• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے وزیرِ اعظم، میاں محمّد شہباز شریف نے رواں برس جون میں چین کا دورہ کیا، جو وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اُن کا پہلا دورۂ چین تھا۔ اُنھوں نے اِس دورے کے دَوران چینی رہنما، صدر شی جن پنگ اور وزیرِ اعظم، لی کیانگ سے ملاقاتیں کیں، جن میں چین اور پاکستان کے درمیان روایتی دوستی کا تفصیلاً جائزہ لیا گیا۔

نیز، دونوں ممالک کے رہنماؤں نے باہمی تعلقات میں اضافے اور اس میں مزید مضبوطی کے لیے منصوبہ بندی بھی کی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو معاشی ترقّی کے لیے بیرونی مدد کی بے حد ضرورت ہے اور اِس مقصد کے لیے چین کا انتخاب ایک بہترین فیصلہ ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان ایک ہمہ موسمی، تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری قائم ہے اور پھر یہ کہ دونوں ممالک میں عوامی سطح پر بھی اتحاد، اعتماد اور تعاون کی روشن مثالیں موجود ہیں، جن میں وقت کے ساتھ مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

چین کے پاس ایک بڑی مارکیٹ، مکمل صنعتی نظام اور جدید پیداواری صلاحیت تو موجود ہے ہی، مگر عمومی معاشی لچک بھی خاصی زیادہ ہے۔علاوہ ازیں، اِس کی مستحکم مالی ضمانت اور صنعتی صلاحیت، پاکستان کی صنعتوں کو اَپ گریڈ کرنے اور ہماری اقتصادی ترقّی میں بھرپور ممدو معاون ثابت ہوسکتی ہے۔اِن دونوں ممالک نے 2013ء سے پاک، چین اقتصادی راہ داری کے تحت تعاون کی ایک نئی مثال قائم کی۔ 

نقل و حمل کے نیٹ ورک سے لے کر توانائی کے بنیادی ڈھانچے تک اور بندرگاہوں کے منصوبوں سے زرعی برآمدات تک، پاکستان نہ صرف وسیع ترقّی کے مواقع سے مستفید ہو رہا ہے، بلکہ اس نے مختلف چینی کمپنیز سے اشتراک و انضمام کے ذریعے ایک مضبوط صنعتی بنیاد بھی استوار کرلی ہے اور اب وزیرِ اعظم، شہباز شریف پاکستان اور چین کے کاروباری اداروں کے روابط میں مزید فروغ، ٹیکنالوجی منتقلی میں اضافے، پاکستان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی ترقّی اور اقتصادی راہ داری کی تعمیر کے ایک نئے مرحلے کے آغاز کی اُمید رکھتے ہیں۔

اعلیٰ پائے کی تعمیر و ترقّی:

میاں محمّد شہباز شریف نے اپنے دورۂ چین میں اِس امر کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا کہ چین نے عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر ترقّیاتی کام یابیاں حاصل کی ہیں، جن سے مختلف لوگوں کے طرح طرح کے پھیلائے گئے تمام شکوک و شبہات دُور ہو گئے ہیں۔ چین نے جہاں ترقّی کی دوڑ میں نمایاں کام یابیاں حاصل کیں، وہیں ہر لحاظ سے ایک اعتدال پسند اور خوش حال معاشرے کی تشکیل و قیام میں بھی کام یاب رہا۔ اِس ضمن میں پاکستان بھی غربت میں کمی کے چینی تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

پاکستانی عوام کی ترقّی کرنے کی صلاحیت:

وزیرِ اعظم، شہباز شریف نےاپنے دورۂ چین میں 79پاکستانی کمپنیز کے نمایندوں اور 100سے زائد کاروباری رہنماؤں کے وفد کی معاونت سے صنعت، زراعت، کان کنی، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تعاون کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ تب ہی ’’کیا پاکستان، چینی صنعتی اداروں اور کمپنیز سے مقابلہ کرسکتا ہے،‘‘ جیسے موضوع پر چینی تاجروں اور صنعت کاروں میں سیر حاصل بحث و مباحثہ بھی ہوا، جو تاحال جاری ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو پاکستان مستقبل میں تعمیر وترقّی کے لیے بے حد پُراعتماد ہے۔

دوم، نیز، اس کی آبادی241 ملین تک پہنچ چُکی ہے، گویا یہ ایک بہت بڑی مارکیٹ بنتا جارہا ہے، پھر یہ کہ70 فی صد آبادی40 سال سے کم عُمر افراد پر مشتمل ہے۔ نیز، یہاں کی لیبر مارکیٹ بہت وسیع ہے، مزدوری کی مَد میں معاوضہ لاگت نسبتاً کم لیا جاتا ہے اور عام طور پر لیبر ہنرمند اور کسی حد تک خواندہ ہے۔ نیز، پاکستان مختلف اقسام کے قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے، خاص طور پر تیل اور قدرتی گیس کے ساتھ، تانبے، لوہے، مینگنیج اور بارائٹ کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں۔

جب کہ21جولائی کو ایک انگریزی روزنامے نے رپورٹ کیا کہ چین کی ٹیکسٹائل، طبّی آلات، پلاسٹک اور چمڑے کی کئی کمپنیز نے اپنی صنعتیں فوری طور پر پاکستان منتقل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اِس ضمن میں اُن کی طرف سے ایک جامع روڈ میپ بھی موصول ہوا ہے، تو اس اِس پیش رفت سے یقیناً پاکستان کے معاشی ماحول میں بہت بہتری آئے گی، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا۔

چین اور پاکستان کی دوستی مختلف ادوار میں بہت سے امتحانات اور آزمائشوں سے گزری ہے، مگر الحمدللہ، یہ ہرگزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان، چین کی صنعتوں کو اپنانے اور اُن کی میزبانی کے لیے مکمل طور پر تیار نظر آتا ہے، جس سے مشترکہ ترقّی کی نئی راہیں کُھلنے کی اُمیدیں بَر آئی ہیں۔