• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حافظ خواجہ شمس الدین محمد، المعروف حافظ شیرازی

فارسی زبان کے نام ور شاعر، مصنّف، حافظ شیرازی کا نام محمد، لقب شمس الدین اور تخلص، حافظ تھا۔ تذکرہ و سوانح کی تمام کتب میں اُن کے سنِ ولادت سے متعلق اختلاف منقول ہے۔ عمومی طور پر مؤ رخین نے حافظ شیرازی کا سالِ ولادت726ھ اور 729ھ کے درمیان قرار دیا ہے۔ تاہم، زیادہ تر محقّقین نے726ھ ہی تحریر کیا ہے۔ 

اُن کے والد، بہاؤالدین تجارت پیشہ تھے اور اصفہان میں قیام پذیرتھے، بسلسلۂ تجارت شیراز آئے، تو یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ حافظ شیرازی کے والد اُن کے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے، چناں چہ اُن کا بچپن یتیمی کی حالت میں گزرا۔ والد نے جو کچھ پس انداز کیا تھا، جلد ہی ختم ہوگیا، تو حافظ شیرازی کے دونوں بھائی تلاشِ معاش میں شیراز سے ہجرت کرگئے۔ 

تاہم، حافظ اپنی والدہ کے ساتھ وہیں قیام پذیر رہے۔ بچپن میں خود کو سخت کوشی کا عادی بنایا اور ایک تنور پر آٹا گوندھنے کی مزدوری کرنے لگے۔ اگرچہ اُن کے اپنے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن دل کے بے حد غنی تھے۔ مزدوری میں ملنے والی رقم کے تین حصّے کرتے۔ ایک، والدہ کی خدمت میں پیش کرتے، دوسرا، اساتذہ کرام کی خدمت میں اور تیسرا حصّہ، اللہ کی راہ میں خیرات کردیتے۔

انہوں نے اپنے دَور کے جیّد اساتذہ سے علومِ متداولہ حاصل کیے، اسی دوران قرآنِ مجید بھی حفظ کیا، اسی نسبت سے ’’حافظ‘‘ تخلص اپنایا۔ انھیں علمِ ہندسہ اور موسیقی سے بھی بہت لگاؤ تھا۔ اُن کے معاصر اور ہم درس، اُنھیں مولانا الاعظم، استاد تحاریرالادباء اور فخرالعلماء کے ناموں سے یادکیا کرتے تھے۔ اُن کے زمانے میں ایران عام طور پر، جب کہ شیراز خاص طور پر شعر و ادب کا مرکز تھا۔ کئی نام وَر شعراء شیراز میں قیام پذیر تھے، پورے ملک میں اُن کے کلام کا طوطی بولتا تھا۔

اس ماحول میں حافظ شیرازی نے شاعری شروع کی۔ ابتدائی طور پر وہ دربارِ شاہی سے قُربت رکھتے تھے اور اس وقت کے دستور کے مطابق بادشاہوں کے قصیدے بھی نظم کیا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس وقت کے بادشاہ نہ صرف اُن کی شاعری کے قائل تھے، بلکہ مختلف اوقات میں اُنھیں انعام و اکرام سے بھی نوازتے۔ حافظ شیرازی نے چار بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ شیخ جمال الدین ابواسحاق اُن کا بڑاقدردان تھا۔ آپ اُس کے دربار سے وابستہ رہے۔ اس کے انتقال کے بعد مبارزالدین پانچ سال تک سریرآرائے مملکت رہنے کے بعد وفات پاگیا، تو اُس کا بیٹا جلال الدین شاہ شجاع مسندِ اقتدار پر فائز ہوا، اور پھر 1384ء میں اُس کے راہئ ملکِ عدم ہونے کے بعد شاہ منصور بن شرف الدین نے عنانِ حکومت سنبھالی۔ 

حافظ شیرازی نے ان تمام بادشاہوں کی تعریف و توصیف کی اور اُن کے درباروں سے خاص قُربت رہی۔ یوں اُن کے کلام کی شہرت سرحدوں کی قیود سے نکل کر چہار دانگِ عالم پھیل گئی۔ مختلف بادشاہوں نے اُنھیں اپنی مملکت میں مدعو کیا اور انعام و اکرام سے نوازا۔ سلطان احمدبن شیخ اویسی، والئ بغداد نے حافظ شیرازی کو بغداد آنے کی دعوت دی۔ محمود شاہ بہمنی نے اُنھیں دکن بلایا، غیاث الدین بن سکندرنے بنگال آنے کی دعوت دی اور زادِ راہ بھی بھجوایا، لیکن حافظ نے اپنا کلام تو بھیج دیا، مگر شیراز چھوڑنا پسند نہ کیا، بلکہ ایک دفعہ دکن جانے کےلیے بندرگاہ پہنچے، جہاز پر سوار بھی ہوگئے، لیکن بادِ مخالف کے باعث ارادہ ترک کردیا اور واپس شیراز آگئے۔

حافظ محمد اسلم جے راج پوری نے اپنی کتاب ’’حیاتِ حافظ‘‘ میں اُن کی ذاتی زندگی کے حالات کچھ یوں بیان کیے ہیں:’’خواجہ کی زندگی درویشانہ اور فقیرانہ تھی۔ ان کے تمام اوقات علمی مشاغل، عبادت اور ریاضت میں صرف ہوتے۔ سیر چشمی اور فیاضی جو بزرگوں کا خاصّہ ہے، ان میں بدرجہ کمال موجود تھی اور دنیاوی جاہ و مال کی خواہش سے ان کا رُتبہ بہت بلند تھا۔ اُن کی تمام آمدنی فقراء اور درویشوں کے لیے وقف تھی اور بیگانوں اور آشنائوں سب کے لیے اُن کا دروازہ ہر وقت کُھلا رہتا تھا۔ 

اُن کی روزی بادشاہوں اور امراء کی فیاضی پر منحصر نہ تھی، بلکہ وہ مدرسے میں تعلیم دیتے اور اُسی کی آمدنی سے گزارہ کرتے۔ اُن کی ایک بہن، وفات پاگئیں، تو ان کے کم سِن بچّوں کی کفالت بھی حافظ نے کی۔ وہ مجذوب، صوفی یا آزاد مجرّد نہ تھے۔ انہوں نے شادی بھی کی تھی اور اُن کے دو بیٹے تھے۔ ایک بیٹا نوعُمری میں فوت ہوگیا۔ اُس کے مرثیے میں ایک غزل لکھی۔ اُن کی اہلیہ جو کہ ایک نیک سیرت اور انتہائی حسین و جمیل خاتون تھیں، عین شباب میں انتقال کرگئیں۔ حافظ کو اُن کی موت سے ایسا صدمہ ہوا کہ عُمر بھر دوسرا نکاح نہیں کیا۔ دوسرے بیٹے کا نام شاہ نعمان تھا۔ ان کا انتقال برہان پور،بھارت میں ہوا۔ قبر بھی وہیں قلعہ آسیر کے قریب ہے۔

ہر شخص میں فطری طور پر وطن کی محبت کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ جہاں انسان پیدا ہو، اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ وقت گزارے، اردگرد کے ماحول سے آشنا ہو اور جہاں بچپن اور جوانی کے شب و روز گزرے ہوں، اُس جگہ سے گہری وابستگی ہوہی جاتی ہے، لیکن حافظ کی شیراز سے محبّت اس قدر مثالی تھی کہ عُمر بھر کہیں اور جانے کا قصد نہ کیا۔ ایک بار یزد کے لوگوں کے بے حد اصرار پر وہاں تشریف لے گئے، تو دل نہیں لگا۔ ہر وقت اُداس رہتے اور شیراز کی یاد اور تعریف میں غزلیں لکھتے رہتے، لہٰذا جلدہی اپنےمحبوب شہر واپس لوٹ آئے۔

اس میں یقیناً اہل و عیال کی محبّت بھی کارفرما تھی۔ شیراز کے مشرقی سمت دو میل کے فاصلے پر ایک خوش نما مرغزار کا نام خاکِ مصلّٰے ہے، وہاں فرصت کے لمحات میں چلے جاتے، دل بہلاتے اور شاعری کرتے تھے۔ شیراز کے اکثر باغات اور سیرگاہیں اُسی جانب ہیں۔ یہ ایک نہایت سرسبز اور پُر فضا مقام ہے۔ وہ جگہ قدرتی مناظر اور تنہائی حافظ کی شاعرانہ طبیعت کے عین موافق تھی، اسی لیے تمام دنیا پر اُسے ترجیح دیتے۔ 

اس میں ہر طرف قدرتی سبزے کی بہار نظر آتی، خُوب صُورت رنگوں کے اتنے پُھول کِھلتے کہ لگتا گوشۂ جنّت ہے۔ وہاں رُکنا باد کے چشمے کا پانی اس قدر شفّاف اور شیریں ہے کہ حافظ کہتے ہیں؎ نمی دہند اجازت مرا بہ سیر و سفیر.....نسیم باد مصلی و آب رُکنا باد: ترجمہ (باغِ مصلّٰے کی نسیم اور رکنا باد کا چشمہ دونوں کہیں مجھے آنے جانے کی اجازت نہیں دیتے)۔ پھر اُس کی مدح میں مزید کہتے ہیں؎ بدہ ساقی می باقی کہ در جنّت نخواہی یافت.....کنارِ آب رُکنا باد گلگشت مصلی را۔ ترجمہ (اے ساقی باقی شراب بھی دے دے اس لیے کہ تُو جنّت میں نہ پاسکے گا۔ رُکنا باد کی نہر اور مصلے کی سیر گاہ۔‘‘

دیوانِ حافظ

حافظ شیرازی نے زیادہ کتب تحریر نہیں فرمائیں، اُن کے سوانح نگاروں کے مطابق، اُن کا سارا کلام محفوظ بھی نہیں ہے۔ جو کلام کتابی شکل میں موجود ہے، وہ اُن کے ایک شاگرد محمد گل اندام نے مرتّب کیا تھا۔اسی کو ’’دیوانِ حافظ‘‘ کہا جاتا ہے۔ دیوانِ حافظ میں500غزلیں، رباعیاں، قصیدے اور قطعات شامل ہیں۔ 

دیوان کے خطی نسخے ایران، ہندوستان، افغانستان، پاکستان اور ترکی کے کتب خانوں میں بھی موجود ہیں۔ ’’دیوانِ حافظ‘‘ اپنی ضخامت کے اعتبار سے کم، جب کہ معنوی حُسن کے اعتبار سے زیادہ شہرت کا حامل اور اُن کی پوری زندگی کا حاصل ہے، جو ہر دَور میں مقبول اور زبان زدِ خاص و عام رہا ہے۔ انہوں نے کمال بلاغت اور ایجاز سے عاشقانہ اور عارفانہ کیفیات کو ایک ساتھ جمع کیا۔ 

حافظ شیرازی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُن کی شاعری عشقِ مجازی سے متاثر تھی، لیکن بعد میں جب راہِ سلوک پر سفر شروع کیا، تو اُس پر عشقِ حقیقی کا رنگ غالب آگیا۔ اُن کے کلام میں جہاں مولانا روم کی حکمت کے موتی ملتے ہیں، وہیں سعدی کا درسِ عشق بھی ملتا ہے۔ انھوں نے بعض مقامات پر سعدی و رومی کی پیروی بھی کی۔ دیوانِ حافظ کی20سے زائد غزلیات سعدی کی بحر میں ہیں، ان غزلیات میں سعدی کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ 

بعض غزلیات میں مولانا روم کی جھلک نظر آتی ہے، مگر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کے استعمال، معنی خیزی اور دل آویزی میں اُن کا اپنا ہی رنگ ہی نمایاں ہے۔پھر اُن کے کلام میں ایک خاص طرح کی شیرینی بھی ہے۔ اکثر شعراء کے دیوان میں چند ایک غزلیات یااشعار ایک خاص رنگ میں ہوتے ہیں، تاہم ’’دیوانِ حافظ‘‘ کا ہر شعر پہلے سے بڑھ کر ہے، ہر غزل دوسری غزل سے بڑھ کر لُطف دیتی ہے۔ کلام میں ایساسحر ہے کہ جو قاری کو اپنے حصار میں جکڑ لیتا ہے۔

حافظ نے شاعری کے ذریعے جو عزت اور وقار حاصل کیا، وہ بہت کم شعراء کا مقدر بنا۔ شیراز میں رہنے کے باوجود اُن کا کلام سینہ بہ سینہ مُلکوں مُلکوں پہنچا اور اُن کی زندگی ہی میں اُن کی غزلیں نہ صرف ایران، بلکہ بغداد، عراق، جنوبی ہند اور بنگال تک پہنچ چکی تھیں۔ اُن کی شاعری کی گونج بادشاہوں، نوابوں اور روساء کے ایوانوں میں سُنائی دینے لگی۔ وہ حافظ کے کلام پر اس قدر فریفتہ ہوئے کہ انہیں تحفے تحائف اور دعوت نامے بھیجنے لگے۔ 

اُن سے ملنے اور میزبانی کے مشتاق رہنے لگے، لیکن حافظ اپنی سیرچشمی اور گوشہ نشینی کے باعث کہیں جانا پسند نہیں کرتے تھے؎ گرچہ دوریم بہ یاد تو سخن میگوییم..... بُعد منزل نبود در سفر روحانی۔ ترجمہ:(اگرچہ ہم دُور ہیں، لیکن تیری یاد میں باتیں کرتے ہیں، روحانی سفر میں منزل کی دُوری کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا)۔حافظ، قادر الکلام شاعر تھے۔ اُنھیں فی البدیہہ غزلیں کہنے میں کمال حاصل تھا۔ کسی مصرعے پہ اُسی وقت برجستہ مصرع کہنے میں شہرت رکھتے تھے۔ 

اسی حوالے سے ’’تاریخِ فرشتہ،، کے مصنّف نے ایک دل چسپ قصّہ رقم کیا ہے کہ’’ایک بار حاجی قوام الدین کے یہاں دعوت تھی۔ گرمی کا موسم تھا، پائیں باغ میں تخت بچھا ہوا تھا۔ اُس پر کھانا کھا رہے تھے۔ پانی کے کٹورے میں نیلے آسمان اور چاند کا عکس نظر آیا۔ اُس وقت یہ منظر بہت دل فریب معلوم ہوا تو فوراً یہ شعر کہا؎ دریائے اخضر فلک و کشتیٔ ہلال.....ہستند غرق نعمت حاجی قوام ما۔ ترجمہ:(آسمان جو نیلے دریا کی طرح ہے اور ہلال جو کشتی کے مشابہ ہے، ہمارے حاجی قوام کی نعمت میں غرق ہے)۔ موقعے کی مناسبت سے یہ شعر سُن کر لوگ واہ واہ کر اُٹھے۔ جس کے بعد اُنھوں نے اسی پر پوری غزل کہہ دی۔ اس طرح لاجواب غزلیں فی البدیہہ کہنا حافظ کا طرۂ امتیاز تھا۔

حافظ شیرازی .....مشرق و مغرب میں یک ساں مقبول

کسی شاعر کی عظمت کا اعتراف عوام النّاس کریں، تو اس میں کوئی تعجّب کی بات نہیں۔ خواص کے ہاں اُس کی مقبولیت قابلِ توجّہ ہے، لیکن جب اُس کے اپنے عہد کے عظیم شعراء اور بعد میں آنے والے ادَوار کے باکمال شعراء اُس کی تعریف میں رطب اللسان ہوں، تو وہ شاعر واقعی بلند مرتبہ اور نابغۂ روزگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ حافظ شیرازی بھی ایسی ہستی ہیں، جن کی شاعری مشرق و مغرب میں یک ساں مقبول ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ اگر فارسی کی تمام شاعری اکٹھی کرکے اس میں سے انتخاب کیا جائے، تو اتنے اچھے اور عمدہ اشعار صرف ’’دیوانِ حافظ، ہی میں ملیں گے۔ہاں، یہ ضرور ممکن ہے کہ مختلف ذوق کے افراد مختلف غزلوں کا انتخاب کریں۔ بہت سے لوگوں نے دیوانِ حافظ کے انتخاب کیے ہیں، لیکن وہ یک ساں نہیں ہیں۔ کسی کے نزدیک اس کے مزاج کے باعث اگر ایک غزل بہت اہم نہیں تھی، تو دوسرے نے اپنے مزاج کے مطابق وہی غزل اہم سمجھ کر انتخاب میں شامل کرلی۔ 

اس حوالے سے صائب کہتا ہے ؎ شعر حافظؔ شیراز انتخاب ندارد(حافظ شیرازی کی شاعری کا انتخاب نہیں ہوسکتا)۔ جب کہ مولانا حالی کہتے ہیں:’’جن اصولوں پر شیخ سعدی نے غزل کی بنیاد رکھی، اس کے بعد اکثر متغزلین نے وہی اصول اختیار کیے، کیوں کہ ان کے بغیر غزل کا سرسبز ہونا نہایت دشوار تھا اور اس طرح رفتہ رفتہ تمام ایران، ترکستان اور ہندوستان میں ایک آگ سی لگ گئی۔

ہر موزوںِ طبع نے غزل کہنا شروع کردی اور غزل گویوں کی تعداد حساب اور شمار سے بڑھ گئی، جس کے بعد بعض اکابر کی غزلوں نے تو شیخ سے بھی زیادہ شہرت اور رواج پایا۔ ایسے میں بالخصوص، حافظ شیرازی کی غزل نے اپنا وہ سکّہ جمایا کہ مذکورہ بالا مُمالک میں جو لوگ شعر کا مذاق رکھتے تھے یا فقر و درویشی کی چاشنی سے باخبر تھے، سب جان و دل سے اُس پر فدا ہوگئے۔ رقص و سرود کی محافل،حال و قال کی مجالس، قہوہ خانوں، شعراء کی صحبتوں، مشائخ کے حلقوں اور درودیوار سے ’’لسان الغیب‘‘ ہی کی آوازیں آنے لگی۔‘‘ معروف انگریزی ادیب، ہنری کلارک کے مطابق:’’دنیا کے کسی ملک میں کبھی کوئی ایسا عالی دماغ اور طباع شاعر پیدا نہیں ہوا۔‘‘ 

انگریزی زبان کے نام ور شاعر، ایمرسن نے حافظ شیرازی کو شاعروں کا شاعر قرار دیا ہے۔ جرمنی زبان کے عظیم فلسفی اور شاعر، گوئٹے نے انھیں ’’لاثانی‘‘ کہا ہے۔ اُس نے حافظ کی تقلید میں200غزلیں کہیں اور ایسی دل آویز کہیں کہ اُس کے مجموعے کو ’’ویسٹ ایسٹرن دیوان‘‘ کہا گیا۔ مغرب میں حافظ کا یہ ایسا تعارف ہے، جس نے اُن کی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔اسی طرح فارسی ادب کو انگریزی میں مقبول بنانے والے ایڈورڈ فٹزجیرالڈ نے حافظ کو ’’الفاظ کا بہترین موسیقار، کہا ہے۔

حافظ پر کئی کتابوں کے مصنف اور شاعر ڈینیل لیڈنسکی اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں:’’مجھے لگتا ہے کہ حافظ ’’روشنی کی افادیت‘‘ یا ’’سورج‘‘ کو بیان کرنے والے ایک نادر ماہر ہیں۔ وہ فن کی افادیت کے بھی ماہر ہیں۔ ان کی شاعری ضرورت مندوں کو راحت بخشنے، جِلا بخشنے اور مالا مال کرنے کی صلاحیتوں سے معمور ہے۔ 

فن کو عاشق ہونا چاہیے، اسے شعاع ریز ہونا چاہیے کہ جب آپ سردی محسوس کریں، تو یہ آپ کے قلب کو گرما دے۔‘‘ مختصر یہ کہ ان کے کلام کو پسند کرنے والوں اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے والوں میں جہاں ایک جانب مغل سلاطین، ملکہ وکٹوریا اور ملکہ ایلزبتھ وغیرہ کا ایک طویل سلسلہ ہے، وہیں معروف فلسفی نطشے اور شرلاک ہومز کا کردار تخلیق کرنے والے جاسوسی ناول نگار، سر آرتھر کانن ڈائل بھی اُن کے معترف نظر آتے ہیں۔

دیوانِ حافظ سے فال

کلامِ حافظ میں دیوان کو وہ مقبولیت حاصل ہے کہ اس سے لوگ فال تک نکالتے ہیں۔ دیوانِ حافظ سے فال نکالنے کے مختلف طریقے رائج رہے ہیں۔ بعض صاحبان ’’بسم اللہ،، پڑھ کر دیوانِ حافظ کھولتے ہیں اور پھر کسی شعر پر اُنگلی رکھ کر اس شعر کے مطلب سے فال نکالتے ہیں۔بعض صاحبان، دیوانِ حافظ کھول کر صفحے کے ساتویں شعر سے فال نکالتے ہیں۔ اس طرح فال نکالنے کے کئی اور طریقے بھی رائج ہیں۔

کلامِ حافظ اور فال نکالنے سے متعلق مولانا محمد میاں صاحب قمر دہلوی، مسجد فتح پوری دہلی لکھتے ہیں: ’’حافظ کا کلام جس طرح رندانِ قدح خوار کے لیے سرمستی اور خوش عیشی کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح ہمیشہ سے اہلِ باطن بھی اس سے استفادے کے قائل رہے ہیں۔ اہلِ صفا کی مجالس، حافظ کے زمزموں سے گونجتی رہی ہیں اور ان پر حافظ کے اشعار سے وجدو حال کی کیفیتیں طاری ہوتی رہی ہیں۔‘‘

غرض یہ کہ ایک بہت بڑا طبقہ ہے، جو اپنی مہمّات اور پیش آنے والے واقعات میں حافظ کے کلام سے فال نکال کر اپنے قلب کو مطمئن کرتا رہا ہے اور حافظ کی صدا کو ایک غیبی آواز یقین کرکے اپنے کاموں کی اس کو بنیاد بتاتا رہا ہے اور حافظ و کلامِ حافظ کو لسان الغیب کا درجہ دیتا رہا ہے۔ تیموری بادشاہ اپنے تمام مہمّات میں دیوانِ حافظ سے رہنمائی حاصل کرتے رہے ہیں۔ مغل سلاطین، ہمایوں، اکبر اور جہانگیر ہی نہیں، بلکہ عالم گیر بھی دیوانِ حافظ سے فال لے کر پیش قدمیاں کرتارہا ہے۔

حافظ کے تذکرہ نگاروں نے ایسے سیکڑوں واقعات نقل کیے ہیں، جن سے فال نکالنے والوں کو حافظ کے کلام سے محیرّ العقول اشارے حاصل ہوتے ہیں۔ تذکرۂ حسینی میں مذکور ہے: ’’ایک شخص کا بیٹا گم ہوگیا، بہت تلاش اور جستجو کی گئی، لیکن بیٹے کا کچھ پتا نہ چلا۔ بالآخر اس نے دیوانِ حافظؔ سے فال نکالی، تو یہ شعر سامنے آیا:فاش می گویم و از گفتہ خود دل شادم .....بندۂ عشقم و از ہر دو جہاں آزادم ۔ (کُھلم کُھلا کہتا ہوں اور اپنے کہے سے خوش ہوں، مَیں عشق کا بندہ ہوں اور دونوں جہان سے آزاد ہوں)۔ اس شعر میں جو اشارہ تھا، وہ نہ سمجھ سکا۔ کچھ عرصے بعد اُسے اُس کا بیٹا ایک خانقاہ میں فقیرانہ لباس میں ملا، فوراً فرطِ مسرّت سے اُس کی جانب لپکا اوربیٹے سے احوال دریافت کیا، تو اس نے بتایا کہ ’’مَیں نے فرقہ آزاداں اختیار کرلیا ہے اور شاہ عشق اللہ کا مرید ہوگیا ہوں۔‘‘ 

باپ نے شاہ عشق اللہ سے درخواست کی، تو انہوں نے بیٹے کو باپ کے حوالے کردیا۔ تب اس پر دیوانِ حافظ کے شعر کا مطلب واضح ہوا۔‘‘ ایک شخص کا بھائی قید تھا۔ اس نے دیوانِ حافظؔ سے فال نکالی، تو یہ مصرع سامنے آیا:کہ دمِ ہمّتِ ما کرد ز بند آزاد ست۔ اسی روز اُس کا بھائی قید سے رہائی پا کر گھر آگیا۔ مغل بادشاہ، ہمایوں نے جب ایرانی فوج لے کر ہندوستان پر حملے کا ارادہ کیا اور دیوانِ حافظ سے فال نکالی، تو یہ شعر سامنے آیا: عزیز مصر بہ رغم برادرانِ غیور.....ز قعر چاہ برآمد بہ اوج ماہ رسید۔ ترجمہ (عزیز ِمصر اپنے حاسد بھائیوں کی خواہش کے برعکس کنویں کے تہہ سے نکل کر چاند کی بلندی پرپہنچ گیا)۔ مغلیہ تاریخ میں درج ہے کہ اس حملے میں سب بھائیوں کو شکست دے کر وہ ہندوستان پر قابض ہوا۔اسی طرح جہانگیر جب بنگال کی مُہم پر جا رہا تھا، تو اس نے دیوانِ حافظ سے فال نکالی، تو یہ شعر سامنے آیا؎ خوردہ ام تیرِ فلک بادہ بدہ تا سرمست.....عقدہ در بندِ کمر ترکشِ جوزا فکنم۔ 

اس میں پیشانی پر تیر لگنے کی بات تھی اور اس مہم میں ان کے مقابل عثمان کی پیشانی پر تیر لگا اور اُس کی موت واقع ہوگئی، جس کے نتیجے میں جہانگیر کو بنگال پر فتح نصیب ہوئی۔ ایک موقعے پر جہانگیر، اکبر کی ناراضی کی وجہ سے الٰہ آباد میں مقیم تھا اور آگرہ کا سفر کرنے میں متردّد تھا۔ دیوانِ حافظؔ سے فال نکالی، تو غزل کا یہ شعر برآمد ہوا:چرا نہ در پی عزمِ دیارِ خود باشم.....چرا نہ خاکِ سر کوی یارِ خود باشم۔ جہانگیر فال نکالتے ہی آگرہ پہنچا، باپ سے ملا، تعلقات استوار ہوئے اور چند روز بعد اکبر کی وفات ہوگئی، جس کے بعد جہانگیر تخت و تاج کا وارث بنا۔

اپنی قبر سے متعلق پیش گوئی ....

حافظ کی وفات1390ء کو ہوئی اوروہ اپنے محبوب مقام ’’مصلی‘‘ میں دفن ہوئے۔ وفات کے تقریباً 65سال بعد اُن کی قبر پر ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا، جو ’’حافظیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ایرانی کیلنڈر کے مطابق، ہر سال 12 اکتوبر کو ملک بھر میں ’’یومِ حافظ‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران کےشہر شیراز میں دنیا بھر کے محقّقین کی موجودگی میں حافظ کی یاد میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

واضح رہے ،حافظ شیرازی نے اپنی قبر کے بارے میں ایک شعر میں جس طرح پیش گوئی کی تھی، وہ درست ثابت ہوئی اوران کی قبر آج ایک مشہور زیارت گاہ ہے؎ برسرِ تربت چوں گزری ہمّت خواہ.....کہ زیارت گہ رندان جہاں خواہد بود۔(ہماری قبر پر جب تمہارا گزر ہو، تو دعا مانگو، کیوں کہ ہماری قبر دنیا بھر کے رِندوں کی زیارت گاہ ہے)۔