اُمِ حفصہ (انشراح) نے اپنا بازو ہوا میں بلند کر رکھا تھا اور ہتھیلی پہ ڈیڑھ سالہ ہیثم کو کھڑا کیا ہوا تھا۔ ’’یہ دیکھو عبداللہ! ہیثم میری مُٹھی میں ہے۔‘‘ اُس نے تین برس کے عبداللہ کو متوجّہ کیا، جو پاس ہی بیٹھا اپنے کھلونوں سے کھیلنے میں مگن تھا۔ ’’مجھے بھی…مجھے بھی…‘‘ وہ دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کرتا شوق اور جوش سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُمِ حفصہ نے ہیثم کو بھینچ کے پیار کیا اور زمین پر بچھے بستر پر بٹھا دیا۔ ’’اب عبداللہ کی باری…‘‘ وہ عبداللہ کی جانب بڑھی۔ ’’نہیں، مجھے ہیثم کے ساتھ کھڑا کریں۔‘‘
عبداللہ نے منہ بسور کر عجیب سی فرمائش کی۔ ’’یا روحی، یا قلبی، یاعبداللہ! یہ کیسے ہو سکتا ہے بھلا؟؟‘‘ انشراح نے اُس کے چہرے کے سامنے اپنا چہرہ کیا اور لمحے بَھر میں اُس کے ماتھے پہ زور سے بوسہ دے دیا۔ تین سالہ عبداللہ کو کس طرح منانا ہے، وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ حفصہ، خیمے کے ایک طرف بستر پر لیٹی تھی اور ماں اور بھائیوں کی آوازوں کے باوجود گہری نیند میں تھی۔ ارضِ مقدّس میں بچّوں کی نیند بہن بھائیوں کے شور سے بھلا کب خراب ہوتی ہے۔ اُمِ حفصہ نے نظر بھرکر بیٹی کو دیکھا اور ہیثم کو سیدھا کر کے لٹانے لگی۔ جانے وہ کب کھیلتے کھیلتے نیند کی وادی میں چلا گیا تھا، جب کہ عبداللہ ابھی تک اُس کے سینے سے چمٹا ہوا تھا۔
’’چلو آؤ عبداللہ! تمہیں آسمانوں کی سیر کرواؤں۔‘‘ انشراح نے عبداللہ کا ہاتھ تھاما اور خیمے سے باہر لے آئی۔ ہرطرف اندھیرا تھا، آسمان پر چاند، تارے تھے تو ضرور، مگر اہلِ غزہ کو دکھائی نہ دیتے تھے۔ لاکھوں، کروڑوں مسلمان بھی تو اِن تاروں ہی کی مانند تھے۔ دُور، بہت دُور چند ٹمٹماتے تارے تھے، پر اُن تاروں سے بھی اُمید کہاں تھی۔ اُمید تو ایمان سےجُڑی تھی اور ایمان، رب سے جُڑا تھا۔ رب، جس کا عرش آسمانوں پہ تھا۔
رب، جو دُور بھی تھا اور بہت پاس بھی۔ انشراح نے عبداللہ کو ہتھیلی پر کھڑا کرکے، اپنے بازوؤں کو اونچا کیا۔ اُسے سنبھالنے کے لیے اُسے دونوں ہتھیلیاں لگانی پڑی تھیں۔ ’’مگر آپ نے ہیثم کو زیادہ دیر اُٹھایا تھا…‘‘ اُس نے تھک کر جلدی ہاتھ نیچے کرلیے، تو عبداللہ نے شکوہ کیا۔’’میرے ہاتھ دُکھ گئے عبداللہ!!‘‘ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور عبداللہ کا بازو کھینچ کر اُسے بھی ساتھ ہی بٹھالیا۔
’’اچھا چلو، یہ بتاؤ، وہاں آسمانوں میں کیا ہے؟‘‘ عبداللہ کی نظروں نے اُس کی انگلی کے اشارے کا تعاقب کیا۔ ’’وہاں ہمارے اللہ میاں ہیں۔‘‘ عبداللہ نے فوری جواب دیا۔ ’’اور…؟‘‘ انشراح کی سرگوشی بلند ہوئی۔ ’’اور… اللہ میاں کی جنّت۔‘‘ عبداللہ نے بھی اپنی آواز، ماں کی آواز کی طرح سرگوشی میں بدل ڈالی۔ ’’اور…وہ جنّت کیسی ہے؟؟‘‘ ماں نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر پوچھا۔ ’’زمین اور آسمان سے بھی بڑی اور خُوب صُورت۔‘‘ عبداللہ کے لہجے میں اتنا یقین تھا، جیسے جنّت تصّور سے نکل کر اُس کے سامنے آگئی ہو۔
’’جنّت میں کون ہے عبداللہ؟‘‘ انشراح بھی مستقل آسمان ہی کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیے جا رہی تھی۔ ’’ہمارے نبی ہیں ماں!‘‘ عبداللہ نے ایک جذب سے کہا۔ ’’صلی اللہ علیہ وسلم…میرے ماں باپ اُن پر قربان۔‘‘ انشراح کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ’’اور کون ہے عبداللہ …؟‘‘ انشراح بار بار ایک ہی سوال پوچھے جا رہی تھی۔ ’’ماں! وہاں میرے بابا ہیں، نانا ہیں، چچا عُمر، چچا عمیر اور دادا، دادی ہیں۔‘‘عبداللہ نام لیتا چلا گیا اور اُمِ حفصہ کی نظروں کے آگے سیاہ آسمان ایک روشن پردے میں بدلنے لگا۔ ’’اور… میرے دوست ہیں ماں! عبدالحئی، کریم، عبیدہ، احمد، محمّد…‘‘ عبداللہ نام لیتا جا رہا تھا اور آسمان کے پردے پر جگمگاتے چہرے بَھرتے چلے جا رہے تھے۔ ’’اور، وہاں خالہ رمیصہ ہیں ماں! آپ کی سہیلی ہیں، اور اُن کی والدہ اور اُن کے بھائی۔‘‘
عبداللہ کی آواز نیند سے بوجھل ہوتے ہوتے مدھم ہوگئی تھی۔ اُس کے الفاظ ناقابلِ فہم ہو چلے تھے، مگر آسمان روشنیوں سے پُر، چہروں سے منوّر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ ’’آپ نے ہمیں ایک مُٹھی میں نہیں کھڑا کیا ماں!!‘‘ گہری نیند میں جانے سے پہلے عبداللہ بڑبڑایا تھا۔ اُمِ حفصہ نے اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے۔ زور سے سینے سے لگا کے بھینچا اور پھر گود میں اُٹھا کر خیمے کے اندر چلی گئی۔
فرشی بستر پر لیٹتے ہوئے عبداللہ ذرا سا کسمسایا۔ ’’سوجاؤ، میرے دل۔ یا روحی، یا قلبی۔‘‘ ہیثم اور عبداللہ کے درمیان جگہ بنا کر لیٹتے ہی اُس کی آنکھ لگ گئی۔ رات گئے اُس کی آنکھ کُھلی تھی۔ عبداللہ اور ہیثم دونوں ہی اُس سے لپٹے ہوئے تھے۔ حفصہ بھی رات کے کسی پہر اُس کے اور قریب آچُکی تھی۔ خیمے میں ویسے بھی جگہ ہی کتنی تھی۔ اُس نے احتیاط سے بچّوں کو خُود سے الگ کیا اور تہجّد کی نیّت سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ بیت الخلا خیمہ بستی کے دوسرے کنارے پر بنائے گئے تھے۔
وہ سرجُھکائے آہستہ آہستہ اُس جانب بڑھتی چلی جارہی تھی۔ دل ہی دل میں اللہ کو پکارتے اُس سے تعلق بناتے اُس نے وضو کیا اور آستینوں کو ٹھیک کرتے واپسی کے لیے قدم بڑھا دیئے۔ مگر…اُس کا دوسرا قدم زمین پر پڑنے سے پہلے ہی زمین پوری شدّت سے لرز اُٹھی۔ فضا دھماکوں کی آواز سے گونج رہی تھی۔ اُس نے اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھے اور زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
وہ اپنے ارد گرد سے بے نیاز وہیں بیٹھی تھی، جہاں کچھ دیر پہلے اُس کا خیمہ تھا، جہاں اُس کی دنیا تھی۔ پر، اب وہاں صرف راکھ تھی۔ وہ خالی نگاہوں سے اپنی بند مُٹھی کو تک رہی تھی۔ اُس کی مُٹھی میں اُس کے خیمے کی راکھ بَھری تھی۔ ’’آپ نے ہمیں ایک مُٹھی میں کھڑا نہیں کیا ماں…‘‘عبداللہ کی آواز کہیں پاس ہی سے گونجی۔ اُس نے سر جُھکا کر اپنی مُٹھی کی طرف دیکھا۔ اُس کی مُٹھی میں اُس کا دل تھا۔ وہ دل، جو بظاہر دھڑکنے سے قاصر ہوچُکا تھا۔