تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے نسیمِ سحر کے جھونکے بھی اُسے سحرانگیز نہ کرسکے کہ ایک تو وہ گھر سے ناشتا کیے بغیر آئی تھی، اوپر سے اُس کے ڈائریکٹ رُوٹ کی بس بھی نکل چُکی تھی اور اگلی بس ٹھیک بیس منٹ بعد آنی تھی۔ اُس نے پیدل ہی چلنا شروع کردیا کہ تھوڑا آگے جا کر چنگچی کا اسٹاپ تھا اور دوچنگچیاں بدل کر ہی سہی، وہ لیٹ ہونے سے بچ سکتی تھی۔ اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچتے پہنچتے وہ پسینے میں شرابورہوچُکی تھی۔ مقامِ شُکر تھا کہ سامنے ہی چنگچی نظر آگئی۔
سوار ہوئی تو پتا چلا کہ ابھی مزید دو سواریوں کا انتظار ہے۔ اللہ اللہ کرکے سواریاں آئیں تو چنگچی آگے بڑھی۔ دورانِ سفر دائیں بائیں دیکھا۔ نگاہ، قطاردرقطار چلتی گاڑیوں سے پھسل کرپلٹ آئی۔ ’’کیا تھا اللہ جی! اگر ایک چھوٹی سی گاڑی مجھے بھی دے دیتے، اور کچھ نہیں تو ایک بائیک ہی دے دیں۔‘‘اریبہ نے سوچا اورخُود ہی مُسکرا دی۔ ’’ہونہہ بائیک!!! چلانے دے ہی نہ دے تمہاری امّاں تمہیں۔‘‘ اُس نے ہنس کر خُود ہی کو چپت رسید کی۔
یونی ورسٹی پہنچ کر معلوم ہوا کہ جس کلاس کی خاطر اتنے جتن کرکے آئی تھی، وہ ناگزیر وجوہ کی بنا پرکینسل کردی گئی ہے۔ اب اگلا پیریڈ دو گھنٹے بعد تھا۔ بھوک و پیاس کی شدت کے ساتھ سفر کی صعوبتیں کاٹ کر یہ خبر ملنا اُس کے لیے جس قدرباعثِ کوفت تھا، وہی جانتی تھی۔ ’’ہائے اریبہ! ہم کیفے جارہے ہیں، تم چل رہی ہو؟‘‘سامنے اُس کے کلاس فیلوز کا جتھا کھڑا تھا۔ ’’کیفے…؟‘‘اُس نے غائب دماغی سے پوچھا۔
ساتھ ہی بیگ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا۔ واپسی کےکرائے کے سوا کوئی رقم اُس کے پاس نہ تھی۔ وہ جلدی میں پیسے لینا بھی بھول گئی تھی۔ ’’ارے! کیا سوچ رہی ہو، چلو آؤ، ابھی دو گھنٹے پڑے ہیں اگلے پیریڈ میں، آج فاکہہ کی طرف سے ٹریٹ ہے۔‘‘اینجلا نے اُسے کھینچا تو وہ ساتھ چل پڑی۔ ’’مگر یہ ٹریٹ ہے کس خوشی میں ؟‘‘ اُس نے چلتے چلتے پوچھا۔’’تم آم کھاؤ آم، پیڑ گننے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ایک دوست کی آواز آئی اور سب کِھلکھلا کے ہنس دئیے۔
وہ جلدی جلدی ہاتھ چلا کر پالک کے پتّے چُنتے ہوئے، صاف پتّے مٹھی میں بھرتی جارہی تھی۔ مٹھی بَھرجاتی توتیز تیز پالک کاٹ کرتسلے میں ڈالتی جاتی،ساتھ ہی یوٹیوب پرمشہور و معروف موٹیویشنل اسپیکرکی پُرمغز گفتگو بھی سُن رہی تھی۔ وہ حیا اورحجاب کےموضوع پر بہت مدلل انداز میں بات کررہے تھے۔ ’’حجاب دراصل حیا کا تقاضا ہے۔
یہی کسی کےحیادار ہونےکی پہلی نشانی ہے۔‘‘ اچانک ہی پاس بیٹھی رسالہ پڑھتی تسمیہ نے منہ پھاڑ کرہنسنا شروع کردیا۔ ’’تمہیں کیا ہواہے، کہیں پاگل واگل تونہیں ہوگئی؟‘‘ اریبہ نےغصّے سے اُسے گھورا۔ ’’ارے نہیں، مجھے تو یہ سوچ کر ہنسی آگئی کہ مرد بےچارے تو حجاب نہیں پہنتے، توکیا وہ سارے بےحیا ہی کہلائیں گے…‘‘جملہ ادھورا چھوڑ کر وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونے لگی۔
بات سمجھ کر اریبہ بھی مُسکرا دی۔ ’’ارےبھئی،خواتین کی بات ہو رہی ہے۔‘‘اریبہ یہی کہہ سکی۔ ’’اچھاجی! تو پھر توحجاب، حیا کی ڈگری ہوگیا کہ جسے اوڑھنے والی تمام لڑکیاں بالیاں، ناریاں، خواتین باحیا ہیں اورباقی سب بے حیا؟‘‘تسمیہ نے آنکھیں گھمائیں ’’ایسا کب کہہ رہے ہیں وہ…‘‘اریبہ زِچ ہوگئی۔ ’’اچھا پھر کیا کہہ رہے ہیں، مجھے بتاؤ ؟‘‘تسمیہ کوجواب چاہیےتھا۔ ’’چُپ ہوجاؤ، تم توبس فضول بولےجاتی ہو۔ بس کردو، معاف کردو، بےچارے حجاب اور حیا کو۔‘‘اریبہ نے کٹی ہوئی پالک کا تسلہ اٹھا کرسنک میں نل کے نیچے رکھ دیا۔ یہ اشارہ تھا کہ وہ بحث کے مُوڈ میں بالکل بھی نہیں ہے۔
پالک دھو کر رکھی ہی تھی کہ ڈوربیل بجی۔ ’’جاؤ دیکھو، امّاں آگئی ہوں گی۔‘‘اریبہ نے تسمیہ کو باہر بھیجا اورخُود پالک چولھے پر چڑھانے لگی۔ کچن سے باہر آئی، تو امّاں بڑی خاموش سی تخت پر بیٹھی نہ جانے کن سوچوں میں گم تھیں۔ ’’کیا ہوا امّاں! پریشان کیوں ہیں، کیا بات ہوئی تایا جان سے؟‘‘وہ اُن کے پاس ہی جا کے بیٹھ گئی۔ ’’کچھ نہیں اور کیا کہہ سکتے تھے وہ، وہی حالات کا رونا اور خرچوں کی طویل فہرست، بس اب مجھے اچھا نہیں لگتا، اُن کے پاس جانا…‘‘ امّاں واقعی پریشان تھیں۔ ’’ارے واہ، کوئی خیرات تھوڑی لیتے ہیں ہم اُن سے، جو وہ اِس طرح بات کرتے ہیں۔ کاروبار میں حصّہ ہے ہمارا۔
آج اگر ابّو پیرالائز ہوگئے ہیں، تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ ہم سے ہمارا حق ہی چھین لیں۔‘‘ اریبہ نے چمک کر کہا۔ ’’قصور تمہارے ابّو کا بھی ہے، اُنہیں خُود بات کرنی چاہیے۔ بڑے بھائی ہیں تو کیا ہوا، اپنا حق ہی تو مانگنا ہے۔ خُود بات کریں، ہمیں کیوں اُن کے سامنے کرتے ہیں۔‘‘ امّاں کافی آزردہ تھیں۔ ابّو جان بھی برابر ہی کمرے میں موجود تھے۔
باتیں سن کر وہیل چئیر گھسیٹ کے اُن کے پاس آ بیٹھے۔ ’’مَیں نے کہا تھا بھائی صاحب سے کہ اِس ماہ کا جو پرافٹ آیا ہے، بھجوا دیں۔ کہنے لگے، ہاں تمہیں بھجوا دوں تاکہ تم اللے تللوں میں اُڑا دو۔‘‘ ’’کون سے اللے تللے؟‘‘ امّاں کے ساتھ اریبہ بھی تلملا گئی۔ ’’وہ اریبہ کے یونی ورسٹی میں ایڈمیشن کو فضول خرچی کہہ رہے تھے۔‘‘
ابو جان نے نظریں چُرا کر بتایا۔ ’’تو…؟ ان کے بچّے بھی تو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں اور پھر…‘‘’’بھائی صاحب خُود کماتے ہیں اور پھر اُن کے بیٹے ہی ہیں۔ وہ تمھاری طرف سے فکرمند تھےکہ لڑکی ذات ہے اور اس طرح یونی ورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ …‘‘ ’’ارے تو بے پردہ تھوڑی ہیں ہماری بیٹیاں، باقاعدہ حجاب میں جاتی ہیں۔‘‘ امّاں کو سخت بُرا لگا۔ اندر آتی ہوئی تسمیہ نے آدھی بات ہی سُنی تھی۔ دھم سے آ کر امّاں کے برابر بیٹھ کر بولی۔ ’’ہاں ناں، ہم تو حجاب کرتی ہیں، حیادار ہیں۔
اُن کے بیٹے کیا حجاب پہنتے ہیں؟ آج ہی مَیں نے سُنا، مولانا کہہ رہے تھے کہ حجاب ہی حیا ہے، جو حجاب نہیں کرتا، وہ حیادار نہیں۔‘‘اریبہ نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ’’تم فوراً جائو یہاں سے…‘‘ اس سے امّاں، ابّو کے پریشان چہرے نہیں دیکھے جارہے تھے۔’’آپ فکر نہ کریں، اپنا تعلیمی خرچہ میں خُود اُٹھا لوں گی۔ آپ لوگ بس گھر مینیج کر لیں۔ جس طرح تایا جان دیتے ہیں، دیکھ لیں، بس پریشان نہ ہوں۔‘‘ ابّو جان نے اپنی آنکھوں کی نمی چُھپا کر اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
’’تسمیہ جلدی باہر نکلو، مجھے دیر ہورہی ہے۔‘‘ اریبہ بائیک اسٹارٹ کرکے ایکسیلیٹر دباتے ہوئے چلّائی۔ ’’ارے بابا آگئی آگئی…‘‘ تسمیہ نے اپنا حجاب، عبایا سمیٹا اور اُچھل کے اریبہ کے پیچھے بیٹھ گئی۔‘‘ جب سے ٹیوشن کے پیسے جمع کر کےاُس نےسیکنڈ ہینڈ بائیک لی تھی، تسمیہ کو اس کے کالج چھوڑتے ہوئے یونی ورسٹی جاتی تھی اور اِسی طرح واپسی میں ساتھ لیتے ہوئے آتی۔ گھر آکر بچّوں کو ٹیوشن دیتی، امّاں کا بھی ہاتھ بٹاتی اور پھر رات گئے تک اپنی پڑھائی کرتی۔
دن یوں ہی گزرتے چلےجا رہے تھے۔ امّاں اور ابّو جان نے اب تایا جان سے روپے پیسے کے معاملے میں کچھ بھی کہنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ جتنی رقم دیتے، اُسی سےگھر کا خرچ چلاتے، حالاں کہ پیرالائز ہونے سے پہلے ابّو جان کی محنت ہی سے کاروبار اتنا چمکا تھا، مگر جب سے وہ کسی کام کے قابل نہیں رہے تھے، یہاں تک کہ وہیل چیئر پر بھی زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتے تھے، تایا جان کا رویہ ایسا ہی تھا۔
آج یونی ورسٹی میں خاصی گہما گہمی تھی۔ نئے داخلوں کے بعد ہر ڈیپارٹمنٹ میں ویلکم پارٹی چل رہی تھی۔ اِسی لیے اریبہ آج اپنے ساتھ تسمیہ کو بھی لے آئی تھی۔ وہ اکثروبیش تراُسے اپنے ساتھ یونی ورسٹی لے آتی تھی۔ آج بھی دونوں ایک ساتھ بیٹھی پروگرام سے لُطف اندوز ہو رہی تھیں۔ مختلف خاکے، ڈرامے، ٹیبلوزچل رہے تھے۔ ’’ارے، یہ وہی لڑکی نہیں، جو عبایا، حجاب ایسے پہنتی تھی کہ چہرہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔‘‘
تسمیہ نے ایک دَم سے ایک طرف دیکھ کر اریبہ کا بازو کھینچا۔ ’’ہاں ناں تو…‘‘ اریبہ نے بے پروائی سے جواب دیا۔ ’’دو سال سے تو مَیں خُود دیکھ رہی ہوں کہ یہ ہمیشہ نقاب ہی میں ہوتی تھی، مگر آج…اور یہ اِس کے ساتھ کون ہے، یہ تو آپ لوگوں کا کلاس فیلو ہی ہے ناں، جسے سب ’’انکل‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ اُف! یہ تسمیہ کے فری لانس تبصرے…اریبہ نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’ہاں ہاں امّاں جان! یہ وہی ہے، مگر تم کیا چاہ رہی ہو، اپنا باجا بند کرو۔‘ ’’مَیں تو کچھ بھی نہیں چاہ رہی۔ بس، دیکھ رہی ہوں کہ ہو کیا رہا ہے۔
یہ کس طرح تیار شیار ہو کر جالی جیسے دوپٹےمیں ’’انکل‘‘ کے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں کھا رہی ہے۔‘‘ تسمیہ کی لائیو کمنٹری پر اریبہ نے اُسے جلدی سے گھسیٹا اور باہر لان کی طرف چل پڑی۔ ’’اِدھرمَرو تم، کیا بکواس کر رہی ہو؟ آئندہ مَیں تمہیں کبھی ساتھ لے کر نہیں آؤں گی۔‘‘ اریبہ کو غصّہ آ رہا تھا۔ ’’مَیں نے کیا غلط کیا ہے۔ شرم تو اُسےآنی چاہیے۔ حجاب بطور لباس اختیارکیا جاتا ہے اور اگر کرلیا، تو کرلیا۔ اُسے اُتار پھینکنا ایسا ہی ہے، جیسے کوئی مکمل لباس اُتار دے۔ یہ کیا تماشا ہوا کہ کبھی پہنا، کبھی اُتار دیا۔ جیسے آج مغرب میں لباس کا حال ہو چُکا کہ کبھی پہنا، کبھی اُس میں صرف بازو یا ٹانگیں اَڑا دیں اور کبھی پورا ہی اُتار دیا۔ وہاں کسی نے ٹوکا نہیں ہوگا ناں۔
بس، ’’چلتا ہے‘‘ کہتے رہے۔ سو، پہلے سلیولیس ہوا، پھربیک لیس، اورپھرلیس ہی لیس…‘‘ تسمیہ کو واقعی بہت بُرا لگا تھا شاید۔ ’’ارے بھئی، یہ نارمل ہے۔ یہاں تو لڑکیاں گھر سےعبایا، اسکارف کس کر آتی ہیں اور آتے ہی جب اُتارتی ہیں، تو اندر سے جینز، ٹائٹس اور کپریز میں ملبوس نکلتی ہیں اور پھر اِسی طرح پوری یونی ورسٹی گھوم گھام کے گھر جاتے ہوئے دوبارہ ’’باحجاب‘‘ ہوجاتی ہیں۔ کبھی جلدی میں میک اَپ نہ کرپائیں، تو سارا دن باحجاب رہتی ہیں، مگر جس دن آنکھ کٹارا ہونٹ انگارہ کر کے آئیں، تو جگہ جگہ جلوے بکھیرتی پِھرتی ہیں۔
بس یہی ہوتا ہے ادھر۔‘‘ اریبہ تو عادی تھی، سو بولتی چلی گئی۔ ’’اگر ایسا ہے، تو پھر مغربی ثقافت کو ہم خُود ہی ہوا دے رہے ہیں۔ اب پوری دنیا تو یومِ حجاب منا رہی ہے اور ہم نے حجاب کو بس ایک دھجی سمجھ لیا ہے، جو کبھی سر پر باندھ کرگھوما جاتا ہے، تو کبھی اُسی کوجوتوں کی گرد صاف کرنےکے لیے استعمال کرلیتےہیں۔ تم دیکھنا، کل پوری دنیا میں حجاب کا چلن عام ہوجائے گا، مگر ہمارے ہاں اس ڈیڑھ گزکےٹکڑے کے ساتھ یہی منافقت چلتی رہے گی۔‘‘ تسمیہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رہی تھی۔
’’اچھا چلو چھوڑو، گھر چلتے ہیں۔ اماں، ابو جی انتظار میں ہوں گے۔‘‘اریبہ اُسے لیے لیے پارکنگ کی طرف آگئی۔ اُن کے جانے کے بعد اُسی لڑکی نے، جو انکل ٹائپ لڑکے کے ساتھ رازو نیاز کرتی ایک ہی پلیٹ سے کھانے میں مصروف تھی، اپنی مسکارا زدہ پلکیں پٹپٹا کے، ناز سے ہونٹ سکیڑ کرکہا۔ ’’ہونہہ! ویسے بڑی باحجاب بنتی ہیں اور شرم نہیں آتی، لڑکوں کی طرح بائیک چلاتی ہیں۔‘‘ ’’ہاں، تم صحیح کہہ رہی ہو پنکی۔‘‘ لڑکے نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
آج یونی ورسٹی کا سالانہ کنونشن تھا اور اریبہ اپنے چار گولڈ میڈلز کے لیے اپنے والدین کے ساتھ موجود تھی۔ اُس کی فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کا گولڈ میڈل اور تین مختلف مضامین میں یونی ورسٹی بَھر میں ٹاپ کرنے کے گولڈ میڈلز، جنہیں وصول کر کےجب وہ گھر پہنچے، تو گلی محلے کے جاننے والے کئی افراد نے راستے ہی میں روک کر مبارک باد دینی شروع کردی۔ گھر پہنچتے تو تانتا بندھ گیا۔ سب آج بہت خوش تھے، اریبہ نے باہر سے کھانا آرڈر کیا تھا۔
ابوجان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ ’’میری بیٹی نے کیسے بیٹا بن کر سب سہا اور دیکھو، اللہ نے اُسے کیسا اجر دیا۔ میرے پاس الفاظ نہیں، اپنی خوشی بیان کرنے کے لیے۔ بس، دُکھ یہ ہے، مَیں اپنی بیٹیوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا۔ کیا تھا، اگر بھائی جان خوش اسلوبی سے ہمارا حصّہ دیتے رہتے، تو آج میری اریبہ کو اس قدر مشقّت تو نہ اُٹھانی پڑتی۔‘‘ ’’چلیں چھوڑیں یہ باتیں، اللہ نے ہمیں محروم تو نہیں رکھا ناں۔ ہوسکتا ہے، بھائی جان اگر ساتھ دیتے تو ہماری بچیوں میں اس طرح اپنی محنت سے آگے بڑھنے کی لگن نہ جاگتی۔ جو ہوا، اچھاہوا اور آگے بھی اچھا ہی ہوگا۔ آپ فکر نہ کریں۔‘‘ امّاں نےایک اچھے شریکِ سفر ہونے کا حق ادا کیا۔
تیزی سے موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آتی بائیک سےٹکر ہو گئی۔ بائیک پرموجود تیرہ چودہ سالہ لڑکا بائیک سمیت گرگیا تھا۔ اریبہ نے دونوں پاؤں زمین پر ٹکا کے، سارا وزن پنجوں پر منتقل کرکے بمشکل خود کو اور بائیک کو ایک ساتھ سنبھالا۔ گرا ہوا بچّہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ’’اوئے کاکے! زیادہ چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘ اریبہ نے پوچھا۔ نئیں باجی! لیکن دیکھ کرچلایا کرو ناں۔‘‘
بچّہ اپنی چِھلی ہوئی کہنی سہلا کر ناراضی سے بولا۔ ’’ارے واہ! تیز تیز تو تم آرہے تھے اور کہہ مجھے رہے ہو۔‘‘ اریبہ غصّے سے کہہ کر آگے بڑھ گئی۔ اُسے گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ تسمیہ نے چُھٹی کی ہوئی تھی اور اُسے امّاں نے جلدی واپس آنے کا کہا ہوا تھا۔ بچّے کو ڈپٹ کر وہ آگے بڑھی، تو سامنے سے تایا جان کی گاڑی آتی دکھائی دی، مگر اُس نے بھی بغیر دوسری نظر ڈالے ناک کی سیدھ میں جو بائیک چلائی تو گھرجا کر ہی روکی۔ گھر داخل ہوتے ہی دیر ہونے پر امّاں کی ڈانٹ پڑی، تو سیدھی واش روم گُھس گئی اور امّاں کی ہدایت پر پانچ منٹ میں کپڑے تبدیل کر کے باہر آ گئی۔
دراصل آج اسے دیکھنے کچھ لوگ آرہے تھے۔ ڈور بیل بجنے پر دروازہ کھولا گیا، تو تایا جان اور تائی جان کو سامنے موجود پایا۔ تائی جان نے آگے بڑھ کر اریبہ کو چٹا چٹ پیار کیا، تو پیچھے کھڑی اماں اور تسمیہ مارے حیرت کے گنگ سی ہو گئیں۔ ’’تم نے ہمیں دیکھ کربائیک روکی کیوں نہیں، کیوں بھئی کیا تمھارے تایا، تائی اتنے ہی خوف ناک ہیں؟‘‘پیچھے مٹھائی کے ٹوکرے ہاتھ میں لیے کھڑے اُس کے تایا زاد نے سرزنش کی، تو اریبہ کنفیوژ ہوگئی۔ ’’جی نہیں وہ…آئیں ناں آپ لوگ اندر…‘‘امّاں نے بھی آگے بڑھ کر سلام، دُعا کے بعد ان کی ڈرائنگ روم کی طرف رہنمائی کی۔
’’ارے واہ! یہاں تو پہلے سے چائے وائے کے انتظامات ہیں، لگتا ہے آپ کو معلوم تھا، ہم آرہے ہیں۔‘‘تائی جان خوش ہوگئیں۔ ’’نہیں بھابھی! آپ لوگ تو عرصہ ہوا، کبھی آئے ہی نہیں۔ وہ توا ٓج اریبہ کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں۔‘‘ ابو جان بھی وہیل چیئر گھسیٹتے آگئے تھے، تو اُنھوں نے بات سنبھالی۔ ’’ہیں… اریبہ کو دیکھنے؟‘‘تایا، تائی پریشان ہوگئے۔’’جی، لڑکا بھی ساتھ آرہا ہے۔‘‘ ابھی بات امّاں کے منہ میں ہی تھی کہ ڈور بیل بجی اور وہ لوگ، لڑکے سمیت آن پہنچے۔
’’ارے…آپ…؟؟‘‘ ’’لڑکے‘‘ کو دیکھتے ہی تسمیہ کی تو چیخ ہی نکل گئی۔ ’’کیا بدتمیزی ہے تسمیہ؟؟‘‘ امّاں نے گُھرکا۔ ’’ارے امّاں!ابھی کچھ دن پہلے ہی تو یہ یونی ورسٹی میں ایک خاتون کے ساتھ ’’ہم پیالہ و ہم نوالہ‘‘ تھے۔‘‘ وہ بھی تسمیہ تھی، بھلا کہاں چُپ رہتی۔ اُس کی بلند آواز سُن کر اریبہ نے بھی بے ساختہ باہر جھانکا، تو اُسی ’’انکل‘‘ کو دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گئی اور فوراً کمرے سے باہر نکل آئی۔ ’’تم؟ تمہاری جرات کیسے ہوئی، میرے گھر رشتہ لے کر آنے کی؟‘‘اریبہ کو ٹھیک ٹھاک غصّہ آچُکا تھا۔
بغیر کوئی لحاظ کیے بولنا شروع کردیا۔ ’’آپ لوگوں کو اِس نے بتایا نہیں کہ اِس کی گرل فرینڈ تو کوئی اور ہے؟‘‘ اریبہ کے مخاطب اُس کے والدین تھے، مگر جواب ’’انکل‘‘ ہی نے دیا۔ ’’وہ صرف گرل فرینڈ ہے، مجھےشادی کے لیے ایک نیک، حیادار، شریف، پاک باز لڑکی چاہیے۔‘‘ اُس کی ڈھٹائی و بےشرمی کمال تھی۔ ’’ارے!! آپ کو نیک، شریف، پاک باز لڑکی چاہیے تو آپ کو یہ کس نے کہہ دیا کہ ہمیں داماد کے نام پر کوئی بدکردار، آوارہ اور ناپاک مرد چاہیے۔‘‘
ابو جان کو بات سمجھنے میں سیکنڈز لگے اور اُس کے بعد پھر وہ تھے اور ان کی صلواتیں۔ ’’دیکھیں بھائی صاحب! لڑکے بالے جوانی میں دوستیاں شوستیاں کر لیتے ہیں، مگر ہمیں خوشی ہے کہ شادی کے لیے ہمارے بیٹے کی چوائس بہت اعلیٰ ہے…‘‘ ’’لڑکے‘‘ کے والد صاحب نے ابھی وضاحتاً اپنے ’’شاہ کار‘‘ کی قصیدہ گوئی شروع ہی کی تھی کہ تایا جان کی تیز آواز گونجی۔ ’’یہ میری بھتیجی ہے اور اِسے میں نے اپنی بہو بنانےکا فیصلہ کرلیا ہے۔ ہمیں اِس کے لیے کوئی رشتہ درکار نہیں۔ آپ فوری طور پر یہاں سے جاسکتے ہیں۔‘‘ آنے والوں نے ہونّق ہو کر اریبہ کے والد کی طرف دیکھا تو انہوں نے بھی اثبات میں سرہلا دیا۔
اُن کے جانے کے بعد سب ڈرائنگ روم میں فق چہرے لیے بیٹھے تھے کہ تایا جان نے بات شروع کی۔ ’’مجھے نہیں پتا تھا کہ یہاں ایسا کچھ چل رہا ہے، ہم تو اسد کے لیے اریبہ اور سعد کے لیے تسمیہ کو مانگنے ہی آئے تھے۔‘‘ ’’ارے بھئی، مانگنے وانگنے نہیں بلکہ یہ بتانے آئے ہیں کہ وہ جو ہم نے نیا گھر بنایا ہے وہ بنایا ہی اس طرز پر ہے کہ ہم سب اکٹھے ہی رہیں گے جائیداد تو سانجھی ہے ہی، گھر اور بچّے بھی ایک ہو جائیں تو زندگی میں آسانی ہی آسانی ہو جائے گی۔‘‘
تائی جان نے کہا، تو سب اس کایا کلپ پرہکّا بکّارہ گئے۔ ’’اصل میں میرے بھائی! تم نے بیٹیوں کی اس قدر اچھی تربیت کی اور مَیں گھر، جائیداد ہی کے چکر میں لگا رہا۔ مَیں مانتا ہوں کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے میری سوچ بالکل غلط تھی۔ تم نے اپنی بچیوں کو تعلیم ہی نہیں، بہترین تربیت بھی دی اور الحمدللہ میرے بیٹے بھی میرے طرزِ عمل کے برخلاف انتہائی نیک، مہذّب اور کام یاب ثابت ہوئے، شاید اِس لیے کہ اللہ نے اُن کے جوڑ اِن بچیوں کے ساتھ جوڑ رکھے تھے۔
سچ تو یہ ہے میرے بھائی! مَیں ہار گیا، تم جیت گئے۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ میرے بیٹوں کے لیے اِن سے بہتر انتخاب کوئی اور ہوسکتا ہے، ہم بڑے مان کے ساتھ آئے ہیں، خدارا مایوس نہ کرنا۔‘‘ تایا جان کے خاموش ہوتے ہی ابوجان نے اُن کے گلے لگ کر رونا شروع کردیا، تو سب ہی آب دیدہ ہوگئے۔ اسد بھائی نے مٹھائی کا ٹوکرا کھولا اور تائی جان نے سب کا منہ میٹھا کروا دیا۔
اریبہ اور تسمیہ اُٹھنےلگیں تو تائی جان نے اُنہیں اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ ’’بیٹیو! اگر تمھیں کوئی اعتراض ہے تو بلاجھجک کہہ سکتی ہو۔‘‘جواباً دونوں نے نظریں جُھکا لیں۔ تسمیہ کو لگا، اُن بہنوں کا حجابی اخلاص اُن کی اور ان کے والدین کی بخشش کا ذریعہ تو بنےگاہی، دنیاوی کام یابی کی سیڑھیاں بھی اِسی کے سبب طے ہونا شروع ہوگئیں۔ جب کہ اریبہ نے آسمان کی طرف دیکھ کر بس اللہ جی سے پیار بَھرا ’’لو یو‘‘ ہی کہا کہ جسےاللہ کے سوا کسی نے دیکھا، نہ سُنا۔