(گزشتہ سے پیوستہ)
اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بھاجپائی ) کا دوتہائی اکثریتی اور متضاد جماعتی سیاسی اتحاد سہارے دو مرتبہ منتخب اقتدار میں آنے سے، بھارت کا دنیا میں سیکولر جمہوریہ ہونے کا تشخص اور دعویٰ بری طرح متاثر تو ہوا خصوصاً اقلیتوں کو مذہبی آزادی کے حوالے سے تو بھارتی ریاستی کردار کو بھی بڑا ڈینٹ لگاجس سے اس کی آئینی پریکٹس اور داخلی سلامتی کا درجہ بھی کم تر ہو چکا ہے لیکن منتخب حکومتوں کے قیام کے تسلسل اور انتخابی عمل پر عوامی درجے میں کوئی کمی ہی نہیں آئی بلکہ پہلے مودی رجیم میں فاشسٹ طرز حکومت سائنٹفک تجزیہ بھارتی حکومت اور اکثریتی سماجی رویے کے آئین سے متصادم اور عملاً قبولیت دونوں کو بے نقاب اور واضح کرتا ہے یوں پاکستان (اب بنگلہ دیش بھی )کے مقابل بھی بہت واضح اور مستقبل کے حوالے سے اطمینان بخش ہے گمان غالب ہے کہ مودی کے موجود ’’محدود اقتدار‘‘ کی آئینی تکمیل کے بعد اگلے الیکشن 28کے نتائج بھارت کے مستقبل بعید اور قوم کے اگلے روڈمیپ کا پتہ دیں گے۔اس پس منظر میں پاکستان کا قیام اور موجود وجود کا مطالعہ و تحقیق اور سائنسی بنیاد پر مستقبل بینی ہماری بے حد اہم اور حساس یقینی ترجیحی قومی ضرورت بن کر مکمل واضح ہوئی ہے ۔فکر یہ ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے سے ریاست اور عوام کا اصل پوٹینشل حصہ جس کا یہ اصلاً اور فطرتاً کام ہے مکمل نااہل اور غافل ہے تاہم بہت اطمینان بخش ہے کہ پاکستان کے پیپلز ایٹ لارج قومی تاریخ کے اس نازک مرحلے میں خبردار، ہوشیار اور اپنے بڑھتے سیاسی شعور و سکت کے حوالے مکمل صراط مستقیم پر ہیں۔حیرت ہے کہ بڑے سنگین نظام بد میں عشروں سے جکڑے پکڑے پاکستانی عوام تعلیم کی کمی سخت اقتصادی مشکلات اور بدترین سماجی انصاف اور ریاستی ظلم وجبر اور غفلت و نااہلیت کے غلبے کے باوجود اشرف مخلوق ہونے کا ثبوت موجود گھمبیر بحران میں دے رہے ہیں۔ ہوشیار !بڑی تعداد میں جملہ ملکوں کی نظریں پاکستان کے حال پر لگی ہیں اور وہ اپنے مفادات کی خاطر ہمارے ملکی قومی مستقبل کے اندازے بڑے تواتر اور مصلحت و خاموشی سے لگا رہے ہیں غفلت، بے خبری اور نااہلی (ہمارے حوالے سے ) ہے تو وہ پاکستان کی اندرونی جغرافیائی حدود میں ہی ہے عوام کا فقط شعور اور بیداری ہی بلند درجے تک نہیں آ گئی ان کا قومی عمل صبر جمیل میں تبدیل ہوتا عزم صمیم میں تبدیل ہو گیا اور عزم عمل میں اس کا ثبوت انہوں نے جس باوقار طریقے سے موجود گلاسڑانظام تشکیل دینے والے ریاستی کرداروں اور موجود بیمار ریاستی ڈھانچے کو 8فروری کے الیکشن میں دیا اور دنیا کو دکھایا یقیناً اب فقط یہ ہی پاکستان کو بحران سے نکالنے ، ذمے داری سے سنبھالنے اور معمول کے درجے پر بحالی کی امید ہے سو قیام پاکستان کی بڑی عظیم کامیابیوں اور ان کی اجارہ دار ریاستی قوتوں کے ہاتھوں بربادی کے باوجود متفقہ آئین کے حامل پاکستان کو بحران در بحران سے نکالنے کی امید زندہ و جاوید اور توانا ہے لیکن تمام تر مشکلات اور تنگ دستی کے باوجود عوام کے موجود قابل قدر رویہ اور تشخص کیساتھ (اٹھارویں ترمیم کے بعد) آئین کا حلیہ درست ہونے اسکی موجودگی کو فقط نہ سمجھا جائے انشااللہ یہ حرکت میں ہے رفتار کم اور نظام بد کی رکاوٹیں بے شمار اور طاقتور لیکن قوت اخوت عوام کی اپنی حقیقت ہے حقیقت کسی بھی منفی طاقت سے بڑھ کر اہم او ربالآخر نتیجہ خیز ہوتی ہے ۔قارئین کرام !حالات حاضرہ کی اس موجود ملکی صورتحال میں اب پاکستانی عوام ریاستی کرداروں اور اداروں خصوصاً نوجوان نسل پر اس تلخ و شیریں حقیقت کو ذہن نشیں کر لینا ہے کہ :پاکستان کی تاریخ دو متضاد حصوں میں واضح تقسیم ہو چکی ہے اب آئندہ نسلوں کیلئے یہ ہی ہماری پہلی صدی کی تاریخ ہو گی اگلی آنے والی جنریشن نے خود بنانی ہے لیکن ہمیں اس کی بنیاد بنانے موجود اور ظہورپذیر قومی ضرورتوں کو پورا کرتے تعمیرو وطن دفاع وطن اورتشخص پاکستان پر تو ہمیں ہر حال میں خبردار اور ہوشیار رہنا ہے۔ان تینوں موجود اور مکمل واضح مقاصد کے حصول کے ا بھی بھرپور مواقع اور صورت موجود ہونے کے باوجود ہماری مجموعی ریاستی غفلت اور نااہلی اور مقابل امیدوں کے مرکز و محور عوام کے اعلیٰ تشخص کے باوجود اس کی پکڑ اور جکڑ بھی مکمل بے نقاب و آشکار ہے۔ ریاستی ذہن تنگ و تاریخ اور قومی و عوامی کا روشن یا عملی اور واضح ارتقا کا عکاس ہے۔عوام اس پر کاربند رہیں کہ ہمارا بیمار ریاستی نظام بھی ’’قوت اخوت عوام ‘‘ اور ہماری ہی روشن تاریخ کا ٹوٹا ہوا تارا مانندہے جسے شرکے غلبے نے ہمارے (عوام کے) مقابل اپنا (شرکا) مغلوب کر دیا لیکن ملک تو نظام ریاست سے ہی چلانا ہے سو اسے اکھاڑ تو نہیں پھینکنا۔ آئینی، سیاسی اور بیلٹ کے انقلاب سے ہی آپریشن کرکے کہیں اوور ہالنگ اور سب سے بڑھ کر آئینی عمل تازہ ذہنی اور علوم کی رحمت و برکت سے شفاف بنانا اور حالت میں قائم رکھنا ہے روشن تاریخ کے پہلے باب سے اسے جوڑنا ہے ۔مطالعہ پاکستان اب بارہویں جماعت کے بچوں کو کورس کے طورہی نہیں پڑھانا پوری قوم کو مزدوروں و کسانوں اور تمام محنت کش معماران وطن سے لیکر ملکی ریاستی اداروں اور انکوچلانے،سنبھالنے اور بہتر سے بہتر بنانیوالے ذمے داران حلف برداروں کو قیام پاکستان کے روشن باب پڑھانے ہیں اور سیاہ وبربادی کے بھی۔ کانگریس کو مسلم لیگ کی سیاسی شکست فاش کی حقیقت بھی اور ملک میں عوامی ووٹ کو جوتی پر رکھنے اور ٹھکرانے کے نتائج کو بھی طریقے سلیقے سے تاریخ و موجود تنازعات اور لاحاصل کج بحثی اور شخصی بغض کو اتحاد و تنظیم میں ڈھالنا ہے ہمیں خطے کی تاریخ اور موجود صورتحال اور پاکستان کی پوزیشن کو بالغ عمر کے تمام شہریوں کے ہر درجے کو اسکی سطح کے مطابق ذہن نشین کرنا کرانا اور اسکے (ہر بالغ شہری) اس سے براہ راست تعلق کو بمطابق سنبھالنے کی مسلسل سعی حاصل کو اپنا قومی شیوہ بنانا ہے ۔یہ کام نئی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی بابت آسان اور موجود وسائل سے ہی انجام دینا ممکن ہو گیا ہے اس سے ڈرنا نہیں فائدہ اٹھانا ہے۔ یاد رہے اور دنیا پر واضح کرتے رہیں کہ پاکستان علمی و فکری اور نظری اینی شیٹوز اور عشروں کے طویل اور کامیابی در کامرانی کا حاصل ہے جسے قیام کے بعد ہی شر کے غلبے اور اس کو بڑھانے کے ڈیزاسٹر ریاستی اقدامات سے موجود حالت پر لایا گیا۔ عوام نے تو اپنا سیاسی سفر اور جدوجہد کا آغاز مدرسوں ،اسکولوں اور یونیورسٹی سے کیا ۔ قیام پاکستان کی اصل حقیقت یہ ہی ہے جو گورننس میں علم اور تشکیل حکومت کی فقط آئینی آپشن کا مکمل مصدقہ سبق ہے ’’پڑھ سکو توپڑھ لو‘‘ والی بات نہیں ہر حالت میں پڑھنا ہے ورنہ عوام پڑھائیں گے۔ وماعلینا الالبلاغ