سینئر صحافی اور تجزیہ کار اعزاز سید نے کہا ہے کہ بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری سے متعلق اہم اشارے مل گئے۔ دونوں کے درمیان تیسرے فرد کے ذریعے رابطہ تھا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں میزبان شاہ زیب خانزادہ نے اعزاز سید سے استفسار کیا کہ شروع میں عمران خان لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری سے متعلق بڑا خوش کن بیان دیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اس گرفتاری سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کے بعد بانی پی ٹی آئی نے اپنے ملٹری کورٹ ٹرائل کا خدشہ ظاہر کیا اور اب سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا معاملہ فیض حمید کے ساتھیوں سے عمران خان کی طرف جارہا ہے؟ جس کی تپش وہ محسوس کر رہے ہیں؟
اس پر اعزاز سید نے کہا کہ عمران خان کو اشارے مل گئے ہیں کہ وہ فیض حمید کی گرفتاری سے اس سارے معاملے سے جڑ رہے ہیں، اس سارے معاملے کی ٹائم لائن اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ذرائع نے بتایا کہ عمران خان اور فیض حمید کے درمیان تیسرے فرد کے ذریعے رابطہ تھا، جو جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے۔
پروگرام کے میزبان نے استفسار کیا کہ کیا شواہد ملے ہیں کہ فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن کا عمران خان سے رابطہ تھا؟
سینئر صحافی نے کہا کہ ’جی ایسے شواہد ملے ہیں، جو دونوں کے درمیان رابطے، تعلق اور پیغام رسانی کو اسٹیبلش کرتے ہیں، عمران خان کی موجودہ صورتحال کے باعث یہ رابطہ براہ راست نوعیت کا نہیں تھا بلکہ ان ڈائریکٹ تھا، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان میں باہمی اعتماد اتنا تھا کہ یہ دوسرے کو مشورے بھی دیتے تھے، زیادہ مشورے عمران خان کو ملتے تھے۔‘
شاہزیب خانزاہ نے سوال کیا کہ آج عمران خان نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل کس کام کا؟ کوئی بےوقوف ہی ہوگا جو رابطہ کرے گا۔
اعزاز سید نے کہا کہ ’عمران خان کا بیان اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنرل فیض حمید حساس ادارے کے سربراہ تھے، اُن کے پاس ایسی معلومات تھیں بلکہ بات یوں ہے کہ اُن کے پاس معلومات کا سمندر ہے، جو کہتے ہیں ناں زندہ ہاتھی لاکھ کا مرا ہوا سوا لاکھ کا ہوتا ہے، وہ حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے تھے، اُن کے پاس ملکی سیاست، خطے کی صورتحال اور چیزوں کو مانیٹر کرنے کی آئی ایس آئی کی صلاحیت سے متعلق تفصیل موجود تھی، جب آپ کے پاس سسٹم کی پوری تفصیل ہو تو آپ نظام کو بریک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، فیض حمید کے پاس ملکی سیاست کے ساتھ ادارے کی پوری معلومات تھی، لہذا اُن کے پاس پوری استعداد تھی کہ سسٹم کو ڈاج کرکے، جن سے وہ رابطے رکھنا چاہتے ہیں وہ رکھیں جو انہوں نے رکھے بھی، شواہد تو یہی بتاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہاں پر ایک بات بڑی اہم ہے کہ فیض حمید کی طرف سے اب تک کوئی بات سامنے نہیں آرہی ہے، میں نے ذاتی طور پر اُن کی فیملی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اُن کا موقف جاننا چاہا اگر وہ دینا چاہیں کیونکہ ابھی تک میڈیا پر جو کہانی چل رہی ہے، وہ تو یکطرفہ ٹریفک کی طرح ہے کہ ایک پریس ریلیز آگئی ہے، جس پر میڈیا پرسنز بات کر رہے ہیں یوں ایک ہی بندہ ٹارگٹ ہو رہا ہے، جو پاور میں تھا تو یہ لوگ اُس سے ہاتھ ملاتے تھکتے نہیں تھے، لیکن اب ہمارے ساتھی اپنی اپنی کہانی لیتے ہیں، اس دوران صرف ایک صاحب کی فیض حمید کے ساتھ مخاصمت رہی اور اُنہوں نے مزاحمت بھی کی، وہ ابصار عالم تھے، اُن کے ساتھ جو ہوا وہ ہم جانتے ہیں۔‘
میزبان نے استفسار کیا کہ آپ نے ذرائع سے رپورٹ کیا کہ جنرل باجوہ اس بات کو مسترد کر رہے ہیں کہ جنرل فیض کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو بھی سرگرمی تھی، اُس میں وہ ملوث تھے۔
اعزاز سید نے کہا کہ ’جنرل باجوہ کے قریب ذرائع اس بات کی تردید کرتے ہیں، بعض ذرائع نے تو یہ بھی بتایا کہ جنرل فیض حمید کی 8 فروری کے الیکشن کے بعد ماہ فروری میں صرف ایک ملاقات ہوئی، جس کے بعد دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا، لیکن وقتاً فوقتاً فیض حمید ہی خیر سگالی کے پیغامات بھیجتے رہے ہیں لیکن دونوں کے درمیان کوئی تفصیلی گفتگو نہیں ہوئی۔‘