وطن عزیز میں حالات تیزی سے خراب ہورہے ہیں ۔ہر شخص پریشان حال ہے، کسی بھی شخص کی عزت و آبرو محفوظ ہے نہ ہی جان و مال۔ سڑکوں پر روزانہ ہی ہمارے مستقبل کو ظالمانہ طریقے سے کچلا جا رہا ہے اور اشرافیہ کے سر پھرے اورنو دولتیے وطن عزیز میں غالب اکثریت رکھنے والے مڈل کلاس طبقے اور غریبوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ جو ملک کے وسائل کو بھی بری طرح چاٹ رہے ہیں، وہ انسانی جان کی قدر و قیمت کو ایک کوڑی کے برابر نہیں سمجھتے۔ روزانہ ہی وطن عزیز کی سڑکوں پر نشے میں دھت افراد، یہ نشہ اقتدار کا بھی ہے، طاقت اور مال و دولت کا بھی اور منشیات کا بھی ہے، عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہوئے کچل کر مار رہے ہیں اور وطن عزیز کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام الناس کو تحفظ دینے کے ذمہ دار ادارے بجائے اس کے کہ انہیں قانون کے شکنجے میں جکڑیں، وہ ان کی حفاظت کے لیے جوق در جوق جمع ہو جاتے ہیں اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر یہ دیکھا اور سنا گیا ہے کہ ان عناصر کو کبھی پاگل، کبھی ذہنی مریض اور کبھی کسی بیماری کے زیر اثر قرار دے کر قانون کی گرفت سے بچا لیا جاتا ہے۔
جس ملک میں ریمنڈ ڈیوس جیسے غیر ملکی کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر اس کے ملک بھیج دیا جائے وہاں انصاف اور قانون کی حکمرانی صرف نصابی کتابوں کی حد تک ہی دکھائی دے دیتی ہے۔ چند روز قبل کراچی میں ایک کھرب پتی شخص کی سات کمپنیوں کی ڈائریکٹر اہلیہ نے یونیورسٹی کی طالبہ اور اس کے سن خوردہ محنت کش باپ کو کچل کرجان سے مار دیا اور دیگر کئی لوگوں کو بھی زخمی کر دیا۔ یہ باپ بیٹی اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں اپنا مقدمہ لے کر جبکہ زخمی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ارب پتی انگلی کے اشارے سے پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے والی مبینہ پاگل عورت جسے ہسپتال کے ایک غیر مسلم ڈاکٹر نے صحت مند قرار دے کر چیف جسٹس رانا بھگوان داس کی لاج رکھ لی، کو عوام نے جائے حادثہ پر گھیرے میں لیا تو اسےرینجرز کے اہل کاروں نے مکمل تحفظ دیا (کاش ایسا وطن عزیز کی ہر ہما و سیما کے لیے بھی کیا جاتا) اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچایا پھر ان کے وکیل صاحب نے آتے ہی اس کی وکالت یوں کی کہ ’’یہ خاتون تو ذہنی طور پر ڈسٹرب ہے اسے کچھ نہ کہا جائے‘‘۔
اب کیا کہا جائے وطن عزیز کے نظام کو، برسوں سے ایک ہی طبقے کے لوگوں کا سانس بند کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف بے گناہوں کے سانس کی ڈوری کاٹنے والی اس اشرافیہ کوکھلی چھوٹ دی ہوئی ہے جسے چاہے کچل دیں، جسے چاہے مار دیں، جس پر چاہے تشدد کریں اور جسے چاہے چھوڑ دیں۔ بے شمار ایسی کمسن بچیاں اور بچے جو اشرافیہ کے گھروں میں چند ہزار کے عوض غلام کے طور پر نوکر رکھے گئے ہیں ان پر جو تشدد اور ظلم ہوتا ہے وہ ساری قوم دیکھ چکی ہے۔ ان ظالم مالکان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ انہیں فوری ضمانت بھی ملی اور ان کے گناہوں اور مظالم پر پردہ بھی ڈال دیا گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر ہی سنتے ہیں، ہر ایسے واقعہ کے بعد کہ ’’اب ایسا نہیں ہوگا، کمسن بچوں کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جائے گا‘‘ اور بھی ایسے بے شمار اقدامات گنوائے جاتے ہیں جو روبہ عمل ہوں گے لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ یہ نظام ظلم کا نظام ہے، ظلم کی اندھی طاقت سے اسی طرح چلتا رہے گا، اس کی شکل البتہ بدلتی رہے گی ۔ اس نظام کو بدلنا صرف عام آدمی کے بس کی بات ہے لیکن وہ عام آدمی جو نان جویں کو رو رہا ہے اسے آگے بڑھنے کے کوئی مواقع میسر نہیں۔ پانچ سال بعد اسے ایک موقع ملتا ہے کہ وہ تبدیلی لائے لیکن صبح اٹھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تبدیلی تو آگئی ہے لیکن یہ وہ تبدیلی نہیں جس کے لیے اس نے اپنا ووٹ دیا تھا، وہ تبدیلی فارم پینتالیس کی بجائے فارم سینتالیس کی ہے۔ کیا کیا جائے اس نظام کا کہ جس کی ابتداہی ظلم، بے ایمانی سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے۔ مثالیں بنتی ہیں، سامنے آتی ہیں اور ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ یہاں سب اچھا ہے لیکن صرف نصابی کتابوں میں، باتوں میں، ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں، حکمرانوں کی گھنٹوں پر مشتمل پریس کانفرنسوں میں۔ کہا جاتا ہے یہ ہوگا اور وہ ہوگا، ایسا کریں گے ویسا کریں گے لیکن ایسا ویسا کچھ بھی نہیں ہوتا، وہی ہوتا ہے جو حکمران چاہتے ہیں۔
حال ہی میں پنجاب میں حکومت نے دو سو ایک یونٹ سے پانچ سو یونٹ تک کےبجلی صارفین کیلئے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے 14 روپے فی یونٹ ریلیف کا اعلان کیا تھا۔ ابھی اس خوشگوار اعلان کی بازگشت ختم بھی نہ ہو پائی تھی کہ معلوم ہوا اب ہر ماہ آپ بجلی استعمال کریں یا نہ کریں آپ کو ہر صورت ایک ہزار روپیہ ماہانہ ٹیکس کی صورت میں دینا پڑے گا۔ یہ ایک دو ماہ کے لیے نہیں بلکہ سالہا سال کے لیے ایک درد ِسر بنا دیا گیا ہے۔ پہلے جس شخص کا بل دو ہزار روپے آتا تھا اب وہ تین ہزار روپے آئے گا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی عدالتوں میں جاکر ایسے ٹیکس کو ختم کروانے والا نہیں۔ اگر جج صاحبان فیصلہ سناتے بھی ہیں تو اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ جب ایک بڑے منصب پر بیٹھے شخص سےکسی عام آدمی کی سنوائی نہیں ہوتی تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔