جب ہم قیام پاکستان سے اب تک مرحلہ وار سازشوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ان حقائق کا بھی بغور جائزہ لینا چاہئے کہ مملکت خدادادِ پاکستان ہر دورمیں بحرانی ،ہیجانی اور نازک ترین صورت حال سے کیوں دو چار رہتی ہے اور اسکے وجودکے خلاف اب تک کون کون کس طرح سازشیں کرتا رہا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کے محرکات کیا ہیں؟ وہاں معاشی بدحالی، انسانی حقوق کی پامالی اور سیاسی وجوہات کی بنیاد پر جنم لینے والی تحریکوں میں کون کون سے کردار ملوث ہیں اور ان کے مقامی، ملکی اور بین الاقوامی سہولت کاروں کا بھی پردہ چاک ہونا چاہئے۔مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریروں میں بلوچستان کو قادیانیوں کی سرگرمیوں کا مرکز قرار دینا، گورداسپور ہندوستان کے حوالے کرنے کی قادیانی سازش اور کشمیر کی تقسیم کو متنازع بنا کر پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی، نفرت اور ہمیشہ کی جنگ کے بیج بونے میں قادیانیوں کی انگریزوں کے ساتھ مل کر سہولت کاری جیسے ہوش ربا تاریخی حقائق پر مبنی والد گرامی جمیل اطہر قاضی کی زیر طبع تصنیف’’مسئلہ قادیانیت‘‘کے چند اقتباس بلا تبصرہ تحریر کئے جارہے ہیں کہ جن کے پس منظر میں نوجوان نسل کو پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں سے آگاہی بھی ملے گی اور آج ملک کو درپیش سنگین ترین مسائل کو جڑ سے اکھاڑنے میں صاحبان اقتدار و اختیار کو رہنمائی بھی میسرآئے گی شائدکہ ترے دل میںاتر جائے میری بات ۔ قیام پاکستان سے قبل مفکر پاکستان حضرت اقبال یہودیوں اور قادیانیوں کی نظریاتی مماثلت و اشتراک کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے تھے ”قادیانیت اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہے گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔“ حضرت اقبال کی فتنہ قادیانیت سے بیزاری کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہوںنے پنڈت جواہر لال نہرو کے نام اپنے 21 جون 1936ءکے مکتوب میں قادیانیوں کو غدار قراردیا تھا۔ اسرائیل میں قادیانی مشن کی موجودگی اور یہودیوں سے تعلقات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کیلئے سیاسی اور فوجی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔1972 ءتک اسرائیل میں چھ سو کی تعداد میں قادیانی موجود تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ تعداد اب پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہوگی۔ یہ تفصیل پولیٹکل سائنس کے یہودی پروفیسر آئی ٹی تومانی کی کتاب (اسرائیل اے پروفائل کے صفحہ 75) پر درج ہے، قادیانی تیسرے دوست ملک سے ویزہ لے کر اسرائیل جاتے رہے اور وہاں تمام حقوق اور استحقاق سے مستفید ہو رہے ہیں حتیٰ کہ وہ یہودی خفیہ ایجنسی میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسرائیل میں قادیانی مشن کی موجودگی کا اعتراف آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے اور مرزا بشیر الدین محمود کے بیٹے مرزا مبارک احمد نے اپنی کتاب (OUR FOREIGN MISSIONS ) میں کیا ہے جو 1958 ءمیں ربوہ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے صفحہ 54 پر لکھا ہے ” احمدیہ مشن اسرائیل میں حیفا (ماؤنٹ کرمل) کے مقام پر واقعہ ہے اور وہاں ہماری ایک مسجد ، ایک مشن ہاؤس، ایک لائبریری، ایک بک ڈپو اورا سکول موجود ہے۔ فلسطین کی تقسیم سے یہ مشن کافی متا ثر ہوا ہے۔‘‘ صدر یحییٰ خان کے دور حکومت میں قادیانیوں کو بے پناہ مراعات میسر تھیں۔ ایم ایم احمدقادیانی، ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن اور صدر کا مشیر برائے اقتصادیات مقرر ہوگیا۔ سرظفر اللہ خان نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکہ اور صدر یحییٰ کے اہلکاروں کے درمیان رابطے کا کام جاری رکھا۔ قادیانی بیورو کریٹس نے ملک کے مستقبل کے سیاسی ڈھانچے میں اپنا خاص کردار اداکیا۔ ایم ایم احمد قادیانی کے دور میں دوسرے، تیسرے اور چوتھے پانچ سالہ منصوبے تیار کئے گئے۔
’’دی جیوش کرانیکل‘‘لندن نے یہ انکشاف کیا کہ میجر جنرل جیکب جو مشرقی پاکستان میں ہندوستانی افواج کا سکینڈ ان کمانڈ تھا وہ ایک یہودی تھا۔ وہ برطانوی صیہونی وفاق کے چیئرمین آنجہانی ڈاکٹر آئی ایس فوکس کا قریبی رشتے دار تھا۔ اخبار نے یہ بھی لکھا کہ ہندوستانی مسلح افواج میں بڑی تعداد میں یہودی افسر تھے۔ (امپیکٹ لندن 27 دسمبر تا21 جنوری 1973 ) اسرائیل ہمیشہ پاکستان کی وحدت اور سلامتی کے خلاف ریشہ دوانیوں اور سازشوں میں سرگرم عمل رہتا ہے۔ اس بات کی تائید اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن گوریان کی اگست 1967ءمیں سوربون یونیورسٹی پیرس میں کی گئی تقریر سے ہوتی ہے۔ جس میں اس نے پاکستان کو اسرائیل کیلئے آئیڈیالوجیکل چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ’’عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان کی طرف سے لاحق خطرات سے بے خبر نہیں ہونا چاہئے اور اب پاکستان کو اس کا پہلا نشانہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجود کیلئے ایک خطرہ ہے اور یہ کہ پاکستان کے سب لوگ یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتے ہیں۔ عربوں سے یہ محبت ہمارے لئے بذات خود عربوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس مقصد کیلئے عالمی صیہونیت کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری اقدامات کرے جبکہ جزائر ہند کے لوگ ہندو ہیں جن کے دل پوری تاریخ میں مسلمانوں کیخلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں چنانچہ ہندوستان مسلمانوں کے خلاف کام کرنےکیلئے ہمارے لئے اہم ترین پڑاؤ ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس مرکز سے کام لیں اور پاکستانیوں کو کچل دیں جو یہودیوں اور صیہونیوں کے دشمن ہیں۔ اس کیلئے تمام خفیہ و ظاہری منصوبے اپنائے جائیں۔“ ایک یہودی عسکری ماہر پروفیسرہرٹنر لکھتا ہے ”پاکستان کے فوجیوں کے اندر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے بے پناہ محبت و عقیدت موجود ہے اور یہی وجہ ہے جو پاکستان اور عربوں کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتی ہے اور حقیقت میں یہ عالمی صیہونیت کیلئے ایک سنگین خطرہ اور اسرائیل کی توسیع پسندی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ یہودیوں پر یہ لازم ہے کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس محبت و عقیدت کو ہر طریقے سے ختم کر دیں۔(دی فلسطین، بیروت نمبر120 جلدXL 40 جنوری 1972 )۔“