• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر…

اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی فورس خیریت سے ہوگی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منوّر مرزا برطانیہ میں قبل از وقت ہونے والے انتخابات پر اپنے روایتی انداز میں اظہار فرما رہے تھے۔ ’’اشاعت ِ خصوصی‘‘ میں محمّد علی حسنین نے شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے اشعار ہی کی روشنی میں اُن کا فلسفۂ خودی بیان کیا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر…نیا زمانہ، نئے صُبح و شام پیدا کر… میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے…خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر۔ اور ؎ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے… خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔ بھئی، بہت ہی شان دار مضمون تھا، بے حد پسند آیا۔ 

فرّخ شہزاد ملک بلوچستان میں، خواتین ڈپٹی کمشنرز کی تقرّری کی داستان سُنا رہے تھے، تو’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں محمّد کاشف نےجنگوں کےمختلف اداروں اور حربی تدابیر سے متعلق تفصیلات بیان کیں۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر نور یاسین کوئٹہ میں زلزلے کے امکان پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے، جب کہ نشاط صدیقی نے اسلامی نظام کے نفاذ پر زور دیا۔ ’’امریکا یاترا‘‘ کا احوال پسند آیا۔ اور ’’پیارا گھر‘‘ میں حکیم حارث نے قربانی کے گوشت کے احتیاط سے استعمال کا مشورہ دیا، تو ڈاکٹر شاہد ایم شاہد نے فالسے کے فوائد بیان کیے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں جویریہ شاہ رُخ کاافسانہ سبق آموز تھا۔ ذکیہ بتول کا افسانچہ بھی اچھا لگا۔ (سید زاہدعلی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

شہباز شریف سے کہیں

دن، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں بدلتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی عوام کے مسائل بھی بڑھتے، اور بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ بجلی، گیس کے بِل ایک بلا، وبا کا رُوپ دھار چُکے ہیں۔ پانی کی سپلائی کا یہ حال ہے کہ ہم ایک طویل عرصے سے گھر میں انتہائی مہنگے داموں پانی کے ٹینکرز ڈالوانے پر مجبور ہیں۔ 

کوئی سرکاری نوکری ہے نہیں، شہباز شریف صاحب سے کہیں، کچھ کریں کہ ؎ مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے۔ اور ہاں، آج ہم نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ پر تبصرے کے بجائے عوام کی رام کہانی لکھ بھیجی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جس مُلک میں اربوں روپیا کرپشن کی نذر ہوجائے، تو وہاں قانون کی تھوڑی سی خلاف ورزی تو ہمارا حق ہے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: پہلے تو جیسے آپ نے قواعد و ضوبط پر عمل درآمد کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں، ایوارڈز لیے ہوئے ہیں۔ ہر بار اِسی مضمون سے مِلتے جُلتے خطوط ہی لکھ بھیجتے ہیں۔ خیر، آپ کا رونا دھونا کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ ان بدمعاش حُکم رانوں کے اپنے تعیّشات، عیش وعشرت میں تو رتّی بھر کمی نہیں آتی۔ اُلٹا ہر بار مُلک کو نئے سِرے سے لُوٹنے کھسوٹنے کے لیے کمرکس لیتے ہیں اور عوام کو پیٹ پر پتّھر باندھنے کے مشورے دیتے ہیں۔ اور ہم شہباز شریف سے کیا کہیں، جیسے وہ ہماری سُننے کے لیے ہمہ تن گوش ہیں۔ جب چوبیس گھنٹے سوشل میڈیا لعنتیں، گالیاں برساتا رہتا ہے اور اِن چکنے گھڑوں پر ککھ اثر نہیں ہوتا، تو اِس روایتی پرنٹ میڈیا کی تو اب کوئی سنوائی ہی نہیں رہ گئی۔

نام ہی نہیں لکھا…؟

میرے ماموں بھارت کے ایک بڑے شاعر ہیں۔ اُنھوں نے اپنی چند غزلیں مجھے بھیجی ہیں کہ آپ کے جریدے میں اشاعت کے لیے بھیج دوں۔ اگر آپ اجازت دیں، تو پوسٹ کردوں۔ کچھ اپنی تحریریں بھی ارسال کر رہی ہوں۔ مناسب لگیں، تو شائع کردیجیے گا، شُکر گزار ہوں گی۔ آج کراچی کا موسم بہت اچھّا ہے۔ میرے ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آرہی ہے اور میری نظر ’’سنڈے میگزین‘‘کےخُوب صُورت سے سرِورق پہ جمی ہے۔ 

وہ اس لیے کہ ماڈل نے میرا پسندیدہ رنگ ’’زرد‘‘ پہن رکھا ہے اور ماڈل ہے بھی بہت پیاری۔ اُس پر آپ کا اتنا پیارا رائٹ اَپ۔ سچّی، مَیں تو آپ کے رائٹ اَپ ہی کے لیے ڈریسز بھی دیکھتی ہوں، مگر اس دفعہ ماڈل بھی واقعی بہت کیوٹ ہے۔ لیکن، آپ نے کریڈیٹس میں اُس کا نام ہی نہیں لکھا۔ ’’سالانہ بجٹ‘‘ سے متعلق منور مرزا کا تجزیہ سولہ آنے درست اور ہم سب کے دل کی آواز ہے۔ ’’اسوۂ رسول ؐ میں حُسنِ خُلق اور نرم مزاجی کی اہمیت‘‘ بہت ہی پیارا مضمون تھا، جو طالب ہاشمی نے لکھا۔

پڑھ کے قلب وذہن منور ہوگئے۔ ادارۂ یادگارِ غالب اور مرزا ظفرالحسن پر ڈاکٹر قمر عباس کی اعلیٰ درجے کی نگارش نے دل موہ لیا۔ گندم کی کٹائی سے کوئی دل چسپی نہیں، مگر ثقلین علی نقوی کا اندازِ تحریر خُوب صُورت لگا۔ ظفر معراج کی باتیں تو بہت ہی پسند آئیں۔ ویسے ہم بھی ڈرامے لکھنا چاہتے ہیں۔ اے کاش! کبھی موقع ملے۔ کنول بہزاد آئیں اور پھر چھا گئیں۔ اِس بار اٹک خورد کی کیا خُوب منظر نگاری کی۔ سچ میں، جانے کو دل مچل اُٹھا، مگر لے کر کون جائے گا؟؟ رابعہ فاطمہ کی ’’مسلمان حُکم رانوں کی نباتات سے محبّت‘‘ کافی منفرد اور معلوماتی تحریر تھی۔ 

پولیو کے مُلک سے عدم خاتمے کا پڑھ کر نہ جانے کیوں مجھے غصّہ آنے لگتا ہے۔ ساری دنیا سے مرض ختم ہوگیا، ایک ہم ہیں کہ پولیو ورکرز کی جانوں کے درپے ہیں، مگر موذی مرض سےجان نہیں چُھڑانا چاہتے۔’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں سب نے اپنے پیارے رشتوں سے اپنے دل کی باتیں، بہت دل سے کیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں جس دِن منور راجپوت میری کتاب پر تبصرہ کریں گے، تب ہی پڑھوں گی میں تو۔ ( ہی ہی ہی… ) اور جی، اب آگئے ہیں، ہائیڈ پارک میں، جہاں سب مِل کے نرجس جی کے صبر کا امتحان لیتے ہیں (ہے ناں) مگر آفرین ہے، آپ پر بھی کہ اتنے سالوں سے اَن گنت خطوط پڑھ کے بھی اتنے تحمّل و بردباری سے سب کو جوابات سے نوازتی ہیں۔ اللہ کرے، زورِ قلم اور زیادہ۔ 

قسم سے، مجھےتواپنا خط اس بزم میں دیکھ کر لگتا ہے، جیسےکوئی ایوارڈ مل گیا ہواور یہ ایوارڈ آپ مجھےاکثر دے ہی دیتی ہیں۔ بہت شُکریہ، خوش رہیں۔ آخرمیں ایک شعر ؎ ہزاروں ناکام حسرتوں کے بوجھ تلے…یہ جودِل دھڑکتا ہے، کمال کرتا ہے۔ (ناز جعفری، بفرزون، کراچی)

ج: اپنے ماموں کا کلام ضرور بھیج دیں۔ آپ کی تحریریں بھی قابلِ اشاعت ہوئیں، تو باری آنے پر ضرور شائع ہوجائیں گی۔ 30؍ جون کے جریدے کی ماڈل واقعی بہت پیاری تھی اور ہمیں افسوس بھی ہوا کہ سہواً شائع ہونے سے رہ گیا۔ ویسے اُس کا نام ’’ماہی‘‘ ہے۔ کوشش کریں گےکہ اُس کا دوبارہ کوئی شوٹ کرواکے اپنی غلطی کا ازالہ کردیں۔ پولیو کیسز سے متعلق آپ کے اور ہمارے جذبات میں خاصی ہم آہنگی ہے۔ ہمارا بھی ہر نئے کیس کا سُن کر کس قدر خون کھولتا ہے، بتا نہیں سکتے۔

پہلی بار ’’رفیقۂ حیات‘‘ پر

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے سالانہ بجٹ پر لاجواب مضمون تحریر کیا۔ ہم کو اچھی طرح یاد ہے، جب پورے مُلک میں صرف 10 لاکھ ٹیکس فائلرز ہوا کرتے تھے اور مُلک سکون سے چل رہاتھا۔ پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی، کون کھا گیا اِس مُلک کو۔ ہم ڈاکٹر قمرعباس کے بےحد شُکرگزار ہیں کہ ایک بار پھر اُن کے مضامین پڑھنے کو مل رہے ہیں۔

ادارۂ یادگارِغالب اور مرزا ظفرالحسن پر معلومات سے بھرپور مضمون تحریر کیا گیا، پڑھ کے دل خوش ہوگیا۔ کنول بہزاد بہت عرصے بعد ایک اچھے سفرنامے کے ساتھ موجود تھیں، اٹک خورد پر دل سے مضمون لکھا گیا اور تصاویر بھی بہت شان دارتھیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں پہلی مرتبہ رفیقۂ حیات پر مضمون پڑھنے کو ملا اَور بلاشبہ، خواجہ محمد ارشد نے اپنی رفیقۂ حیات پر بہت خُوب صُورت انداز میں لکھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: جی ہاں، مَردوں سے بیویوں پرلطائف جتنے مرضی بنوالیں، اُن کی بے لوث خدمات، اَن گنت قربانیوں کو سراہنا، خراجِ تحسین پیش کرنا گویا اُن کی مردانگی کے خلاف بات ہے۔

ایسا کیوں ہوا؟

اُمید ہے، مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ایک میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ شامل نہیں تھا۔ پلیز، اِس متبرّک صفحے کو ڈراپ نہ کیا کریں۔ فرانس میں قبل از وقت الیکشن، تارکین وطن کے لیے ایک نئی آزمائش ہیں، تو آزمائش کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔ ’’رپورٹ‘‘، ’’سولر انرجی : سورج کی دھوپ میں شکوک و شبہات کے بادل‘‘ بھی پڑھی۔ یہ بادل دراصل حکومتِ وقت لے کر آئی ہے اور سولر پینلز پر کسی قسم کا ٹیکس ہرگز نہیں لگنا چاہئے کہ سورج تو سب کے لیے ہے۔ اِس بار ’’خانوادے‘‘ میں ’’ایک تھا راجا‘‘ شامل تھا۔ 

بلاشبہ، تحریکِ پاکستان میں محمّد امیر احمد خان کے گھرانے کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ میرا خط شامل اشاعت کرنے کا شکریہ۔ ’’جنوبی ایشیا ترقی سے محروم کیوں؟‘‘ دوسرے شمارے میں منور مرزا کے ماہرانہ تجزیے کا کوئی جواب ہی نہ تھا۔ ’’چین کا قمری مشن اور پاکستان کا پہلا قمری سیٹلائٹ‘‘ تحریر پڑھ کر دلی خوشی ہوئی۔ ممتازمذہبی اسکالر، قانون دان، شاعر، ادیب قاضی عبدالحمید شیرزاد کا ’’انٹرویو‘‘ شان دار رہا۔ 

’’اسٹائل‘‘ میں اس بارکافی عرصے بعد حضرات نظر آئے، تو یہ تبدیلی بہت اچھی لگی۔ آپ کے سلسلے’’جہانِ دیگر‘‘ میں کینگروز کے دیس آسٹریلیا کی رُواداد ضیاالحق کی زبانی سُننا بھی بہت اچھا لگا۔ اور ہاں، ایک بہت اہم بات بلکہ شکایت بھی کرنی ہے کہ جب سے میرا ’’سنڈے میگزین‘‘ سے تعلق جُڑا ہے، پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ 7 جولائی کے ایڈیشن میں ہم سب کا پسندیدہ، ہردل عزیز صفحہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی شامل نہیں تھا۔ ہمیں آپ سے ایسی امید ہرگز نہیں تھی۔ بتانا پسند کریں گی کہ ایسا کیوں ہوا؟ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)

ج: ہمیں تو خُود آپ کے خط ہی سے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی عدم اشاعت کا علم ہوا۔ لیکن جب انکوائری کروائی، تو پتا چلا کہ ایسا تو کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کسی بھی وجہ سے، کسی بھی اسٹیشن سے ڈراپ نہیں کیا گیا۔ اب یا تو آپ نے جریدہ درست طور پر دیکھا ہی نہیں، یا پھر آپ کے گھر آنے والے میگزین کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آگیا۔ بہرحال، پھر بھی آپ اگر اُس صفحے کا مطالعہ کرنا چاہیں، تو ہمارے ’’نیٹ ایڈیشن‘‘ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

اہم، یادگار انٹرویو

منورمرزا کا جان دار و شان دار تجزیہ پڑھنے کو ملا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سلسلے میں ’’اسوۂ رسولﷺ میں حُسنِ خلق اور نرم مزاجی کی اہمیت‘‘ کےموضوع پر رُوح پرور مضمون شائع ہوا۔ ادارۂ یادگارِ غالب اور مرزا ظفرالحسن پر ڈاکٹر قمرعباس کا معلوماتی مضمون بہترین تھا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں بھی ہماری عمدہ ثقافتی روایات پر، جو اب ماضی کا حصّہ بن چُکیں، اچھی روشنی ڈالی گئی۔ ’’گفتگو‘‘ میں افسانہ نگار ظفر معراج کا ایک بہت اہم، یادگار انٹرویو پڑھنے کو ملا، واہ بھائی واہ!! ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ سے آگے بڑھ کے ریلوے اسٹیشن، اٹک خورد پر رُک گئے۔ 

کنول بہزاد کو افسانہ نگاری سے کچھ آگے بھی بڑھنا چاہیے۔ ’’شجر کاری اور نباتات سے ماضی کے مسلم حکم رانوں کی محبّت‘‘ بہت ہی منفرد تحریر تھی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں تینوں ہی کہانیاں چاہت و محبّت کے جذبات و احساسات میں ڈوب کے لکھی گئیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ کا تعارف بھی خُوب رہا۔ اور ’’اپنا صفحہ‘‘ تو اِس جریدے سے اپنائیت و لگاؤ رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ (محمّد عثمان، شاہ پور چاکر، سانگھڑ، سندھ)

                      فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ موصول ہوا۔ گہرےرنگ دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا فرانس میں قبل از وقت انتخابات کی وجوہ بیان کررہے تھے۔ ہمارے یہاں تو حُکم رانوں کا بعد از وقت کروانے کو بھی دِل نہیں چاہتا۔ جہاں تک ہو سکے، ٹال مٹول کرکےوقت بڑھاتے رہو، مزے لُوٹتے رہو۔ سپریم کورٹ حُکم دیتی ہے، تو ہی مجبوراً الیکشن کی طرف جانا پڑتا ہے۔ اب فارم 45 اور47 کی لڑائی میں عوام پسے جارہے ہیں۔

غربت و منہگائی، بےروزگاری نے جینا دوبھرکردیا ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رؤف ظفر سولرانرجی کے استعمال پر حکومتی پریشانی کا تذکرہ کررہے تھے کہ آئی پی پیز کے واجبات کس طرح ادا ہوں گے۔ ہمیں تو منہگے معاہدے کرکے عوام کے گلے پرچُھری پھیرنے کی تُک ہی سمجھ نہیں آتی۔ ساری دنیا سے الگ باتیں، بھلا ایسا بھی کہیں ہوتا ہے کہ ہم جتنی بجلی بنائیں، خریدنی پڑے گی، چاہے ضرورت ہو، نہ ہو۔غریب عوام کی کمائی پرایسا ڈاکا؟نہ دیکھا، نہ سُنا۔ 

سال بھر ہمارے مُلک میں دھوپ رہتی ہے، تو اللہ کی اِس نعمت سے فائدہ کیوں نہ اُٹھائیں۔’’خانوادے‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس تحریکِ پاکستان کے سرگرم، جان نثار رہنما، راجا صاحب محمود آباد کی خدمات اور خاندانی حالات سے آگاہ کر رہے تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے خواتین کے لیے ایک انگریزی پوسٹ کےترجمے سےمرصّع شان دار رائٹ اَپ تحریر کیا۔ بھئی، ہم تو اب اس کھڑاک سے آزاد ہیں، ہمیں کوئی فکر نہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں طوبیٰ سعید، محنت کو دنیا و آخرت میں کام یابی کی کلید بتا رہی تھیں۔

واقعی، ہمارے دین میں کام چوری اور سُستی کو قطعاً اچھا نہیں سمجھا جاتا اور یہ اَن گنت نکھٹو لوگوں کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ایک المیہ ہی ہے۔ اِس ضمن میں والدین، اساتذہ اور معاشرے پر بڑی ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان افراد کواخلاقی تربیت فراہم کریں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں نتاشا اور اسماء شاہ، مسالے والی کلیجی، بیف پلاؤ، چانپ کڑاہی بنانے کی تراکیب سِکھا رہی تھیں، تو قاضی جمشید عالم صدیقی تربوز کے اَن گنت فوائد بتا گئے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی سب ہی کہانیاں اَن مول تھیں۔ 

’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں سہیل رضا تبسّم نے سورہ رحمٰن کی دل پذیری، اثر آفرینی پو مبنی واقعہ تحریر کیا۔ بے شک، اللہ کی کلام میں بڑی طاقت ہے۔ بیگم کی ایک بیماری میں ہم بھی سورہ رحمٰن پڑھ کر دَم کیا کرتے تھے، یہ تو یاد نہیں کتنے دن پڑھی، مگر اللہ نےشفا دے دی۔ ضیاء الحسن اپنی والدہ کی آپ بیتی بیان کررہے تھے کہ کس طرح سانپ کو رسّی سمجھ کر پکڑا۔ واقعی، جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے۔ 

اختر سعیدی نئی کتابوں پر حسبِ معمول ماہرانہ تبصرہ فرماگئے۔ ریڈیو پاکستان کا وہ زمانہ ہمیں بھی یاد ہے، جب تابشؔ دہلوی اپنی گرج دار آواز میں مکالمے بولا کرتے تھے اورثُریا بجیا کی بچّوں کے ساتھ چہکاریں سُنائی دیتی تھیں۔ آغا سلیم اور کئی دیگر ڈراما نگاروں، فن کاروں نے ریڈیو کو عروج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ طلعت عمران ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘مرتب کررہے تھے اور اپنے باغ و بہار صفحے پر ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزازہمارے حصّے آیا، بےحد شکریہ۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج : آپ کے ’’سینٹر اسپریڈ ‘‘ کے کھڑاک سے آزاد ہونے کی بات پر تو ہمیں ایسے خوشی ہو رہی ہے، جیسے کسی کےاسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھنے پر ہوتی ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* حالاتِ حاضرہ اور خاص طور پرعالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے معاملات سے مجھے گہری دل چسپی ہے۔ پوچھنا یہ تھاکہ کیا ’’عالمی افق‘‘ اور ’’حالات و واقعات‘‘ سلسلوں کے لیے بھی تحریربھیجی جاسکتی ہے؟ اگر ہاں، توچوں کہ ایسی تحریریں وقت کی قید سے مبرّا نہیں ہوتیں، تو کیا ای میل کے ٹائٹل پر’’ارجنٹ‘‘ لکھ دینا کافی ہوگا؟ کہ ابھی پچھلے شمارے میں آپ نے کسی لکھاری کو سمجھایا کہ کسی خاص موقعے سے متعلق تحریر کم ازکم ایک ڈیڑھ ماہ پہلےارسال کی جائے۔ لیکن، حالاتِ حاضرہ سے متعلق تو اتنا پہلے تحریر بھیجنا ممکن نہیں، تو پلیزتھوڑی رہنمائی کردیجیے۔ نیز،ذرااُن سلسلوں کی نشان دہی بھی کردیں، جن کے لیے کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔ (مشرقی لڑکی، الرحمان گارڈن، لاہور)

ج: آپ میگزین کے کسی بھی سلسلے کے لیے مضامین (انٹرویوز، فیچر، سروے وغیرہ اسٹاف ہی کرتا ہے) لکھ سکتی ہیں، ہماری طرف سے کوئی پابندی نہیں، بس، مسئلہ وہی ہے کہ ہمارا پرنٹنگ شیڈول کچھ ایسا ہے کہ ہمیں صفحات پرتین سےچار ہفتے قبل کام کرنا پڑتا ہے۔ مُلکی و عالمی حالات و واقعات پر لکھنا چاہتی ہیں، تو ایسے موضوعات کا انتخاب کریں، جن میں اعداد و شمار فوری تبدیل نہ ہو رہے ہوں۔ اور ای میل کے ساتھ ’’ارجنٹ‘‘ لکھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

* 28 مئی کا دن، وطنِ عزیز کی تاریخ میں ایک اہم، تاریخی سفر کے کام یابی سے ہم کنار ہونے کا دن ہے۔1998 ء میں اِسی دن پاکستان نے بلوچستان کے صوبہ چاغی میں ایٹمی دھماکے کرکےدنیاکوورطۂ حیرت میں ڈالا تھا۔ یاد رہے، پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے، جس کے پاس ایٹمی پاور ہے۔ میرے خیال میں جریدے کا ایک ایڈیشن تو اس دن کی مناسبت سے مختص ہونا چاہیے۔ (شبّیراحمد لہڑی، گڑھی خیرو، نصیرآباد)

ج: ہمارے صفحات کی تعداد اِتنی کم ہے کہ مسقل سلسلے مہینوں شیڈول نہیں ہوپاتے۔ ایسے میں جریدے کی کوئی ایک اشاعت کسی ایک موضوع کے لیے مختص کرنا ممکن نہیں، ایک آدھ مضمون ہی لکھوایاجاسکتاہےاوروہ ہم لکھوا لیتے ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید