• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں امریکہ اور چین کے مشترکہ مفادات؟

پاکستان کے حوالے سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان دنیا کیلئے دو جہتوں سے اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی اقتصادی اہمیت بھی مسلم ہے جبکہ خطے کی سلامتی بھی اس سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان کی موجودہ کمزور اقتصادیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وطن عزیز کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو پاکستان بھی مجبور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی تزویراتی ضروریات کے حصول کی غرض سے کسی دفاعی معاہدے میں شمولیت اختیار کر لے۔ یقینی طور پر یہ کوئی خوش کن کیفیت نہیں ہو گی مگر قومی سلامتی کی بقا کی خاطر کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑتا ہے۔ تمام علاقائی بین الاقوامی قوتوں کے ذہن میں یہ نقش ہونا چاہئے کہ پاکستان کو مجبور کرنے سے جہاں وطن عزیز پر اثرات مرتب ہونگے وہیں پر دیگر متاثرین بھی ضرور ہونگے۔ جب سابق سوویت یونین نے انیس سو اکہتر کی جنگ سے قبل انڈیا سے دفاعی معاہدہ کیا اور عالمی اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے پاکستان کو دو لخت کرنے میں انڈیا کا ساتھ دیا تو پاکستان اس پر بے بسی سے خون کے گھونٹ پینے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکا مگر دل میں داغ رہ گیا۔ پھر جب سابقہ سوویت یونین افغانستان میں کمیونسٹ ذہن کے حامل حکمران ٹولے کی حفاظت کیلئے طورخم تک آ پہنچا تو اس وقت پاکستان کے پاس سوویت یونین مخالف ریاستوں کا ساتھ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

یقینی طور پر سوویت یونین کے سابق ہونے میں تنہا صرف پاکستان کا ہی کردار نہیں تھا لیکن اس حقیقت سے انکار در حقیقت، حقیقت کا منہ چڑانا ہو گا کہ پاکستان کا اس میں اہم کردار نہیں تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ افغان جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا اور یہ دونوں اپنے زخموں کو مندمل کرنے کی اپنے تئيں کوشش کرتے رہے۔ مگر اس تنہا چھوڑنے کے بعد بلکہ اس کی وجہ سے ہی افغانستان کے حالات نے نائن الیون جیسے سانحہ کو جنم دیا۔ اس لئے دور حاضر میں بھی پاکستان کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہئے یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔

میں صرف کسی تنہائی کے نتیجے کے طور پر بد امنی کی ہی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ اس کے زبردست معاشی نتائج بھی برآمد ہونگے۔ یہ اقوام عالم کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ افغانستان اس وقت بھی غیر مستحکم ہے اور وہاں کی حکومتی گرفت پر سوالیہ نشان موجود ہیں۔ وہاں سے دہشت گردی کا ناگ صرف ہمارے لئے ہی پھن پھیلائے نہیں بیٹھا بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی اس پر شکایت كنندہ بن رہے ہیں۔ چین کیلئے سنکیانگ کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی کے اہداف صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ یہ افغانستان سے نکل کر پاکستان، چین اور خطے کے دیگر ممالک کو غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔ پاکستان کی تزویراتی اہمیت ایران سے لے کر پورے عرب خطے میں موجود ہے۔پاکستان وہ عجمی ملک ہے کہ جس پر عرب دنیا اعتماد کرتی ہے اور ہمارے ان سے تصفیہ طلب مسائل موجود نہیں۔ پاکستان کی فوجی طاقت بھی مسلم ہے۔ پاکستان اور انڈیا دونوں نیوکلیئر طاقتیں ہیں اور ان کا آپس میں گتھم گتھا رہنا نہ صرف ان دونوں ممالک کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ اس کے اثرات عالمی تزویراتی امور کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی تجارت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے تو اس سے صرف دونوں ممالک کے عوام کو ہی سکون کا سانس نصیب نہیں ہو گا بلکہ پوری دنیا اس سے مستفید ہو گی۔ اگر چین اور امریکہ پاکستان اور انڈیا کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تو عالمی تجارت کو نفع ہی نفع حاصل ہو گا۔ مثال کے طور پر امریکہ کی سرپرستی میں انڈیا سے تجارتی راہداری قائم کی جا رہی ہے۔ جو بھارت سے اسرائیل اور اسرائیل سے یورپ تک سامان تجارت کا راستہ ہو گا۔ اس راہداری کی گزرگاہ پاکستان کی سمندری حدود کے بالکل سامنے ہے اور پاکستان سے مخاصمت کی صورت میں یہ راہداری ہر وقت غیرمحفوظ رہے گی۔ بالکل اسی طرح بی آر آئی کا پائلٹ پروجیکٹ سی پیک ہے جو چینی مصنوعات سینٹرل ایشیا سے یورپ، افریقہ تک پہنچانے کا منصوبہ ہے۔ چین اور بھارت ایرانی تیل ،گیس کا حصول چاہتے ہیں مختصر ترین راستہ صرف پاکستان بنتا ہے، انڈیا سینٹرل ایشیا اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی چاہتا ہے۔ پاکستان سے کم سفر کہیں اور جگہ سے ممکن ہی نہیں۔ پاکستان کی سب سے زیادہ ایکسپورٹس امریکا کی جاتی ہیں۔ غیر ملکی زر مبادلہ كمانے میں امریکہ کا اور اس کے اتحادی ممالک کا اہم ترین کردار ہے۔ بالکل اسی طرح سے چین کی اہمیت پاکستان کی معیشت میں مسلم ہو چکی ہے۔ جب پاکستان میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کر رہا تھا تو اس وقت چین نے ہی آگے بڑھ کر سرمایہ کاری کی تھی۔ چینی سرمایہ کاری کو پاکستان درست انداز میں سنبھال نہ سکا اور غیر ضروری طور پر مغربی روٹ تیار کر کے قرضوں کا بوجھ ہم نے اپنے اوپر خود بڑھا لیا ۔ لیکن اگر اب بھی سمجھ داری سے چین سے معاملات کئے جائیں تو ان قرضوں کے معاملات کو بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ اگر سفارت کاری میں سمجھ بوجھ دکھائی جائے تو پاکستان ان دونوں ممالک کو ایک ساتھ لے کر چل سکتا ہے جو ان دونوں کی بھی ضرورت ہے۔

(یہ تقریر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں امریکہ اور چین کے امکانی مشترکہ مفادات‘‘ کے موضوع پر کی گئی)

تازہ ترین