حکومت اس وقت بے شمار ایشوز میں پھنسی ہوئی ہے حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد بھی متحرک ہے۔ ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بھی سوچ سمجھ کر چلنے کی ضرورت ہے۔ بجلی کے بلوں کا رد عمل بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور عوام گھریلوسامان فروخت کر کے بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں کمی کی نوید تو سنا دی تھی حکومت پنجاب نے بجلی کے بلوں پر دوماہ کا ریلیف بھی دیا جس پر باقی صوبوں میں بھی ہلچل پیدا ہو گئی ہے کہ وہ کس طرح اپنے اپنے صوبوں میں وفاق کی مدد کے بغیر بلوں میں کمی کریں؟ سیاسی جماعتیں بجلی کے بلوں میں دو ماہ کی بجائے پورے سال کا ریلیف مانگ رہی ہیں۔ تاہم حکومت کے لیے بلوں میں بارہ ماہ کے لیے ریلیف دینا شاید نا ممکن ہے۔ حالات جس طرف جا رہے ہیں ملک مشکلات کے بھنور میں پھنستا جا رہا ہے سابق نگراں وفاقی وزیر اعجاز گوہرآئی پی پیز کیپسٹی ایشو کو لیکر چلے ہیں ۔ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بننے والے عناصر بے نقاب ہو گئے ہیں ۔جس میں حکومت کے اتحادی بھی ملوث ہیں المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں پن بجلی گھروں کے منصوبوں پر کام نہیں کیا گیا ۔بجلی پیدا کرنے والےآئی پی پیز منصوبوں کا تعلق بھی حکومتی طاقت ور افراد سے ہے جس کی حقیقت بھی سامنے آ گئی ہے کہ کیپیسٹی چارجز کی مد میں جو بجلی کے منصوبے بند اور بجلی پیدا بھی نہیں کر رہے ہیں ان کوبھی کھربوں روپے اد ا کیے جا رہے ہیں ۔ بوجھ عوام پر ہے وزارت توانائی خاموش تھی لیکن جب انکشافات ہوئے تو حکومت نے اعتراف کر لیا ۔ اس پر کمیٹی بنا دی گئی ہے بنگلہ دیش کا حال آپ کے سامنے ہے وہاں عوامی لیگ کا جو سیاسی آپریشن عوام نے کیا!۔بات ہو رہی تھی بجلی کے بلوں کی تو یہ مسئلہ شائد حکومت کو دلدل میں دھنسا دے گا ،اگر کوئی بنگلہ دیش جیسی تحریک یہاں شروع ہو گئی تو اس کو روکنا مشکل ہو جائے گا ملک بھر سے تاجروں نے بھی اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے کہ کپیسٹی چارجز کی مد میں عوام کو مشکلات میں رکھا جا رہا ہے اور حکومت کے اہلکار بجلی چوری میں براہ راست ملوث ہیں ۔ایف بی آر میں حکومتی افسران نے اربوں کی چوری کی ہے جس پر وزیر اعظم نےانکے خلاف کارروائی کی ہدائت کی ہے ۔پاکستان میں بجلی کا بحران حکومتوں کی نا اہلیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور 23 بجلی منصوبوں میں سے چند ایک چل رہے ہیں ۔ کیپسٹی چارجز کی مد میں عوام پر بوجھ سے زندگی مشکل ہو گئی ہے ۔حالا نکہ دہائیوں بعد پاکستان میں ڈیمز پہ کام کی شروعات ہوئیں اور کام تیزی سے جاری ہے، ان میں مہمند اور بھاشا ڈیم سرِفہرست ہیں جن پر کام نہایت مستعدی سے جاری ہے۔ حکومتِ پاکستان ڈیمز کے ان منصوبوں پہ خصوصی توجہ دے رہی ہے جبکہ افواجِ پاکستان بھرپور سیکورٹی فراہم کر رہی ہیں۔ڈیمز کے معاملے میں ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں؟دنیا میں اس وقت چین سب سے زیادہ ڈیم رکھنے والا ملک ہے جس کے کل بڑے ڈیمز کی تعداد لگ بھگ 23 ہزار آٹھ سو ہے اور تمام چھوٹے بڑے ڈیمز مشترکہ طور پر 87000 ڈیمز بنتے ہیں۔ امریکہ جس کے بڑے ڈیمز کی تعداد 9200 ہے اور لگ بھگ ہر ریاست میں 1800 ڈیمز ہیں۔کل چھوٹے بڑے ڈیمز کی مجموعی تعداد 84000 سے زیادہ ہے۔پڑوسی بھارت کے پاس اس وقت بڑے ڈیمز کی تعداد 5200 جبکہ تمام چھوٹے بڑے ڈیمز کی مشترکہ تعداد 9000 تک بتائی جاتی ہے۔جاپان کے پاس 3000 سے زیادہ ڈیمز ہیں ان میں سے کئی دنیا کے بڑے ڈیموں میں شمار ہوتے ہیں۔برازیل میں 1400 کے لگ بھگ ڈیمز ہیں جبکہ کوریا میں 1350 کے لگ بھگ،کینیڈا میں 1150 سے زیادہ،جنوبی افریقہ میں 1120 ڈیمز ہیں۔اس کے بعد بالترتیب اسپین، ترکی، فرانس، ایران، برطانیہ، آسٹریلیا، میکسیکو، اٹلی، جرمنی، ناروے، البانیہ، زمبابوے، رومانیہ، پرتگال، آسٹریا، تھائی لینڈ، سوڈان، سوئٹزرلینڈ، بلغاریہ، یونان اور پھر جا کر نمبر آتا ہے ہمارے دنیا کا سب سے بڑے نہری نظام رکھنے اور زراعت پہ منحصر پیارے وطن پاکستان کا۔پاکستان کے پاس غالباً چھوٹے بڑے مشترکہ ڈیمز کی تعداد 160، 165 ہے۔ دنیا دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہی ہے کیونکہ ڈیمز ہی کسی بھی ملک کی نہ صرف معاشی، زرعی اور صنعتی ترقی کے ضامن ہیں بلکہ انہیں بطورِ ترقی کےہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں دہائیوں پہلے جو ڈیمز بنے سو بنے جن میں اکثریت کا سہرا ان آمروں کے سر جاتا ہے جنہیں جمہوری قوتیں غاصب سمجھتی ہیں، ان غاصبوں کے بعد پاکستان میں ڈیمز کی تعمیر پاکستان کے لیے شجرِ ممنوعہ ٹھہری۔بھارت ہزاروں ڈیمز بنا چکا مگر پاکستان میں ہم ڈیموں کی تعمیر کو متنازع بنا کر روکتے رہتےہیں۔پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کی دوبارہ ابتدا کرنے والے سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار، سابق وزیراعظم عمران خان اور پاک فوج کی قیادت سلام کی مستحق ہے مزید 5 سے 10 سال میں ڈیمز کی تعمیر نہ ہوئی تو پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترس جاتااور ہماری زمینیں بنجر ہو جاتیں اور بھارت پانی کے نام پہ ہمیں بلیک میل کر رہا ہوتا، آنے والے وقتوں کی جنگیں پانی پر ہونگی جس کے پاس پانی وہی سکندر ہو گا ۔بجلی اور پانی کا بحران سر پر ہے اور زمین سے پانی کی سطح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے جس کے سبب پاکستانی عوام کے پاس چند سال کے بعد پینے کو پانی بھی نہیں ہوگا ۔سیاسی جماعتوں کو اقتدار کی لڑائی چھوڑ کر ملک کی بقا اور ترقی کے لیے سوچنا چاہیے ملک ہو گا تو آپ حکومت کر سکیں گے۔