• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تارکینِ وطن یا پناہ گزین، مغربی ممالک کے لیے اب باقاعدہ سیاسی و معاشرتی ہی نہیں، امن و امان کا بھی مسئلہ بن چُکے ہیں اور اِس معاملے کی نزاکت اُن فسادات سے ظاہر ہوگئی، جو برطانیہ جیسے ملٹی کلچرل مُلک میں سمر سیزن کے عروج میں دیکھنے میں آئی، جو دنیا بَھر سے سیّاحوں کے برطانیہ آنے کا موسم ہوتا ہے اور اُس کی کمائی کا بڑا ذر یعہ بھی۔ اِس سیزن میں پارکس، شاپنگ سینٹرز اور تفریح گاہوں میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی، جب کہ زیرِ زمین چلنے والی ٹرینز بھی مکمل طور پر بَھری ہوتی ہیں۔

اتفاق سے ہم اِن دنوں برطانیہ میں ہیں اور یوں ہمیں بہت قریب سے ان فسادات، ہنگاموں اور مظاہروں کی شدّت دیکھنے کا موقع ملا۔ واضح رہے، ہم برسوں سے ہر سال برطانیہ جاتے ہیں، لیکن ایسی فضا پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ہمارے ہاں اکثر و بیش تر یہ موضوع زیرِ بحث رہتا ہے کہ لاکھوں نوجوان مُلک چھوڑ کر جارہے ہیں، کیوں کہ بعض ماہرین کے بقول مُلک میں مایوسی انتہا کو پہنچ چُکی ہے اور دوسرے ،جہاں اِن نوجوانوں کی منزل ہے، وہاں شاید بڑی ہی خوش گوار زندگی اُن کا انتظار کر رہی ہے۔ 

وِلاگز اور پوڈ کاسٹس میں اُس دنیا کی ایسی تصویر کھینچی جاتی ہے، گویا جنّت کے دروازے کُھل گئے ہوں۔خاص طور پر سیاست کی آڑ لے کر مغربی ممالک میں پناہ لینے والے وِلاگرز کا کردار بے حد تکلیف دہ ہے۔ ان وِلاگرز کو برطانیہ میں ہونے والے فسادات اور یورپ میں اقتدار میں آنے والی اینٹی ایمیگرینٹس حکومتوں سے اندازہ ہوگیا ہو گا کہ اب نئے آنے والوں کے ساتھ، خود اُن کے لیے بھی یورپ میں رہنا آسان نہیں رہا۔

ہم برطانیہ کے حالیہ فسادات کی تفصیلات دُہرانا نہیں چاہتے، لیکن ان فسادات کے بعد یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہے اور اِن فسادات کی سنگینی کا اندازہ نفرت کی اُس خلیج سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جو تارکینِ وطن اور مقامی باشندوں کے درمیان پیدا ہوئی اور وقت کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ دُکھ اور مذمّت کی بات یہ ہے کہ ان فسادات میں مساجد تک کو نشانہ بنایا گیا۔ نیز، اُن پناہ گاہوں، گھروں اور ہوٹلز کو جلایا گیا، جہاں اسائلم لینے والے قیام پذیر تھے۔

یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ مقامی اور غیر مقامیوں کا زیادہ آمنا سامنا نہیں ہوا، ورنہ معاملات کہیں زیادہ خراب ہوسکتے تھے۔ اِس معاملے میں پولیس کا غیر جانب دارانہ کردار قابلِ تحسین ہے۔ چاقو زنی کے انتہائی درد ناک واقعات ہوئے، جن میں تین ننّھی بچیاں ہلاک ہوگئیں، جو ڈانس کلاس میں آئی تھیں۔اس پر برطانیہ سمیت دنیا بَھر میں جس غم وغصّے کا اظہار کیا گیا، اُسے دردِ دل رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ 

غیر قانونی تارکینِ وطن، برطانیہ کے باشندے نہیں، بلکہ صرف مہمان ہیں، جو اب اسائلم لینے کے خواہش مند ہیں۔ اُنہیں اِس مُلک کی محبّت کھینچ کر نہیں لائی، بلکہ محض اچھی زندگی کے لیے یہاں آئے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک زمانے میں اِن ممالک کو لیبر فورس یا ٹیکنیکل فورس کی ضرورت تھی، تو اُنہوں نے اِنہیں ملازمتیں دیں اور وہاں رہنے کی اجازت بھی۔ 

مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا اور ان ممالک میں اب دو بڑی تبدیلیاں رُونما ہو چُکی ہیں۔اوّل، اب وہ نسل موجود نہیں، جس نے انہیں خوش آمدید کہا تھا۔دوم، جدید ٹیکنالوجی نے انسانی ہاتھوں کی ضرورت بہت کم کردی ہے۔اِس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ آج پیداوار کا مُلک نہیں رہا کہ اس کے بڑے صنعتی شہروں مانچسٹر، لیور پول اور بریڈ فوڈ میں انڈسٹریز کا نام و نشان تک نہیں۔

گویا، اب اسے لیبر فورس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اِسی لیے جن پاکستانیوں یا دیگر مسلم لیبر نے یہاں مزدوریاں کیں، اُن کی نسلوں کو دوسرے روزگار تلاش کرنے پڑے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُنہوں نے مفت تعلیم سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے لوپیڈ جابز ہی کو ترجیح دی اور پھر پس ماندہ کمیونیٹیز میں شمار ہوئے۔ ان میں پڑھے لکھے افراد کی تعداد حیرت انگیز طور پر نہایت کم ہے۔

کچھ نئی سیاسی تبدیلیوں پر بھی غور کرنا ضروری ہے، جس کی وجہ سے برطانیہ، یورپ اور امریکا کی بڑی سیاسی جماعتوں کے بیانیے میں تارکینِ وطن کی مخالفت اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اب وہاں کُھل کر کہا جاتا ہے کہ لیفٹسٹ، تارکینِ وطن کے لیے سافٹ کارنر رکھتے ہیں، جب کہ رائٹسٹ اُنہیں نہ صرف برداشت کرنے کو تیار نہیں، بلکہ اُنھیں ڈی پورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں کیا مسلمان تارکینِ وطن کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنے رویّوں میں بڑی تبدیلی لائے بغیر اُن معاشروں میں کوئی حصّہ ڈال سکیں یا اُن سے بڑا فائدہ اُٹھا سکیں، جہاں رہنے کے لیے وہ لاکھوں کی تعداد میں وہاں جاچُکے ہیں اور لاکھوں وہاں جانے کے لیے بے قرار ہیں۔ 

غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلے پر، شام کی جنگ کے بعد تیزی آئی۔لاکھوں شامی شہریوں کو وہاں کے حُکم ران، حافظ الاسد نے بم باری اور فوجی چڑھائی سے پناہ گزین بننے پر مجبور کردیا۔ایران اور روس سمیت کئی مسلّح تنظیموں نے اس خانہ جنگی میں اسد افواج کا ساتھ دیا اور اب اُن میں سے کوئی بھی ذمّے داری لینے کو تیار نہیں۔ امریکا، مغربی ممالک اور خود مسلم ممالک بھی کروڑوں شامی شہریوں کی بے گھری اور لاکھوں کے قتل کے باوجود خاموش رہے۔ 

کبھی نہ سوچا کہ اِس کے منفی اثرات کس شکل میں سامنے آئیں گے۔یہ شامی شہری بحرِ روم کے ذریعے جان بچانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگتے رہے، مگر اسے بھی کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا، بلکہ بعد میں جب لیبیا اور دوسرے افریقی ممالک میں عدم استحکام آیا، تو اُن کے ساحل انسانی اسمگلرز کے اڈّے بن گئے، جو ان افراد کو لاکھوں روپوں کے عوض کشتیوں اور ٹرالرز میں بَھر بَھر کے بحرِ روم پار کروانے لگے، جن میں سے اکثر ڈوب جاتے۔ شروع میں تو اقوامِ متحدہ اور دوسری انسانی حقوق کی تنظیموں نے اُنہیں بچانے کے لیے کچھ کام کیا، لیکن پھر وہ اسے غیر قانونی ہجرت کے طور پر ایک گھناؤنا جرم سمجھنے لگے۔

اِسی طرح پہلے تو یورپی ممالک نے ان تارکینِ وطن پر رحم کھایا، لیکن پھر جب اس کے سماجی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر منفی اثرات سامنے آنے لگے، تو اوّل وہ بے زار ہوئے اور پھر اُن کی آمد کے شدید مخالف ہو گئے، یہاں تک کہ مرکل جیسی لاجواب لیڈر کو ان مہاجرین کی حمایت کے سبب اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔

یونان میں کشتی ڈوبنے کا واقعہ شاید اب بھی ہمارے ذہن میں تازہ ہو، جس میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتی کے قریب سے گزرنے والے جہاز نے اُن کی طرف کھانا تو پھینکا، مگر اُن کی جان نہیں بچائی۔ ایک خطرناک بات یہ بھی ہوئی کہ جو مسلمان تارکینِ وطن، برطانیہ اور یورپی ممالک میں نسلوں سے آباد تھے، اُنھیں غیرقانونی جان کر نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 

اب وہ اور اُن کے بچّے کس کس کو یقین دلائیں گے کہ اُن کا قیام غیر قانونی نہیں ہے۔ اسلامی ممالک، جہاں سے یہ ہیومن ٹریفکنگ ہورہی تھی، اپنی ذمّے داریوں سے ہاتھ اُٹھا کر اور اسے روکنے کی بجائے، حالات کو اسلامو فوبیا سے جوڑ کر خاموش ہوگئے۔ دوسری طرف، یورپ اور امریکا میں یہ معاملہ باقاعدہ سیاسی پارٹیوں کے بیانیوں کا حصّہ بننے لگا۔ 

ان ممالک میں اکثر سیاسی جماعتیں اِسی اینٹی امیگرینٹس بیانیے پر الیکشن لڑنے لگیں اور اب یہ جماعتیں امریکا، نی در لینڈ، اٹلی اور فرانس سمیت بڑے بڑے ممالک میں اقتدار میں بھی آرہی ہیں۔ اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یورپ، برطانیہ اور امریکا میں غیر قانونی تارکینِ وطن یا پناہ لینے والوں کے خلاف اب مضبوط تحریکیں سامنے آرہی ہیں۔

نیز، وہاں کے عام شہریوں میں یہ تاثر بھی سرایت کرتا جارہا ہے کہ تارکینِ وطن اُن کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہے ہیں اور اُن کی ویلفیئر اسٹیٹ سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ کی یہی وجوہ تھیں، جس کے ذریعے اُنہوں نے30لاکھ یورپی شہریوں کو اپنے مُلک سے نکال باہر کیا۔ ایک انتہا پسند طبقہ وجود میں آگیا ہے، جو غیر قانونی تارکینِ وطن سے اُتنی ہی نفرت کرتا ہے، جتنی وہ اُن سے کرتے ہیں۔ 

یہ طبقہ اِس بات پر بھی نالاں ہے کہ تارکینِ وطن اُن کی خارجہ پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ فرانس کی نیشنل پارٹی کے رہنما کُھلے عام کہتے ہیں کہ ’’ تارکینِ وطن ہم میں سے نہیں ہیں، انہوں نے اپنے علاقے بنا رکھے ہیں، یہ اپنی زبان بولتے ہیں، یہ ہمارے معاشرے کا حصّہ نہیں ہیں اور یہ ہماری قومی پالیسیز کے خلاف ہیں۔‘‘ اب چاہے یہ کتنا ہی چھوٹا سا طبقہ کیوں نہ ہو، لیکن اِس بات کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے کہ اِن نفرت انگیز جذبات کو تشدّد کی شکل دے سکے اور الیکشن لڑ کر اقتدار میں آسکے۔

برطانیہ میں ہونے والے فسادات میں پولیس کا کردار قابلِ تعریف رہا کہ اس نے بڑے تحمّل اور مہارت سے حالات پر قابو پایا۔دونوں طرف سے کچھ لوگ پولیس پر فرقہ واریت اور نسل پرستی کا الزام لگاتے ہیں اور ممکن ہے کہ کوئی اِس لہر میں بہہ بھی گیا ہو، لیکن مجموعی طور پر جس تیزی سے حالات کنٹرول کیے گئے، وہ بہرحال قابلِ تحسین امر ہے۔ امن و امان اور معاشرتی ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے قانون کی عمل داری کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہوگا، جس میں تارکینِ وطن اور مقامی باشندوں کو اپنا اپنا حصّہ ڈالنا ہوگا۔

واضح رہے، کمیونٹی کے تعصّب میں آکر بلاوجہ پولیس کو مطعون کر کے ٹی وی یا سوشل میڈیا پر ہیرو بننا یا ویوز حاصل کرنا ایک خطرناک کام ہوسکتا ہے۔یہ وہ مُلک نہیں کہ جو چاہا، بول دیا اور جو چاہا، لکھ دیا۔ یہاں ہتکِ عزّت کے قوانین بہت سخت ہیں۔ جہاں اِن میزبان ممالک کو سوچنا چاہیے کہ اُن کے لبرل معاشروں کے دعووں کے باوجود نسل پرستانہ فسادات اور نفرت انگیز بیانیے کیوں پنپ رہے ہیں، وہیں تارکینِ وطن، اسائلم سیکرز اور مسلم حکومتوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ اُن سے کیا غلطیاں ہو رہی ہیں۔ ہم صرف ایک مثال دیں گے، جس سے اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے غیر قانونی تارکینِ وطن کیا طوفان کھڑا کر رہے ہیں۔ 

سینیٹ کی ایک حالیہ بریفنگ میں بتایا گیا کہ سعودی عرب اور یو اے ای نے باقاعدہ طور پر پاکستانیوں کے رویّے کی شکایت کی ہے کہ یہ پاکستانی ان مسلم عرب ممالک میں جرائم میں ملوّث اور بھیک مانگنے میں مصروف ہیں۔اِسی بریفنگ میں بتایا گیا کہ عراق کی حکومت نے بھی شکایت کی ہے کہ وہاں لگ بھگ پچاس ہزار پاکستانی غیر قانونی طور پر موجود ہیں اور خلافِ قانون سرگرمیوں میں ملوّث ہیں۔

یاد رہے، جب مریم اورنگ زیب اور اُن کے وفد کے ساتھ مسجدِ بنویؐ میں انتہائی نازیبا حرکات کی گئیں، تو تمام حلقوں نے اس پر سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا، مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں، ہم اپنے مُلک کی سیاسی دشمنیاں دیگر ممالک تک بھی لے گئے اور دن رات اِسی چکر میں لگے رہتے ہیں اور اپنے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصّہ مظاہروں میں صَرف کردیتے ہیں۔ 

بہرکیف، اگر کوئی پاکستانی اِس خوش فہمی میں ہے کہ اِن کے بغیر وہ مُلک نہیں چل سکتے، تو یقیناً وہ کسی بڑے مغالطے کا شکار ہے، کیوں کہ اب اُن مسلم یا غیر مسلم ممالک کے پاس بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ اور افریقی ممالک کی ورک فورس موجود ہے، جو پاکستانیوں کے مقابلے میں زیادہ توجّہ سے کام کرتی ہے اور مہارت و تجربے میں اُن سے آگے بھی ہے۔ اور اُن میں یہ خُوبی بھی ہے کہ وہ اپنے مُلک کی اندرونی سیاست اور جرائم کو پیچھے چھوڑ آتے ہیں۔

اِس پس منظر میں حکومت کو خوابِ خرگوش سے جاگ جانا چاہیے اور اوورسیز پاکستانیوں کی نقل وحرکت کو باقاعدہ ریگیولیٹ کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ نہ صرف مُلک کے لیے مصیبت بن رہے ہیں، بلکہ وہاں آباد پاکستانی کمیونٹی کے لیے بھی آزمائش کا باعث ہیں۔ یہ آزادی کا معاملہ نہیں، بلکہ قاعدے، قانون کا ایشو ہے۔ یہ دو طرفہ تعلقات اور خارجہ امور سے مشروط معاملہ ہے۔ پاکستانی ہائی کمشنز تو پہلے بھی کوئی قابلِ تعریف کردار ادا نہیں کر رہے اور اِن معاملات میں بھی دُبکے بیٹھے ہیں۔ روز سننے میں آتا ہے کہ فلاں گروہ نے ہائی کمیشن پر چڑھائی کر دی، فلاں پارٹی ورکرز نے قومی پرچم اُتار دیئے، گویا کوئی مذاق چل رہا ہے۔

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو افراد مغربی ممالک جانے کے لیے ایجنٹس کو لاکھوں روپے دیتے ہیں، اُنہوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت تک نہیں کی کہ آج اُن ممالک کے حالات کیسے ہیں۔وہاں جانے والوں کو کچھ علم نہیں کہ وہاں کس نوعیت کی سیاست ہو رہی ہے، معاشرہ اور کلچر کیسا ہے، مناسب اور باعزّت زندگی گزارنے کے کیا اطوار ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ وہاں پاکستانی بن کر رہ سکیں گے یا پھر اُنہیں وہیں کا باشندہ بن کر رہنا ہوگا۔

مسلم دنیا کے کیا مسائل ہیں، اِس سے اُن ممالک کا کوئی سروکار نہیں۔ آپ روز جھنڈے لے کر کھڑے رہیں، جلوس نکالیں، لیکن ہوگا وہی، جو ان ممالک کی اسٹیٹ پالیسی ہے اور یہ پالیسی کسی جلسے، جلوس سے نہیں بدلتی، بلکہ وہاں کے مفادات سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہے۔ 

تارکینِ وطن قانونی ہوں یا غیر قانونی، اُنھیں سوچنا چاہیے کہ وہ ایک غیر مسلم مُلک میں، وہاں کے قوانین کے مطابق ملازمت یا تعلیم حاصل کرنے جا رہے ہیں۔یہ مُلک اُن پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ اب اگر یہ تارکینِ وطن اپنے دماغ میں دنیا بدلنے کا کوئی تصوّر لے کر نکلے ہیں، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کی منزل کھوٹی ہوجائے اور اُنہیں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے، جس کا اُنہوں نے تصوّر تک نہ کیا ہو۔ 

جب بریگزٹ ہوسکتا ہے، یورپی یونین ٹوٹ سکتی ہے، ٹرمپ جیسے قوم پرست امریکا کے صدر بن سکتے ہیں، فرانس اور نیدر لینڈ میں انتہا پسند جماعتیں طاقت میں آسکتی ہیں اور برطانیہ میں لیبر پارٹی کے آنے کے دوسرے ہی ہفتے تارکینِ وطن کے خلاف فسادات ہوسکتے ہیں، تو پھر آگے کیا کیا ہو سکتا ہے، اس کا انتظار کرنے کی بجائے تدارک کی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔