کئی صدیوں تک مسلمانوں نے پوری دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ اس اقتدار کو قائم ودائم رکھنے میں اصل کردار قدیم اور جدید علوم وفنون میں مہارت تھی۔ بغداد، اندلس میں شاندار فن تعمیر کے نمونے آج تک موجود ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے۔ مغلیہ دور کی شاندار عمارات جس تخلیقی صلاحیت سے تعمیر کی گئیں، وہ دو چیزوں کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ پہلی فن تعمیر کی تفصیلی مہارت جس میں جیومیٹری، فزکس، کیمسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال وضع کرنے تک کے علوم شامل ہوتے ہیں۔ دوسری کسی ملک کی مضبوط معاشی اور اقتصادی حالت ہے۔ جو اس قدر مضبوط ہو کہ وہاں کے حکمران شاندار عمارات تعمیر کرنے کا خرچ برداشت کر سکیں۔ فن تعمیر کی جو تفصیل تاج محل، شیش محل، شالامار باغ، مقبرہ ہمایوں، دیوان خاص میں نظر آتی ہے اس سے لگتا ہے انکے معمار جیومیٹری کے علم کی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے تھے۔ تاج محل کے چاروں مینار صرف آدھا انچ باہر کی جانب جھکائے گئے تاکہ زلزلے کی صورت میں گریں تو گنبد تباہ نہ ہوں۔ مستری کی اینٹیں لگانے سے یہ سب ممکن نہیں۔ پورا تاج محل نوّے فٹ گہری بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اسکے نیچے تیس فٹ ریت ڈالی گئی۔ اگر زلزلہ آئے تو پوری عمارت ریت میں گھوم سی جائے اور محفوظ رہے۔ ’’ٹائل موزیک‘‘ ایک فن ہے، جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین ٹائلوں سے دیوار پر تصویریں بنائی جاتیں، دیوار کو منقش کیا جاتا ہے۔ یہ فن لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کلومیٹر لمبی منقش دیوار اور مسجد وزیر خان میں نظر آتا ہے۔ ان میں جو رنگ استعمال ہوئے، انہیں بنانے کے لئے موجودہ دور میں پڑھائی جانے والی کیمسٹری کا وسیع علم ہونا ضروری ہے۔ مغلیہ فن تعمیر کا مکمل علم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ دور کے سائنسی پیمانوں پر ایک نصاب کی صورت تشکیل دیا جائے تو صرف اس فن تعمیر کو مکمل طور پر سیکھنے کیلئے ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ مسلمان بیک جنبش قلم ’’جاہل، اجڈ اور گنوار‘‘ گردانے گئے۔ برصغیر میں یہ ظلم لارڈ میکالے نے کیا۔ اس نے 1833ء میں برصغیر کا سفر کیا۔ وہ بیوی کیساتھ سیاح کے روپ میں ہندوستان آیا۔ برصغیر کے چپے چپے پر گیا، لوگوں سے ملا، مسلمانوں کے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا، انکا طرزِ زندگی دیکھا، انکی اقدار، معاشرت، رہن سہن اور طور طریقے پر ریسرچ کی۔ مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں سے ملا۔ انکے انٹرویوز کئے۔ وہ برصغیر میں یہ دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا کہ مسلمانوں میں شرح خواندگی تقریباً 90فیصد ہے۔ باقی دس فیصد بھی ضروری دینی وعصری تعلیمات اور اسکے تقاضوں سے آگاہ تھے۔ وہ تین سال تک گھوما پھرا۔
رپورٹ تیار کی اور واپس انگلستان چلا گیا۔ 1935ء کی دوپہر اس نے برٹش ارکانِ پارلیمنٹ کے سامنے وہ رپورٹ پڑھی۔ اس رپورٹ کی کاپی آج بھی اورینٹل کالج لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ اس نے لکھا ’’میں نے پورے ہندوستان کا سفر کیا ہے اس سفر کے دوران کئی حیرت انگیز انکشافات ہوئے۔ میں نے ایک بھی بھکاری نہیں دیکھا، چوری ڈاکے کا تصور نہیں ہے، یہ علاقہ دولت سے لبالب بھرا پڑا ہے۔ اس کیساتھ ہی مسلمان معاشرہ اخلاقی لحاظ سے بھی مالا مال ہے۔ یہ وسیع الظّرف ہیں، یہاں کے لوگ ذہین فطین اور قابل ہیں۔ شرح خواندگی 90فیصد سے زیادہ ہے‘‘۔ اسی طرح مشہور مورخ ’’ول ڈیورنٹ‘‘ جو مغربی دنیا کا ’’امام‘‘ ہے، وہ مغل ہندوستان کے بارے میں کہتا ہے ’’برصغیر کے ہر گاؤں میں ایک اسکول ماسٹر ہوتا تھا، جسے حکومت تنخواہ دیتی تھی۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے صرف بنگال میں 80ہزار اسکول تھے۔ ان اسکولوں میں پانچ مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ گرامر، آرٹس اینڈ کرافٹس، طب، فلسفہ، منطق‘‘۔ مغلوں کے زمانے میں صرف مدراس کے علاقے میں ایک لاکھ 25ہزار ایسے ادارے تھے جہاں طبی علم پڑھایا اور طبی سہولتیں میسر تھیں‘‘۔1911 میں ایک رپورٹ مرتب کی گئیجو آج بھی لاہور کے انارکلی مقبرے میں موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ برصغیر کے ہر ضلع میں شرح خواندگی 80فیصد سے زیادہ تھی لیکن جب انگریز یہ ملک چھوڑ کر گیا تو یہی شرح دس فیصد تھی۔ بنگال 1757ء میں فتح کیا گیا۔ اگلے 34برسوں میں مسلمانوں کے سبھی اسکول اور کالج کھنڈر بنا دیئے گئے پھر اس ملک کو تباہ کرنے کیلئے لارڈ کارنیوالیس نے1781ء میں پہلا مدرسہ کھولا۔ اس سے پہلے دینی اور دنیاوی مدرسے کی کوئی تقسیم نہ تھی۔ ایک ہی مدرسے میں قرآن بھی پڑھایا جاتا تھا، سائنس اور فلسفہ بھی۔ حاصل یہ جب تک مسلم دنیا علوم وفنون میں آگے تھی، تب تک وہ دنیا کی قیادت کر رہی تھی، ہر میدان میں کامیابی حاصل کر رہی تھی لیکن جب یہ عیش وعشرت اور تعیشات میں مبتلا ہوگئے علوم وفنون کی سرپرستی چھوڑ دی تو آہستہ آہستہ پیچھے ہو گئے۔ آج عالم اسلام کی تعلیمی حالت تو یہ ہے کہ دنیا کی 200بہترین یونیورسٹیز میں عالم اسلام کی کسی ایک بھی یونیورسٹی کا نام شامل نہیں۔ تین سال پہلے ملائیشیا کی ایک یونیورسٹی شامل تھی۔ اس سال اسکا نام بھی خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے اب عالم اسلام اور اسکے حکمرانوں نے تعلیم اور جدید علوم وفنون کی طرف توجہ دینا شروع کردی ہے۔ مدینہ یونیورسٹی نے بھی قدیم علوم کیساتھ ساتھ عصر حاضر اور دور جدید کی تعلیم سے بہرہ مند کرانے کا بیڑا اْٹھایا ہوا ہے۔ اسی طرح ملائیشیا، مصر، پاکستان اور دیگر ممالک میں بھی کوششیں جاری ہیں۔ جدید علوم وفنون کی طرف پھر سے توجہ دی جانے لگی ہے۔ مسلمان اگر نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہیں تو انہیں طاقت وقوت کیساتھ علم وآگہی کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوانا ہوگا۔