• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا سیاسی حمام میں کوئی ملبوس نہیں؟

یہ درست ہے کہ حکومت حسب معمول چل رہی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام مفقودہے۔ جو حال ہم نے آئین، جمہوریت کا کیا وہی کچھ ہم نے سیاسست کے ساتھ بھی کیا، اگر سیاسی استحکام ہو تو جمہوریت پھلتی پھولتی ہے اور معیشت بھی ترقی کرتی ہے اور امن و امان کی پوزیشن بھی مستحکم رہتی ہے۔ آج سیاست ہر سیاستدان ہی کے گرد گھومتی ہے، سیاسی پارٹیوں کوبھی لالچ نے یکجان بنا رکھا ہے، بصورت دیگر شاید کوئی سیاست کا رخ بھی نہ کرتا، جوبھی اقتدار میں آتا ہے حریفوں کی پکڑ دھکڑ شروع کردیتا ہے، اکانومی اور معاشرت کی ترقی کے کام کاغذات تک محدود رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ ہر دور میں جاری رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نقطہ آغاز سے آگے نہیں بڑھ پاتے، کیا یہ سیاست ہے کہ کے پی کے گورنر کہتے ہیں پی ٹی آئی کو 8ستمبر کا جلسہ بھی نہیں کرنے دیں گے اور کیا یہ سیاست ہے کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ نے جلسہ منسوخ ہونے پر کارکنوں میں 5،5 ہزار روپے تقسیم کئے،سیاست کے نام پر ذاتی خواہشات کی تکمیل عام ہوتی جا رہی ہے، پارلیمنٹ ہائوس جہاں سیاستدان نہایت سکون سے سیاست کرتے ہیں، قانون سازی کی جاتی ہے وہاں بلی کے سائز کے چوہوں کے خاتمے کے لئے بلیاں بھرتی کی جارہی ہیں، پارلیمانی چوہے چوہوں کی اشرافیہ ہےبھلا وہ کب بلیوں کے قابو میں آسکتے ہیں۔ آخر یہ چوہے پارلیمینٹرینز کے ہوتے ہوئے نہ جانے کب سے قومی اسمبلی میں پلتے رہے ہیں، یہ چوہے بھی گویا کچے کے ڈاکو ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے، الغرض حمامِ سیاست میں جس وکھری ٹائپ کی سیاست ہو رہی ہے وہ قوم کی شیو ہی کرسکتی ہے۔ پگڑی زیب سر کئے ہوئے کے پی کے وزیر اعلیٰ کا گیٹ اپ ثقافتی تو ہو سکتا ہے سیاسی نہیں، ہمارے ہاں سیاست کا معیار اس قدر گر چکا ہے کہ اسے ’’میکاولین‘‘ سیاست بھی نہیں کہا جاسکتا، آئی ایم ایف والے بھی چوکنے ہوگئے ہیں وہ حیران ہیں کہ وہ قرضہ در قرضہ دیتے ہیں مگر کام نظر نہیں آتا، آخر پیسہ جاتا کہاں ہے، ان کو کیا معلوم کہ ہمارا سیاسی نظام بہت پیٹرول پیتا ہے۔

٭٭٭٭

ختم نبوت جزو ایمان ہے

سپریم کورٹ قابل صد تحسین ہے کہ اپنے فیصلے میں سے قابل اعتراض پیرا گراف نکال دیئے، صد شکر کہ ملت اسلامیہ ختم نبوت پر یکجان ہے، قادیانیت کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ وہ ایک الگ مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ان کی کتابوں میں واضح لکھا ہوا ہے کہ جو غلام احمد قادیانی کونبی نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ قادیانی ہماری صفوں میں گھسے ہوئے ہیں اس لئے ان سے چوکنا رہنا چاہیے۔ اگر ہم ان کے لٹریچر سے قابل اعتراض مواد کے نمونے پیش کریں تو سینکڑوں صفحات بھر جائیں،یہ اغیار کا لگایا ہوا پودا ہے تاکہ امت مسلمہ میں تفرقہ پیدا کیا جائے یہ تو ہمارے علما کرام نے بروقت ان کا نوٹس لیا اور آئین میں لکھ دیا گیا ہے کہ قادیانیت اقلیت ہے، اور ان کو انسانی حقوق صرف اس صورت میں مل سکتے ہیں کہ وہ خود کو اقلیت تسلیم کریں یا اسلام قبول کرلیں، ختم نبوت کے بارے میں خود رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ میرے آخری نبیؐ ہونے کی مثال ایسے ہے کہ جیسے ایک شخص مکان تعمیر کرائے اور مکمل ہونے پر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے اور پھر اس میں آخری اینٹ بھی لگا دے اور عمارت مکمل ہو جائے اور وہ آخری اینٹ میں ہوں، کسی مسلمان کا ایمان سید الکونینؐ کو اللہ کے آخری نبیؐ اور رسولؐ مانےبغیر مکمل نہیں ہوسکتا، تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہےکہ ختم نبوت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے، اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں سے قابل اعتراض پیرےحذف نہ کرتی تو کل کلاں اس کو قادیانیت کے حق میں بطور دلیل پیش کیا جاتا، سپریم کورٹ کو اپنی غلطی کا بروقت احساس ہوگیا اور اس نے دونوں پیرا گراف حذف کرنے میں دیر نہیںلگائی، مولانا ظفر علی خان نے برحق کہا تھا:

نہ جب تک کٹ مروں، میں خواجۂ یثرب کی حرمت پر

خدا شاہد ہے،کامل میرا ایماںہو نہیں سکتا

٭٭٭٭

شیر و شکر

بلاول بھٹواور شہباز شریف کی ملاقات، دونوں اتحادی جماعتیں شیروشکر ہوگئیں۔ شیر کا مطلب دودھ اور شکر کا سب کو پتہ، یہ دونوں جب مل جائیںتو شیر باقی رہ جاتا ہے اور شکر اس میں حل ہو کر غائب ہو جاتی ہے، قارئین سمجھ دار ہیں خود ہی اندازہ لگا لیں کہ دونوں جماعتوں میں سے شیر کونسی ہے اور شکر کونسی۔ جب ن لیگ اور پیپلز پارٹی شیر وشکر ہوگئیں تو حزب اختلاف باقی نہ رہی، پی ٹی آئی حزب اختلاف کا کردار ادا کرسکتی تھی مگر اسے مقدمے بھگتنے سے فرصت نہیں ملتی گویا وہ بقول غالب: ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ ہوگئی۔ پیپلز پارٹی بھولی بھالی ہے ن لیگ چالاک ہے اپنی حکومت بنا لی، پیپلز پارٹی حکومت میں نمک کےبرابر موجود ہے، مگر نمک بھی آخر گل جاتا ہے، یہ تو اچھا ہوا کہ طوعاً و کرہاً دونوں حریف جماعتیں حلیف بن گئیں ورنہ حکومت نہ بن پاتی، اب شیر وشکر ہونے کےباعث پیپلز پارٹی ہر چند حکومت میں نظر نہ آئے لیکن اس کے تحفظات برقرار ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ شکر کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، چونکہ ہماری سیاست میں حزب اختلاف بھی تقریباً ڈمی ہوتی ہے، اس لئے دونوں جماعتیں شیروشکر ہوگئیں، پی ٹی آئی اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے میں بڑی ماہر ہے یہی وجہ ہے کہ بڑی جماعت ہونے کےباوجود دکھائی سجھائی نہیں دیتی، پی ٹی آئی غلطیاں بہت کرتی ہے اور یہی غلطیاں اس کی گردن کی گلٹیاںبن گئیں، اس کا مستقبل بھی اس نے خود ہی کسی نامعلوم جگہ پر دفن کردیا، اگر غلطیاں نہ کرتی تو آج آزادانہ کسی نہ کسی طرف موجود ہوتی، ایک لحاظ سے شیر وشکر ہونے کا فائدہ پی پی کو یہ ہوا کہ لوگ مہنگائی کے خلاف ن لیگ پر غصہ نکالتے ہیں اور چپ چاپ گھروں کو چل دیتے ہیں،شہباز شریف ہوںیا بلاول دونوں کے کلیجے میں مستقل سیاسی ٹھنڈ رہتی ہے، 5 سال آسانی سے گزر جائیںگے۔

٭٭٭٭

اخلاقی اقدار

o... مولانا فضل الرحمان:اخلاقی اقدار کا معاشرے سے ختم ہونا غلط ہے۔

مولانا نے درست فرمایا مگر جن کے پاس اخلاقی اقدارہوتی ہیں وہ بے بس ہوتے ہیں۔

o... وزیر اعظم کا نوٹس: مظاہرین ریڈ زون کے لگائے گیٹ کو عبور کرکے سپریم کورٹ کے سامنے کیسے پہنچے؟

جیسے ماضی میںن لیگ کے ورکرز اور لیڈرز سپریم کورٹ کے سامنے پہنچے تھے۔

o... پی ٹی آئی کے قائدین اور ورکرز الگ الگ راگ الاپ رہے ہیں۔

دراصل بانی کے نہ ہونے کے باعث ان کےسر پر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں، انہی کو تو سیاسی یتیم کہا جاتا ہے۔

o... عظمیٰ بخاری:پی ٹی آئی کے جلسوں کامقصد شرانگیزی پھیلانا ہے۔

شرانگیزی جب پھیل جائے تو بے اثر ہو جاتی ہے اس لئے پنجاب کی وزیر اطلاعات بے فکر ہو جائیں۔ کیا معلوم نہیں کہ پی ٹی آئی میں کتنے دھڑے بن چکے ہیں، اب پی ٹی آئی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

٭٭٭٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین