مدّت کے بعد حلب کا ایک مال دار اور معزز آدمی جو شیخ سعدی کو پہلے سے جانتا تھا، اس طرف آنکلا، تو اُن پر نظر پڑتے ہی پہچان لیا۔ پوچھا ’’یہ کیا حالت ہے؟‘‘ شیخ سعدی جو اس جسمانی مشقّت اور اذیّت سے تنگ آ چکے تھے، اُس کے سامنے نہایت دردانگیز اشعار پڑھے اور کہا کہ ’’خدا کی قدرت ہے، جو شخص یگانوں سے کوسوں بھاگتا تھا، آج بیگانوں کے پنجوں میں گرفتار ہے۔‘‘ رئیسِ حلب کو شیخ سعدی پر ترس آیا، دس دینار دے کر انھیں رہائی دلوائی اور اپنے ساتھ حلب لے جاکر اپنی بیٹی سے اُن کی شادی کروا دی۔ بیٹی بہت بدمزاج اور زبان دراز تھی۔
شیخ، حسّاس طبیعت رکھتے تھے۔ اُن کا جینا دوبھر ہوگیا۔ ایک دن اُس نے شیخ کو طعنہ دیا کہ ’’کیا آپ وہی نہیں، جنھیں میرے باپ نے دس دینار دے کر رہائی دلوائی؟‘‘ شیخ سعدی بھی بلا کے حاضر جواب اور بذلہ سنج تھے، کیسے چُوکتے، فوراً جواب دیا۔ ’’ہاں! بے شک، دس دینار دے کر رہائی دلوائی، مگر ایک سو دینار کے بدلے آپ کے ہاں پھر قید کروادیا۔‘‘
شیخ سعدی نے انتہائی کٹھن زندگی گزاری، مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کیا۔ سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر صبر و رضا کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا۔ ’’گلستان‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔’’مَیں نے کبھی زمانے کی سختی اور آسمان کی گردش کا شکوہ نہیں کیا، مگر ایک موقع ایسا آیا کہ دامنِ استقلال ہاتھ سے چُھوٹ گیا کہ میرے پاؤں میں جوتے تھے، نہ خریدنے کے لیے پیسے۔ اسی حالت میں اُداس اور دل برداشتہ کوفے کی جامع مسجد جاپہنچا۔ وہاں ایک شخص پر نظر پڑی، جو پیروں سے معذور تھا۔ اُسی وقت سجدۂ شُکر بجا لایا اور ننگے پاؤں کو غنیمت سمجھا۔‘‘
عربی میں شیخ سعدی کی ایک نعتیہ رباعی زبان زدِ عام ہے۔ روایت ہے کہ جب شیخ سعدی نے اس رباعی کے تین مصرعے لکھ لیے؎ بلغ العلیٰ بکمالہ.....کشف الدجیٰ بجمالہ.....حسنت جمیع خصالہ۔تو چوتھا مصرع بالکل نہیں ہو رہا تھا کہ خواب میں حضرت محمدﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آقائے دو جہاںﷺ نے سعدی کو نعتیہ اشعار سُنانے کے لیے کہا۔ شیخ سعدی نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔’’ ابھی تین مصرعے ہوئے ہیں، چوتھا موزوں نہیں ہو رہا۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’وہ تین ہی سناؤ۔‘‘ شیخ سعدی نے مذکورہ بالا تین مصرعے پڑھے اور خاموش ہوگئے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ’’کہتے کیوں نہیں، ’’صَلُّوا عَلَیْہِ وآلِہ۔‘‘
شیخ سعدی کی شاعری، مقصدیت اور گہری معنویت کے ساتھ ان کی زندگی بھر کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ تھی۔ ہر شاعر کی زندگی کا حاصل ایک شعر ہوتا ہے، اُسی کے لیے وہ عُمر بھر سفر کرتا ہے۔ اسی طرح شیخ سعدی کی شاعری کا حاصل اُن کی یہ رباعی کہی جا سکتی ہے۔ بارگاہِ خداوندی میں کی گئی شیخ سعدی کی یہ دُعا بھی خاص و عام میں کافی مقبول ہے اور ہر دُعا کی زینت بنتی ہے؎ خدایا بحق بنی فاطمہؓ.....کہ برقول ایماں کُنی خاتمہ…اگر دعوتم رَد کنی در قبول …من و دست و دامان آلِ رسولؐ۔
ترجمہ :’’اے خدا! سیدہ فاطمہؓ کی اولاد کے صدقے، میرا خاتمہ ایمان پر کرنا، چاہے تو میری دُعا رَد کر دے یا قبول کر، کہ میں آلِ رسولؐ کے دامن سے لپٹا ہوا ہوں۔‘‘ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ’’میرے والد، عبدالرحیم دہلوی نے فرمایا، ایک بار مَیں درس سے واپس گھر آ رہا تھا، شیخ سعدی کے یہ اشعار میری زبان پر تھے؎ جز یاد دوست ہرچہ کنی عمر ضائع است.....جز سر عشق ہرچہ بگویی بطالت است.....سعدی بشو لوحِ دل از نقش غیر حق۔اچانک چوتھا مصرع ذہن سے اُتر گیا۔
اسی وقت ایک فقیر منش درویش ظاہر ہوا اور چوتھا مصرع یاد دلایا؎علمی کہ راہ حق ننماید جہالت است۔ مَیں نے اس درویش کا نیازمندی سے شکریہ ادا کیا اور اُن کی خدمت میں پان پیش کیا، تو مُسکراتے ہوئے بولے۔ ’’یہ مصرع یاد دلانے کی مزدوری ہے؟‘‘ مَیں نے عرض کیا۔ ’’نہیں، یہ تو بطور شکریہ پیش کر رہا ہوں۔‘‘ فرمایا۔ ’’مَیں پان نہیں کھاتا۔‘‘ پھرانہوں نے لمبا قدم اُٹھایا، جو کہ کوچے کے آخر تک گیا۔ مَیں سمجھ گیا، کوئی روحانی شخصیت تشریف لائی تھیں۔ مَیں نے کہا ۔’’اپنا نام تو بتاتے جائیے، تاکہ فاتحہ پڑھ لیا کروں۔‘‘ فرمایا ’’یہی فقیر سعدی ہے۔‘‘
شیخ سعدی، عجز و انکسار کے پیکر، نہایت خوددار اور عزتِ نفس کے محافظ تھے۔ غربت و افلاس کے ایّام میں بھی محض شکم پُری کے لیے کسی کے احسان مند نہیں ہوئے۔ ایک بار اسکندریہ میں تھے کہ سخت قحط پڑگیا۔ لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ ایک ایک نان کے لیے شرفاء عزت بیچنے لگے، صاحبانِ علم و فضل جبّہ و دستار گروی رکھوانے لگے۔ اسی شہر میں ایک خواجہ سرا نے لنگر خانہ کھول رکھا تھا، جہاں بھوک کے ستائے افراد کھانا کھایا کرتے تھے۔
سعدی کے چند دوستوں نے ان سے بھی خواجہ سرا کی دعوت میں جانے پر اصرار کیا، تو شیخ نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ شیر بھوک سے مر تو سکتا ہے، مگر خُودداری کا سودا نہیں کر سکتا۔سعدی کے شب و روز مختلف حالتوں اور کیفیتوں میں گزرتے تھے۔ کبھی تو بادشاہوں، امراء، رئیسوں اور مشائخ کی محفلوں میں ضیافتوں کا لطف اُٹھایا کرتے، تو کبھی بھوک، افلاس اور فاقہ مستی کے دن آ جایا کرتے، لیکن آپ کے لیے تَونگری اور فقیری یک ساں تھی۔
نہ تو شاہی درباروں میں اپنا توکّل و رضا چھوڑتے، نہ فقرو بے نوائی میں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے دیتے۔ سعدی کہتے ہیں۔’’نیک بخت وہ ہے، جو کھاتا، دیتا یا بوتا ہے۔ بدبخت وہ ہے، جو نہ خود کھاتا ہے، نہ کسی کو دیتا ہے، بلکہ جمع کرتا ہے۔‘‘ایک عالمِ دین اپنی تقریر میں شیخ سعدی کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’دنیا نے آپ کو کبھی ابو سعید ابوالخیر کے لباس میں دیکھا اور کبھی محی الدین ابنِ عربی کے روپ میں دیکھا۔‘‘
بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے زیادہ خطرناک کوئی اور فعل نہیں۔ مطلق العنان حکم ران کے سامنے اُس کا محاسبہ کرنا، اپنی جان سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ مگر شیخ سعدی جس مستی اور سرشاری کے ساتھ عام لوگوں سے ہم کلام ہوتے، اُسی بے باکی سے بادشاہوں کا احتساب کرتے تھے۔ اتابک ابوبکر علماء کا مخالف اور مشائخ و زہّاد کا بہت زیادہ خدمت گزار تھا۔ اُس کی تنبیہ کے لیے گلستان اور بوستان میں شیخ نے کئی حکایات لکھی ہیں۔ گلستان کی ایک حکایت ہے۔
ایک درویش نے بن باس لے رکھا تھا۔ درختوں کے پتّوں پر گزر بسر تھا۔ بادشاہ کو معلوم ہوا تو اُسے اپنے محل لے آیا۔ عمدہ رہائش، اچھے کھانے، نفیس کپڑے، دل کش لونڈیاں، خُوب صُورت غلمان، الغرض آرام و آسائش کا وافر سامان مہیّا کیا۔ نتیجتاً چند ہی روز میں درویش کا رنگ و روپ بدل گیا۔ عادات و اطوار میں بھی خُوب تغیّر آگیا۔ بادشاہ درویش کو اس حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کہا۔ ’’جس قدر مجھے علماء اور زہّاد سے محبت ہے، ایسی اور کسی جماعت سے نہیں۔‘‘ ایک وزیر نے عرض کیا۔ ’’حضور شرطِ دوستی یہ ہے کہ دونوں کے ساتھ بھلائی کی جائے، اس لیے علماء کو روپیا دینا چاہیے تاکہ اطمینان سے درس و تصنیف میں مصروف رہیں اور زہّاد کو کچھ نہ دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے زہد پر قائم رہیں۔‘‘
اتابک ابوبکر کے حسبِ حال ایک اور حکایت اپنے اندر نہایت لطیف طنز اور سبق لیے ہوئے ہے۔ ایک بادشاہ نے منّت مانگی کہ جنگ میں کام یابی پر زاہدین میں زرِ خطیر تقسیم کروں گا۔ جب وہ فاتح لوٹا تو منّت کے مطابق زہّاد کو بانٹنے کے لیے غلام کو کثیر رقم دی۔ غلام دانا تھا۔ شام کو ساری رقم واپس لے آیا اور عرض کیا۔ ’’بادشاہ سلامت! سارا دن بہت تلاش کیا۔ مگر شہر میں کوئی زاہد نہیں ملا۔‘‘ بادشاہ کو اس بات پر بہت غصّہ آیا۔
چوں کہ وہ زاہدوں سے محبّت کا دعوے دار تھا، سو اُسے یہ بھی علم تھا کہ شہر میں کتنے زاہد ہیں، لہٰذا بادشاہ نے غلام سے کہا۔ ’’میرے عِلم کے مطابق اس شہر میں چار سو سے زائد زہّاد ہیں اور تُو کہتا ہے، کوئی نہیں ملا۔‘‘ غلام نے جان کی امان چاہتے ہوئے عرض کیا۔ ’’حضور! جو زاہد ہیں، وہ تو لیتے نہیں اور جو لیتے ہیں، وہ زاہد نہیں۔‘‘
شیخ سعدی کی جرأت اور بے باکی ضرب المثل تھی۔ ظالم بادشاہوں کو کھری کھری سُنانے میں ہرگز رعایت نہیں کرتے تھے۔ چاہے اُس کا انجام کچھ بھی ہو۔ ایک دفعہ ایک بادشاہ، جس کے ظلم و ستم سے رعایا سخت مشکل میں تھی۔ اُس نے آپ سے دعائے خیر کی التجا کی۔ آپ نے بے تکلف فرمایا۔ ’’تیرے حق میں دوپہر تک خواب آلود رہنا افضل ہے، تاکہ اتنی دیر تک تو خلقِ خدا تیرے جور و ستم سے محفوظ رہے۔‘‘ خلقِ خدا کی بھلائی شیخ سعدی کا قبلہ اوّل، بنی نوع انسانیت کی فلاح نصب العین تھا۔
وہ خدا کی مخلوق میں کوئی فرق روا رکھنے کے قائل نہیں تھےاور کہتے ہیں؎ بنی آدم اعضای یک پیکرند.....کہ در آفرینش ز یک گوہرند.....چو عضوی بہ درد آورد روزگار.....دگر عضوہا را نماند قرار.....تو کز محنتِ دیگراں بی غمی..... نشاید کہ نامت نہند آدمی۔ یعنی ’’انسان ایک جوہر سے تخلیق ہوا ہے اور سب انسان ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں۔ اگر کسی عضو کو تکلیف ہو، تو باقیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ اور جو دوسروں کی تکلیف پر کوئی رنج و غم محسوس نہیں کرتے، اُنہیں انسان نہیں کہا جاسکتا۔‘‘ آپ کا دستور تھا کہ کھانے کے تین حصّے کیا کرتے تھے۔ ایک حصّہ خود کھالیا کرتے تھے۔
دوسرا فقیروں اور درویشوں کو دے دیا کرتے تھے اور تیسرا دروازے پر لٹکے چھینکے پررکھ چھوڑتے تھے، تاکہ اگر کوئی ضرورت مند آئے، تو وہ خود لے لیا کرے۔ سعدی کہتے ہیں۔ ’’کسی درویش سے اُس کی پریشان حالی اور قحط سالی کی صورتِ حال میں اُس وقت تک یہ نہ پوچھ کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے، تاآنکہ اُس کے زخم پر مرہم لگانے یا اُس کی دیکھ بھال کے لیے تیار نہ ہو۔‘‘ شیخ سعدی نے حصولِ تعلیم کے لیے اپنے آبائی شہر شیراز کو خیرباد کہا تھا اور پھر تعلیم کے بعد شوقِ سیّاحت اُنہیں مُلکوں مُلکوں لیے پھرا۔ جب سیر و سفر سے جی بَھر گیا، تو وطن کی یاد ستانے لگی۔
شیراز سے آنے والوں کی بابت معلوم ہوا کہ سعد زنگی کا بیٹا، قتلغ خاں ابوبکر تخت نشیں ہے اور اُس نے فارس کو، جو سال ہا سال سے آفات و حوادث کی زد میں تھا، قلیل عرصے میں سرسبز و شاداب کردیا ہے، تو شیخ سعدیؒ نے بھی شیراز کی جانب عزمِ سفر کیا۔ شیراز پہنچ کر شیخ کو علم و فضیلت ظاہری طور پر چُھپانا پڑی، کیوں کہ اتابک ابوبکر بے شمار خوبیوں کے باوجود علماء سے بدگمانی اور جاہل فقیروں سے عقیدت رکھتا تھا۔ ’’تاریخِ و صاف‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ایک جاہل شخص مشیخت مآب بن کر ابوبکر کے دربار میں آیا۔ اتابک نے اس کی بہت تعظیم و تکریم کی اور جب نمازِ مغرب کا وقت آیا، تو اس سے امامت کروائی۔
اس شخص نے قرأت غلط پڑھی، مگر اُس کے باوجود اتابک نے عقیدت و احترام سے اُسے بہت کچھ دے کر رُخصت کیا۔‘‘ ایسے ماحول میں شیخ سعدی علماء کے لباس میں کیسے رہ سکتے تھے۔ سو، اُنھوں نے اُس کے دربار میں جانے سے احتراز کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ خواجہ علاؤ الدین نے آپ کی خدمت میں پچاس ہزار دینار بھیجے، مگر آپ نے لینے سے انکار کر دیا، تو اُس نے اس رقم سے ایک خانقاہ تعمیر کروادی۔
شیخ سعدی شب و روز اس خانقاہ میں بسر کرتے اور دنیا کی بے ثباتی پر غور و فکر کرتے، لہٰذا گلستان کے آغاز سے متعلق خود سعدی کا کہنا ہے۔’’ایک رات میں اپنے گزرے دنوں کا جائزہ لے رہا تھا، زندگی کے اکارت جانے پر پچھتا رہا تھا اور اپنے حسبِ حال یہ شعر گنگنا رہا تھا؎ ہر دم از عمر می رود نفسی..... چون نگہ می کنم نماندہ بسی ۔ ترجمہ(سانس کی ڈور ہر لحظہ کم ہو رہی ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے، عُمر تھوڑی رہ گئی ہے)؎ ای کہ پنجاہ رفت و در خوابی.....مگر این پنج روزہ دریابی۔ ترجمہ (عمر کے پچاس سال گزر گئے اور تم ہنوز خوابِ غفلت میں ہو۔ اُٹھو، شاید باقی ماندہ چند روزہ مہلت سے کچھ فائدہ اُٹھا لو)۔
سعدی کی شہرئہ آفاق کتابیں..... گلستان، بوستان
اگرچہ سعدی نے باقی زندگی خاموشی سے بسر کرنے کی قسم کھا لی تھی، لیکن عُمر کی رائیگانی کے احساس کے باعث اور ایک دوست کے اصرار پر انہوں نے اپنی قسم توڑ دی۔ شیراز میں بہار کا موسم اپنے عروج پر تھا۔ ہر جگہ در و دیوار پر سبزہ و گل نمایاں تھے۔ دونوں دوست باغ کی سیر کے لیے نکلے تھے۔ اُن کے دوست نے رنگ رنگ کے پھول توڑ لیے۔
جب سعدی نے اُن شگفتہ پھولوں کی طرف دیکھا، تو شاعر اور فلسفی خیام کے انداز میں اُن کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے اپنے دوست سے کہا ’’میں ایک ایسی کتاب لکھوں گا، جو علم سے بھرپور اور دل چسپ ہوگی اور اُس میں دانش کے پھول کبھی مُرجھا نہیں پائیں گے، اُس کے اوراق بادِ خزاں کی دستِ برد سے محفوظ رہیں گے اور اُس کا نام ’’گلستان‘‘ ہوگا۔‘‘
پھر سعدیؒ نے ’’گلستان‘‘ میں لکھا ہے کہ قسم توڑنے کے بعد یہ اُن کی پہلی کتاب ہے، جو انہوں نے تصنیف کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’بوستان‘‘ اس سے ایک سال پہلے کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کو فارسی ادب کا شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ پرانے نسخوں میں اس کا نام ’’سعدی نامہ‘‘ درج ہے۔ سعدی نے بوستان کو اپنے اسفار کے دوران تصنیف کیا اور شیراز واپس آکر دوستوں کے سامنے پیش کی۔ یہ مکمل طور پر شعر و شاعری یعنی مثنوی میں لکھی گئی۔
اس کے دس ابواب میں 14000اشعار شامل ہیں۔ اخلاقیات، تعلیم، سیاست اور معاشرت پر مبنی اس کتاب کو شیخ سعدی نے حاکمِ وقت ،ابوبکر سعد زنگی سے منسوب کیا۔’’بوستان‘‘ کی طرح شیخ سعدی کی دوسری کتاب ’’گلستان‘‘ کو بھی فارسی ادب کی ایک بلند پایہ کتاب تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ نظم و نثر کا مرقّع ہے۔ اس کے آٹھ ابواب ہیں، جن میں سعدی نے اپنے تجربات و مشاہدات کو حکایات کی صُورت قلم بند کیا ہے۔ کچھ واقعات ایسے ہیں، جو انہوں نے دورانِ اسفار لوگوں سے سُنے۔ کتاب کی جادو بیانی اور شہرت کا چرچا شیخ سعدی کی زندگی ہی میں چار دانگِ عالم پھیل گیا تھا۔
شیخ سعدی جہاں بھی جاتے اُنہیں ’’گلستانِ سعدی‘‘ کے نام سے جاننے والے پہلے سے موجود ہوتے۔ سلیس اور سادہ زبان میں لکھی گئی کتاب، گلستان، فارسی کی پہلی کتاب ہے، جو کسی پرنٹنگ پریس میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی شیخ سعدی نے حاکمِ وقت، ابوبکر سعد زنگی کے نام کی؎ کہ سعدی کہ گوئی بلاغت ربود.....در ایّام بوبکر بن سعد بود۔ ترجمہ:(’’سعدی جو بلاغت کے میدان کا شہ سوار تھا، وہ بادشاہ، ابوبکر سعد کے زمانے میں تھا۔‘‘اُس وقت سعدی نے نہایت کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے، مگر آج گردشِ زمانہ نے ثابت کر دیا کہ سعد زنگی کا نام سعدی کی وجہ سے زندہ ہے۔
امریکا و یورپ میں شیخ سعدی کے اثرات
ڈیوڈ روزن بام نے 19ویں صدی میں ’’گلستان‘‘ کے ترجمے کے تعارف میں لکھا ہے کہ’’ سعدی قارئین کو یہ بُھلا دیتے ہیں کہ انہیں کچھ سِکھایا جا رہا ہے۔ سعدی کے اشعار شہد میں ڈوبی ادویہ ہیں۔‘‘یورپ میں شہرت حاصل کرنے والے اوّلین فارسی شعراء میں سعدی نے فرانس اور دیگر جگہوں پر والٹیر، ڈیڈرو، گوئٹے اور وِکٹر ہیوگو جیسے روشن خیال اور رومانوی مصنّفین پر واضح اثرات مرتّب کیے۔ امریکا میں سعدی نے رالف والڈو ایمرسن کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔
ایمرسن نے اپنی نظم میں شیخ سعدی کو ’’انسانی دِلوں کا دل دار‘‘ اور اُن کی حکیمانہ باتوں کو ’’آفاقی‘‘ قرار دیا۔ گلستان کے فرانس گالڈون کے ترجمے کے تعارف میں ایمرسن نے لکھا ہے کہ’’اگرچہ اُن کی زبان فارسی تھی، لیکن وہ ہومر، شیکسپیئر، سروینئیس اور مونٹین کی طرح تمام اقوامِ عالم سے مخاطب ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے تازہ کار ہیں۔‘‘بعض کا خیال ہے یورپ، فارسی ادب کو سعدی کی نظموں کی وجہ سے جانتا ہے، جب کہ بعض مصنّفین نے سعدی کو ’’مشرق کا شیکسپیئر‘‘ بھی کہا ہے۔ الطاف حسین حالی ’’حیاتِ سعدی‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’گلستان کی عظمت اور بزرگی زیادہ تر اس بات سے معلوم ہوتی ہے کہ جس قدر غیر زبانوں کا لباس اس کتاب کو پہنایا گیا ہے، ایسا فارسی زبان کی کسی اور کتاب کو نصیب نہیں ہوا۔‘‘ سعدی کو ’’گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ تحریر کیے ہوئے بہت سے خزاں کے موسم گزر چکے ہیں، لیکن جیسا کہ صدیوں پہلے شیراز سے واپس آنے کے بعد انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ اُن کی حکمت و دانش سے بَھری یہ کتابیں وقت کی آزمائش پر پوری اُتریں گی، تو وہ صد فی صد سچ ثابت ہوئی۔ سعدی کے بقول؎ گل ہمین پنج روز و شش باشد.....وین گلستان ہمیشہ خوش باشد۔
شیخ سعدی کے چند اقوال و حکایات
شیخ سعدی کی حکایات و اقوال دنیا بھر میں زبان زدِ عام ہیں۔ خصوصاً بچّوں کی تربیت کے حوالے سے چند اقوال ایسے ہیں، جن کے ذریعے بچّوں کی بہترین تربیت کی جاسکتی ہے۔
مثلاً ٭جس بچّے کی عُمر دس سال سے زیادہ ہوجائے، اُسے نامحرموں اور ایروں غیروں میں نہ بیٹھنے دو۔ ٭اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرا نام باقی رہے، تو اولاد کو اچھے اخلاق کی تعلیم دے۔ ٭اگر تجھے بچّے سے محبّت ہے، تو اُس سے زیادہ لاڈ، پیار نہ کر۔ ٭بچّے کو استاد کا ادب سکھاؤ اور استاد کی سختی سہنے کی عادت ڈالو۔٭بچّے کی تمام ضروریات خُود پوری کرو اور اُسے ایسے عمدہ طریقے سے رکھو کہ وہ دوسروں کی طرف نہ دیکھے۔ ٭شروع شروع میں پڑھاتے وقت بچّے کی تعریف اور شاباش سے اُس کی حوصلہ افزائی کرو، جب وہ اس طرف راغب ہوجائے، تو اُسے اچھے اور بُرے کی تمیز سکھانے کی کوشش کرو، ضرورت پڑے تو سختی بھی برتو۔ ٭بچّے کو دست کاری یعنی کوئی نہ کوئی ہُنر سکھاؤ۔ وہ ہنرمند ہوگا، تو بُرے دِنوں میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے، اپنے ہُنر سے کام لے گا۔ ٭بچّوں پر کڑی نظر رکھو، تاکہ وہ بُروں کی صحبت میں نہ بیٹھیں۔
چند دیگر اقوال
٭کوئی شخص اپنی لیاقت اور طاقت سے روزی حاصل نہیں کرتا۔ اللہ سب کا رازق ہے۔٭بڑے بڑے متکّبروں اور سرکشوں کا بھی اللہ کے سامنے جُھکے بغیر چارہ نہیں۔٭خداوند تعالٰی متحمّل بھی ہے اور رحیم و کریم بھی۔ وہ گناہ گاروں کو توبہ کے لیے مہلت دیتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو دامنِ رحمت میں ڈھانپ لیتاہے۔ ٭نطفے سے خُوب صُورت انسان بنا دینا، اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کا اعجاز ہے۔ پانی کی بوند پر ایسے نقش و نگار کوئی نہیں بناسکتا۔٭جب تُو خدا سے مغفرت و عطا کا طالب ہے، تو جن لوگوں کی اُمیدیں تیری ذات سے وابستہ ہیں، انہیں بھی محروم و مایوس نہ کر۔ ٭جیسا سلوک تو مخلوقِ خدا سے کرے گا، ویسا ہی سلوک اللہ تیرے ساتھ کرے گا کہ حقیقی بڑا تو وہ ہے، جو اپنے ہر چھوٹے کو پہچانتا ہو، اور اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہو۔ ٭جس مظلوم کو بادشاہ سے انصاف نہ مل سکے، اُسے اللہ تعالیٰ انصاف دیتا ہے۔٭آخرت میں نیکیوں کے مطابق مرتبے ملتے ہیں، اس لیے نیکی کرو۔٭جو شخص کوشش اور عمل میں کوتاہی کرتاہے، پیچھے رہنا اس کا مقدر ہے۔ ٭مصیبت میں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے، ہمّت سے اس کامقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمت طاقت سے زیادہ کام کرتی ہے۔ ٭احساس کیا ہے؟ دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا۔ ٭منصف اور عادل کو اللہ اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا۔٭آدمی وہ ہے، جس کی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچے، وگرنہ وہ پتھر ہے۔٭نیکی کرنے والا نیکی کا صلہ ضرور پاتا ہے۔٭بے رحم انسان نہیں، درندہ ہے۔ ٭مظلوم کی تکلیف تو چند ساعت کی ہوتی ہے، مگر ظالم ابدی مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔٭نصیحت اگرچہ ناخوش گوار لگتی ہے، لیکن اس کا انجام خوش گوار ہوتاہے۔ ٭ظالم جب تک ظلم نہیں چھوڑتا، اُس کے حق میں کوئی دُعا قبول نہیں ہوتی۔٭دنیا بے وفا اور انتہائی ناقابلِ اعتبار ہے، اس سے فائدہ وہی شخص اٹھاتاہے، جو اسے مخلوقِ خدا کی اصلاح اور فلاح میں لگا دیتا ہے۔ ٭دولت کو صدقۂ جاریہ میں لگاؤ ،آخرت سنور جائے گی۔