات کے پیشِ نظر پاکستانی حُکم رانوں کی ترجیحات میں شاید یہ مسئلہ سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف، پاکستان میں ماہرِ نفسیات کی تعداد 0.14فی لاکھ ہے۔سو، اِس قدر کم وسائل اور حُکم رانوں کی بے اعتنائی کے اعتبار سے نفسیاتی الجھنوں میں جکڑے لوگوں کے لیے اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ رپورٹ کے مطابق آج کل کے مصروف ترین اور مادیت پرست دَور میں اہلِ خانہ کو بھی اِتنی فرصت نہیں کہ وہ گھر میں ڈیپریشن کے شکار کسی خاتون، مرد یا بے روزگار نوجوان کے بدلتے رویّوں کو جانچ کر اُس کے زخموں پر مرہم رکھیں تاکہ خودکُشی کی نوبت ہی نہ آئے۔
پھانسی کا پھندا ہی کیوں؟
مناسب ریسرچ کے فقدان کے باعث اگرچہ خودکُشی کی پسِ پردہ وجوہ کی حتمی نشان دہی تو ممکن نہیں، لیکن پاکستانی اخبارات میں آئے روز چَھپنے والی خبروں سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ اِس انتہائی عمل کے پسِ پردہ تین عوامل نمایاں ہیں۔
گھریلو جھگڑے: خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، طلاق کی بڑھتی شرح، میاں بیوی کے درمیان آئے روز کے جھگڑے، ساس بہو کے مسائل، نشے کی بڑھتی لعنت اور جائیداد کے تنازعات نے لوگوں کو ذہنی طور پر توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاکستانی ماہرینِ نفسیات کے نزدیک خودکُشی کی ہر پانچویں کوشش کے پسِ پردہ خاندانی جھگڑے کار فرما ہوتے ہیں۔
طلاق کی شرح میں تین گُنا اضافہ بھی ماہرینِ نفسیات کے اِن خدشات کی تصدیق کرتا ہے، بالخصوص جب طلاق یافتہ جوڑے کے بچّوں کی حوالگی کے مسائل، عائلی عدالتوں میں زیرِ سماعت آتے ہیں، تو سابقہ میاں بیوی سخت ذہنی عذاب سے گزرتے ہیں، جو بعض اوقات زندگی کے سفر کو خودکُشی کے ذریعے اختتام تک لے جاتا ہے۔
وسائل پر صرف 20فی صد ایلیٹ کلاس کا قبضہ ہے، جو زندگی کی تمام سہولتوں کے باعث عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہی ہے، جب کہ 60فی صد غریب عوام تو زندگی کی بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں، جب کہ مِڈل کلاس اور لوئر مِڈل کلاس تنگ دستی اور مالی پریشانیوں کی گرفت میں ہے۔ صاف پانی، صحت، علاج معالجہ، تعلیم کی سہولتوں سے محرومی، کمر توڑ منہگائی، بجلی اور گیس کے بھاری بلز نے اُن سے جینے کا حوصلہ ہی چھین لیا ہے اور یہ مایوسی اور نااُمیدی اُنہیں بعض اوقات زندگی سے مایوس کر دیتی ہے۔
یہ لوگ اندر ہی اندر محرومیوں کی اِس آگ میں جَلتے رہتے ہیں، البتہ کبھی کبھار بعض ہول ناک خبریں انسانی ضمیر کو (کچھ دیر کے لیے)جھنجوڑ دیتی ہیں۔ جیسے یہ خبر کہ’’غربت سے تنگ ایک باپ نے بیوی اور چار بچّوں کو زہر دے کر خود بھی زہر کھا لیا‘‘ یا پھر فیصل آباد کے نزدیکی قصبے کی خبر، جس میں ایک شخص نے گاڑی کے نیچے آکر خودکُشی کی، تو اُس کی جیب سے بجلی اور گیس کے بلز برآمد ہوئے۔
بے روزگاری: خودکُشیوں کی بڑھتی شرح کی ایک وجہ مُلک میں بے روزگاری بھی ہے۔ آسٹریلیا میں کی گئی ایک ریسرچ میں 2016ء سے 2024ء کے دَوران ہونے والی32ہزار خودکُشیوں کا جائزہ لیا گیا، ان میں سے 20فی صد کا تعلق براہِ راست بے روزگاری سے تھا، جب کہ پاکستان کے حالات تو آسٹریلیا سے کہیں بدتر ہیں، اِس لیے یہاں بھی ہر دوسرے تیسرے روز کسی بے روزگار کی لاش پنکھے سے لٹکتی ملتی ہے۔
ہمارے یہاں گریجویٹس، انڈر گریجویٹس، ایم۔اے، ایم فِل، حتیٰ کہ پی۔ ایچ۔ڈی اسکالرز بھی ملازمتوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں، جب کہ اپنا اقتدار بچانے کے چکروں میں مصروف حکومت بے روزگاروں کے لیے کوئی پلان بنانے میں یک سر ناکام ہے۔ بے روزگاری کا اندازہ اِس امر سے لگا لیں کہ گزشتہ سال کراچی میں محکمۂ پولیس میں نچلے درجے کی 1667اسامیاں نکلیں، تو اُن کے لیے تحریری امتحان میں 32ہزار نوجوانوں نے شرکت کی۔
موجودہ دگرگوں اقتصادی بدحالی کے پیشِ نظر پاکستان میں آئندہ سال بے روزگاروں کی تعداد70 لاکھ سے بڑھنے کا اندیشہ ہے اور ان میں سب سے بڑی تعداد20 سے 24 سال کی عُمر کے نوجوانوں کی ہوگی۔ حالاں کہ مختلف تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں میں خودکُشی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
محبّت یا امتحان میں ناکامی
محبّت یا امتحان میں ناکامی بھی ہمارے یہاں خودکُشیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ والدین جب لڑکی یا لڑکے کی پسند کی شادی میں رکاوٹ بنتے ہیں، تو بعض اوقات وہ دونوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔نیز، روٹھی بیوی جب میکے سے واپس نہیں آتی، تب بھی کئی کیسز میں شوہر، بیوی اور اُس کے والدین کو ختم کرنے کے بعد اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیتا ہے۔اِسی طرح امتحان میں ناکامی، نمبر کم آنے یا والدین کی ڈانٹ ڈپٹ بھی خودکُشی کا باعث بن جاتی ہے۔ حال ہی میں10 جولائی کو لاہور بورڈ کے ایک طالبِ علم نے میٹرک میں کم نمبر آنے پر خودکُشی کرلی۔
ایسے نہ جانے کتنے غُنچے ہیں، جو ہر سال مُرجھا جاتے ہیں۔ خودکُشی کی دیگر وجوہ میں طویل بیماری، قرضوں کی عدم ادائی، شدید ڈیپریشن، ذہنی بیماری اور زندگی کی یکسانیت سے اُکتاہٹ وغیرہ شامل ہیں۔بلاشبہ غربت، خودکُشی کی ایک بڑی وجہ ہے،تاہم وہ لوگ بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں، جنہیں زندگی کی ہر دولت میسّر ہے۔ سویڈن کا شمار دنیا کے خوش حال ترین ممالک میں ہوتا ہے، جب کہ وہاں خودکُشی کی شرح 14افراد فی لاکھ ہے۔ (پاکستان میں یہ شرح8- 9ہے) ناروے بھی ایک خوش حال اور ویلفئیر اسٹیٹ ہے، مگر وہاں بھی شرحِ خودکُشی12.4 فی ایک لاکھ ہے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، یہاں جوں جوں سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، منہگائی، بے روزگاری اور احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے، خودکُشی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔
مستند اعداد و شمار کا فقدان
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا، قومی سطح پر خودکُشی کے اعدادو شمار دست یاب نہیں اور نہ انسداد کے لیے سرکاری سطح پر کوئی کوشش کی گئی، البتہ چند تنظیمیں اپنے طور پر اِس میدان میں ضرور سرگرمِ عمل ہیں۔ اِس ضمن میں ایک خاتون سماجی کارکن، اسماء ہمایوں کا کہنا ہے کہ’’ ہر سال اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام10 ستمبر کو انسدادِ خودکُشی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
پاکستان نے بھی معاہدے پر دست خط کیے تھے اور اِس عزم کا اظہار کیا تھا کہ2020 ء تک یہ اپنے مینٹل ہیلتھ پروگرام کے تحت خودکُشی کی شرح میں کمی لائے گا، لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ ہمیں علم ہے کہ آج بھی پاکستان میں نوجوانوں میں خودکُشی کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں ذہنی صحت کی سہولتوں کی شدید کمی ہے، کیوں کہ یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ عالمی ادارۂ صحت رجسٹریشن کے ایک نظام کے تحت تمام رُکن ممالک سے خودکُشیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے، لیکن پاکستان میں باقاعدہ مانیٹرنگ کا نظام نہ ہونے کے باعث ادارے کو ناقص اور ناکافی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘
اسماء ہمایوں نے پاکستان میں جراثیم کُش، کیڑے مار ادویہ، گندم میں رکھی جانے والی زہریلی گولیوں کی سرِعام فروخت اور غیر قانونی اسلحے پر پابندیوں کی سفارش کی، کیوں کہ یہ خودکُشی کے لیے استعمال ہونے والے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔کراچی میں ہونے والی ایک ریسرچ ٹھوس بنیادوں پر استوار ہے، جس کے نتائج جنوری 2023 ء کے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس میں شائع ہوئے۔ تحقیق کے شرکاء نے کراچی کے چار انگریزی اخبارات میں خودکُشیوں سے متعلق2019 ء سے 2020 ء تک شائع ہونے والی خبروں کا تجزیہ کیا۔ زیرِ مطالعہ عرصے کے دَوران خودکُشی کے289واقعات رونما ہوئے۔
ریسرچ کے مطابق، اِس عرصے کے دَوران خودکُشی کرنے والوں میں51فی صد مرد اور48فی صد عورتیں تھیں۔خودکُشی کے لیے جو طریقے اختیار کیے گئے، اُن میں کیڑے مار ادویہ، گندم میں رکھی جانے والی زہریلی گولیوں، بلیچ ایسڈ، خواب آور، چوہے مار گولیوں، کالے پتھر کے استعمال سے لے کر پنکھے کے ساتھ لٹک کے، اسلحے کے ذریعے، دریا میں چھلانگ لگا کے اور ریل کی پٹری پر لیٹ کے موت کو گلے لگانے جیسے ذرائع شامل تھے۔اِن خود کُشیوں کے جو محرّکات سامنے آئے، اُن میں گھریلو جھگڑے، مالی تنگ دستی، بے روزگاری، طویل بیماری، امتحان یا محبّت میں ناکامی، پڑھائی کا دبائو، نازیبا ویڈیوز، بلیک میلنگ اور ڈیپریشن جیسے عوامل نمایاں تھے۔
اس رپورٹ میں پب جی گیمز جیسی تشدّد آمیز ویڈیوز کو بھی خودکُشی کا رجحان پیدا کرنے کا ایک سبب قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ معاشرے میں خودکُشی کے واقعات روکنے کے لیے ایک طویل المدّتی پلان کی ضرورت ہے، جس میں ایسے واقعات کی مانیٹرنگ، خودکُشی کا رجحان رکھنے والے مرد و خواتین کی نفسیاتی کاؤنسلنگ، ذہنی بحالی سینٹرز کا قیام، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ، طلاقوں اور خانگی تنازعات کے حل کے لیے یونین کاؤنسل کی سطح پر پنچائتوں کا قیام، مستحکم خاندانی نظام کا احیاء، سوشل میڈیا کے لیے حدود و قیود کا تعیّن اور دوسرے اقدامات شامل ہوں۔
اِس سلسلے میں والدین پر خصوصی ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنی اولاد کے رویّوں میں کسی قسم کی غیر معمولی تبدیلی دیکھیں، تو اُن پر گہری نظر رکھیں یا کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کریں۔ آج کل کے بیش تر والدین، جو روزی روٹی کے چکر میں دن رات کولھو کے بیل کی طرح جُٹے ہوئے ہیں، وہ فیملی کو بھی پورا وقت دیں اور اُنہیں تنہا نہ چھوڑیں۔ اِس سلسلے میں والدین اور اساتذہ میں بھرپور رابطہ بھی ہونا چاہیے۔
ماہرینِ نفسیات اگرچہ گاہے بگاہے خودکُشی کے محرّکات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ حُکم رانوں نے کبھی اِس بات پر توجّہ نہیں دی اور اُن کی خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسی خبریں قومی میڈیا پر زیادہ اُجاگر نہ کی جائیں، کیوں کہ خودکُشی کے واقعات عمومی طور پر معاشرے میں بے چینی، بے حسی اور محرومیوں کی ایک بھیانک علامت سمجھے جاتے ہیں۔
خودکُشی کرنے والا دنیا سے جاتے وقت اپنے اہلِ خانہ اور ریاست کے لیے درجنوں ایسے سوالات چھوڑ جاتا ہے، جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ وہ اپنے گھر ہی میں خود کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیتا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اُسے اِس تختۂ دار تک لے جانے والا جلّاد کون ہے؟ حکومت، والدین، معاشرہ یا وہ خود…
’’خودکُشی ایک فرد کی نہیں، پورے معاشرے کی موت ہے‘‘ڈاکٹر امجد ثاقب
معروف دانش وَر اور فلاحی تنظیم ’’اخوّت‘‘ کے چیئرمین، ڈاکٹر امجد ثاقب کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’کسی ایک فرد کی خودکُشی، صرف اُس ایک شخص کی موت نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی موت ہے، جس کے ہم سب برابر کے مجرم ہیں۔ آخر ہم نے کیوں نہیں دیکھا کہ ایک شخص دل گرفتہ ہے، اُس کے سر پر چھت نہیں ہے، وہ بیمار ہے، قرص اُتارنے کی سکت نہیں رکھتا۔
آخر ایک کھاتے پیتے خاندان کو کیوں علم نہیں کہ اُس کے محلّے یا اُس کے ہم سائے کے بچّے کئی روز سے بھوکے ہیں اور بے روزگار خاندان کا سربراہ اُنہیں کھانا نہیں دے سکتا۔ ہمارے ہاںہر سال 4،5، سو ارب روپے خیرات کیے جاتے ہیں، لیکن مؤثر نظام نہ ہونے کے باعث یہ اُن سفید پوشوں تک نہیں پہنچتے، جو شرم کے مارے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔‘‘ ڈاکٹر امجد ثاقب نے مزید کہا کہ’’ خودکُشیوں کی درجنوں وجوہ ہو سکتی ہیں، لیکن اگر غور کریں، تو اِس خطّے میں 80فی صد سے زائد ایسے واقعات کے پسِ پردہ مالی تنگ دستی، غربت، محرومیاں اور ناانصافیاں ہی ہیں۔ میرے نزدیک اِس کا حل مشکل نہیں ہے۔
آپ مُلکی سطح پر بینک کی طرز پر کام کرنے والا’’صدقات فنڈ‘‘ قائم کردیں، جس میں لوگ دل کھول کر عطیات دیں۔ اس فنڈ سے غریب و نادار لوگوں، بے روزگاروں، مقروضوں، علاج معالجہ نہ کروا سکنے والوں اور کاروبار کرنے والوں کو بلا سود قرض دیں، جنہیں وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے بعد اُتار سکیں۔ ہماری تنظیم ایسے لاکھوں افراد کو غربت سے نکال کر اپنے پاؤں پر کھڑا کر چُکی ہے۔
ہمارے ہاں جتنی ناانصافیاں اور محرومیاں ہیں، وہ آسمان سے نازل نہیں ہوئیں، بلکہ ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں اور اس کا مداوا بھی ہم نے ہی کرنا ہے۔میرے خیال میں تو خودکُشی سے مرنے والے شخص کی موت کی فردِ جرم ہر اُس شخص پر لگتی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے وسائل دے رکھے ہیں، وہ صاحبِ ثروت ہے۔ ہمیں آخرت میں اس کا حساب بھی دینا پڑے گا کہ کسی شخص نے ہمارے سامنے کیوں اور کیسے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔‘‘
کالا پتھر… سستی موت
اپنی زندگی سے تنگ لوگوں نے اگرچہ خود کو ختم کرنے کے درجنوں طریقے اختیار کیے، تاہم بعض طریقے ایسے ہیں، جو دوسروں کو کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ان طریقوں میں سے ایک کالا پتھر کھانے یا پانی میں ملا کر پینا ہے، جو 2010ء کی دہائی میں سنسنی خیز خبروں کا عنوان بن گیا۔ کالے پتھر سے خودکُشی کے 80فی صد واقعات ضلع ڈیرہ غازی خان، ملتان اور مظفّر گڑھ میں ہوئے، جہاں 2010ء سے 2015ء تک تین سو سے زائد افراد نے کالا پتھر استعمال کر کے خودکُشی کی۔
ڈیرہ غازی خان اور دیگر اضلاع میں غربت کے شکار مرد و خواتین میں خودکُشی کا سب سے سستا اور آسان طریقہ یہی تھا۔ یہ پتھر پنساریوں اور پرچون فروشوں کے ہاں صرف 10سے 20روپے میں عام دست یاب تھا۔یاد رہے، کالا پتھر پینے یا کھانے سے جسم کی رگیں پھول جاتی ہیں اور سانس رُک جاتا ہے۔ اگر دس، پندرہ منٹس میں ابتدائی طبّی امداد نہ ملے، تو انسان مر جاتا ہے۔ یہ پتھر بالوں کو رنگنے کے لیے بھی ایک کیمیاوی جزو کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
ڈیرہ غازی خان ٹیچنگ اسپتال کے ذرائع کے مطابق 2018ء میں 56افراد نے یہ پتّھر کھا کر خودکُشی کی، جب کہ 46افراد کو بروقت طبّی امداد دے کر بچا لیا گیا۔ ڈاکٹر ابرار حسین نے اُس وقت میڈیا کو بتایا کہ 2013ء سے 2018ء تک 2سو سے زائد افراد نے یہ پتّھر کھا کر خودکُشی کی، جب کہ 286افراد کو بچا لیا گیا۔ خودکُشی کرنے والوں میں شادی شدہ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی، جنہوں نے گھریلو جھگڑوں، غربت اور بیماری سے تنگ آکر یہ قدم اُٹھایا تھا۔ اُس وقت اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان کو خط لکھا کہ اس زہریلے کیمیکل کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔
حکومتِ پنجاب کے اقدامات سے عارضی طور پر اِس کی کھلے عام فروخت رُک گئی، لیکن چوری چُھپے پھر بھی دست یاب تھا۔ 2018ء کے بعد کالا پتّھر بالوں کو رنگنے والی مقامی کمپنیز کے تیار کردہ ہیئر کلرز میں علیٰحدہ ایک ساشے کے طور پر فروخت ہونے لگا۔ جنوبی پنجاب میں اگرچہ اس کی سرعام فروخت رُک گئی ہے، لیکن درونِ خانہ یہ منہدی میں ملا کر بالوں کو رنگنے کے طور پر اب بھی استعمال ہو رہا ہے اور کبھی کبھار خودکُشی کے لیے سستی موت کی خبروں کا موجب بن جاتا ہے۔
کالا پتّھر نیپال اور بھارت کے ہمالیائی سلسلے میں پیدا ہوتا ہے۔ بیش تر ایشیائی اور افریقی ممالک اسے درآمد کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ پتھر پاکستان کے علاوہ بھارت، نیپال اور بعض افریقی ممالک میں خودکُشی کے 60فی صد واقعات کا سبب بنتا ہے۔یاد رہے، سفید رنگ کا یہ پتھر سورج کی روشنی میں سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔نیز، یورپ اور کئی دوسرے ممالک میں اس کی فروخت پر پابندی عائد ہے۔
’’فیملی سپورٹ سسٹم ختم ہوچُکا، اب ہر شخص تنہا ہے‘‘ڈاکٹر ثناء سعد
چیف کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ جناح اسپتال، لاہور، ڈاکٹر ثناء سعد کا خود کُشیوں کی بڑھتی تعداد کے ضمن میں کہنا ہے کہ’’ ہمارے معاشرے میں جس تیزی سے خودکُشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ماہرینِ نفسیات کے لیے حد درجہ پریشان کُن ہیں۔ آج ہی کے اخبارات میں خودکُشی کے 5واقعات (صرف پنجاب میں)رپورٹ ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ بدلتی اقدار ہیں۔ مادیت پرستی عروج پر ہے۔
بیوی بچّوں کا پیٹ پالنے کے لیے ہر شخص رات دن چرخا بنا ہوا ہے۔ ایسے میں ایک طرف تو فرسٹریشن بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف، اخلاقی اقدار ماند پڑ گئی ہیں۔ میرے نزدیک خودکُشی کی ایک بڑی وجہ فیملی سپورٹ سسٹم کا فقدان بھی ہے۔ پہلے زمانے میں اگر کوئی شخص کسی مسئلے سے دو چار ہوتا، تو فیملی کے بزرگ اُسے حل کر لیتے تھے، لیکن اب تو ہر شخص تنہا ہو گیا ہے، کوئی کسی کا دُکھ بانٹنے کو تیار ہی نہیں اور جب ایک شخص خُود کو تنہا، لاچار اور بے بس محسوس کرتا ہے، تو پھر خُود کو ختم کر لیتا ہے، کیوں کہ اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
مَیں نے خودکُشی کرنے والے افراد کے لواحقین سے بات کی، تو پتا چلا کہ بیش تر مرنے والے شدید ذہنی کش مکش کا شکار تھے اور اُن کے مسائل سُننے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں تھا۔ اگر بروقت اُن کے آنسو پونچھے جاتے، تو اُن کی جان بچ سکتی تھی۔ ماضی میں لوگوں کا مذہب پر ایمان و اعتقاد مضبوط ہوتا تھا اور بالآخر اُنہیں مذہب میں سکون مل جاتا تھا۔ مَیں یہ نہیں کہہ رہی کہ اب ایسا نہیں ہے۔
اب بھی لوگ مذہبی ہیں، لیکن اکثریت مذہب سے دُوری کا شکار ہے، جس سے وہ اللہ پر توکّل، تحمّل، صبر، ذہنی سکون اور قناعت پسندی جیسی صفات سے محروم ہو گئے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ پر یقین و اعتماد سے بھرپور لوگ اچھے، بُرے ہر قسم کے حالات میں اللہ کا شُکر بجا لاتے ہیں۔خودکُشی کی ایک اور بڑی وجہ مالی بحران، غربت اور بے روزگاری ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی تک مشکل ہو گئی ہے۔ اس سے لوگوں میں اسٹریس پیدا ہو رہا ہے، جو معاشرے یا گھر سے کسی قسم کی سپورٹ نہ ملنے سے ذہنی مرض میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
مَیں والدین اور نوجوانوں سے گزارش کرنا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے مسائل گھر ہی میں ڈسکس کر کے اُن کا کوئی حل تلاش کریں۔ ہمارے یہاں تو ماہرینِ نفسیات کے پاس جانا ویسے ہی معیوب سمجھا جاتا ہے کہ ان پر ’’پاگل پن‘‘ کا لیبل لگ جاتا ہے، حالاں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اِس دنیا میں کون سا شخص ایسا ہے، جسے ذہنی مسائل پیش نہ آتے ہوں۔ ماہرِ نفسیات کا کام اُن پر مرہم رکھنا ہے، تو اُن سے رجوع کرنے میں کوئی شرم یا جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
کیپشن: حالات سے دل برداشتہ شخص خود کشی کے لیے بجلی کے پول پر چڑھ گیا، جسے بعدازاں نیچے اُتار لیا گیا